حسد ایک ایسا منفی جذبہ اور نفسیاتی کیفیت ہے جو بغیر کسی معقول اور جائز وجہ کے حاسد کو محسود کے خلاف نفرت اور دشمنی پر آمادہ کر دیتی ہے۔ حاسد محسود کو ملنے والی نعمتوں پر بغیر وجہ کے جلن اور گھٹن کا شکار رہتا ہے اور اس کی ہمہ وقت یہ تمنا ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح محسود کو لوگوں کی نگاہوں سے گرا دیا جائے۔ اسی طرح اس کے دل میں ہمہ وقت یہ خیال رہتا ہے کہ جو نعمت محسود کے پاس موجود ہے وہ اس سے چھن جائے۔ حاسد محسود کے خلاف غلط بیانی، کذب، افترا، بہتان تراشی اور منفی سازشوں کے تانے بننے میں مصروف رہتا ہے۔ حسد کے نتیجے میں انسان کی شخصیت اور فطرت مسخ ہو جاتی ہے اور وہ اچھی اور بلند اخلاقی صفات سے محروم ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ دنیا اور آخرت کو خود اپنے ہاتھوں سے تباہ و برباد کر لیتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں بعض ایسے لوگوں کا ذکر کیا‘ جنہوں نے بلا جواز کچھ لوگوں سے حسد کیا اور تباہی اور ہلاکت کے گڑھے میں گر گئے۔
سورہ مائدہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا واقعہ بیان فرمایا ہے‘ جن میں سے ایک بیٹے کی قربانی کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے قبول کر لیا اور دوسرے کی قربانی کو قبول نہ کیا۔ جس کی قربانی قبول نہ ہوئی وہ اپنے بھائی کے خلاف حسد میں مبتلا ہو گیا اور اس سے کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کروں گا۔ اس کے بھائی نے اسے تلقین کی کہ تو مجھے قتل کرنے کی بجائے اپنی ذات میں تقویٰ پیدا کر‘ بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ اہل تقویٰ کی قربانیوں کو قبول کرتا ہے‘ لیکن اس تلقین کے باوجود حاسد بھائی اپنی اصلاح پر آمادہ و تیار نہ ہوا اور اس نے اپنے بھائی کو شہید کر دیا۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ یوسف میں بڑی تفصیل کے ساتھ برادران یوسف کا واقعہ بیان فرمایا ہے‘ جو اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کی حضرت یوسف علیہ السلام سے بے پناہ محبت کی وجہ سے حسد میں مبتلا ہو گئے۔ اب بھائیوں کی ایک ہی تمنا تھی کہ کسی تدبیر کے ذریعے حضرت یوسف علیہ السلام کو حضرت یعقوب علیہ السلام سے جدا کر دیا جائے؛ چنانچہ انہوں نے ایک سازش تیار کی کہ ہم حضرت یوسف علیہ السلام کو کھیلنے کے بہانے جنگل میں لے جائیں گے اور ان کو کسی کنوئیں میں ڈال دیں گے۔ اس طریقے سے حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام کے درمیان جدائی پیدا ہو جائے گی اور ہم اپنے باپ کی نظروں میں معتبر اور محبوب ہو جائیں گے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالے سے اپنی تمنا کا اظہار جب انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے سامنے کیا تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے اندیشہ ظاہر کیا کہ تم جوان ہو اور یوسف علیہ السلام چھوٹی عمر کے ہیں‘ ایسا نہ ہو کہ تم اپنے بھائی سے غافل ہو جاؤ اور کوئی بھیڑیا ان کو کھا جائے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے خدشہ اور اندیشے کو ذہن نشین کر لیا اور حضرت یعقوب علیہ السلام کو وقتی طور پر یوں مطمئن کیا کہ ہم جوان ہیں تو کیونکر ممکن ہے کہ یوسف علیہ السلام کو ہماری موجودگی میں بھیڑیا کھا جائے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے اندیشے کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے وہی بہانہ بنایا جس کا کھٹکا حضرت یعقوب علیہ السلام کے دل میں پہلے سے موجود تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں اتارنے کے بعد ان کے لباس پر جھوٹا خون لگا کر حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس آئے اور ان کو یہ بات کہی: بابا! وہی ہوا جس کا آپ کو اندیشہ تھا‘ بھائی یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کی اس بات سے مطمئن نہ تھے لیکن صبر کرنے کے سوا کوئی چارا نہ تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کے درمیان جدائی ڈالنے کے باوجود آپ علیہ السلام کے حسد میں مبتلا رہے اور جس وقت حضرت یوسف علیہ السلام عزیز مصر بن چکے تھے اورآپ نے ایک تدبیر کے ذریعے حضرت بنیامین علیہ السلام کو اپنے پاس روک لیا تو اس موقع پر بھی ان کے بھائیوں نے بڑی عجیب بات کہی کہ اگر بنیامین نے چوری کی ہے تو اس سے قبل اس کا بھائی یوسف بھی چوری کیا کرتا تھا۔ مدت مدید گزر جانے کے باوجود اس حاسدانہ طرز عمل پر جناب یوسف علیہ السلام کو بہت افسوس ہوا‘ لیکن آپ علیہ السلام نے اپنے جذبات اور احساسات کو اپنے بھائیوں کے سامنے ظاہر نہ کیا اور اس معاملے کو اللہ تبارک و تعالیٰ پر چھوڑ دیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی حضرت یوسف علیہ السلام کو باپ کے پیار سے محروم کرنا چاہتے تھے اور اپنے باپ کی نظروں میں ہر دل عزیز ہونا چاہتے تھے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے حسد کے باوجود حضرت یوسف علیہ السلام کو سرخرو کیا اور ان کو مصر میں حکومت عطا کر دی۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں کے احساسات، جذبات اور تمناؤں کے برعکس دنیا اور آخرت کی ترقی کے مدارج طے کرتے رہے اور ان کے بھائیوں کا کوئی منفی جذبہ ان کو نقصان یا ٹھیس پہنچانے کا سبب نہ بن سکا۔
قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ یہود کی ایک بڑی تعداد حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت‘ نبوت اور آپ پر اترنے والی کتاب کو اپنے علم اور سابق کتب میں مذکور نشانیوں کی وجہ سے پہچان چکی تھی لیکن صرف حسد کی وجہ سے ان کی غالب اکثریت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہ ہوئی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں اس بات کا ذکر کیا کہ وہ لوگ ان (محمدؐ)کو اس طرح پہچانتے ہیں کہ جس طرح اپنے گھر میں پیدا ہو نے والے بیٹوں کو پہچانتے ہیں‘ اس کے باوجود ان میں سے ایک گروہ حق چھپاتا ہے اور اسے علم ہوتا ہے کہ حقیقت حال کیا ہے۔ ابوجہل کو بھی حق سے عداوت اور حسد تھا اور اس نے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والی کتاب حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا یا ہمیں عذاب الیم میں مبتلا کر دے۔
حسد اس حد تک انسان کے دل میں منفی احساسات اور کیفیات پیدا کر دیتا ہے کہ وہ محسود کے ذریعے آنے والے حق اور سچ بات کو بھی قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہیں ہوتا۔ حاسد کو صرف اسی صورت میں اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ جب محسود سے نعمتیں چھن جائیں اور وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل اور عنایات سے محروم ہو جائے۔ لیکن کتاب و سنت اور تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو نعمتیں اور عنایات تیار کر رکھی ہیں وہ اس کو مل کر رہتی ہیں اور حاسد کے جذبہ حسد کی وجہ سے وہ کبھی اس سے نہیں چھینی جاتیں۔ وہ عروج اور ترقی جو انسان کے مقدر میں ہوتی ہے پروردگار عالم اس کو عطا کرکے ان کی تسلی و تشفی کا انتظام کرتے اور دنیا اور آخرت کی کامیابیوں کے دروازے بھی اُس کے لیے کھول دیتے ہیں۔ اس عروج اور ترقی کی وجہ سے حاسد کے جذبہ حسد اور اس کی جلن اور گھٹن میں بھی متواتر اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ حاسد چونکہ محسود کو ہمہ وقت نقصان پہنچانے پر آمادہ و تیار رہتا ہے اس لیے محسود کو حاسد کی سازشوں سے بچنے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے رہنا چاہیے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ فلق میں جہاں ہر چیز کے شر اور گرہوں پر پڑھ پڑھ کر پھونکنے والیوںکے شر سے بچنے کے لیے صبح کے رب کی پناہ کی طلب کرنے کی تلقین کی‘ وہیں پر حاسد کے حسد سے بچنے کے لیے بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیت کا نزول فرمایا کہ حاسد کے حسد سے کہ جس وقت وہ حسد کرنے لگے (صبح کے رب کی پناہ طلب کی جائے)۔ انسان کو چاہیے کہ ہر آن اللہ تبارک و تعالیٰ کی پناہ طلب کرتا رہے۔ اگر انسان اپنا تعلق اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ استوار رکھے اور اس کی پناہ میں آنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے تو کوئی حاسد اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ حاسد کو بھی اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ حسد انسان کی نیکیوں، تقویٰ اور اچھے احساسات کو مجروح کرتا ہے اور اس کو نیکی کے راستے سے ہٹاتا ہے۔ انسان کو کسی کو ملنے والی نعمتوں پر حسد کرنے کی بجائے اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنی امیدوں کو وابستہ اور اس کے فضل کو طلب کرتے رہنا چاہیے۔ جو اللہ تبارک و تعالیٰ کسی ایک انسان کو اپنی نعمتوں سے نواز سکتے ہیں وہ دوسرے انسا ن پر بھی اپنے فضل اور رحمت کی بارش کر سکتے ہیں اور اس کو بھی اپنی نعمتوں اور عنایات سے فیضیاب کر سکتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں دوسروں سے حسد کرنے سے بچائے اور جب کوئی حاسد حسد کرنے لگے تو اس کی شرارتوں سے بھی محفوظ فرمائے۔ آمین۔