"AIZ" (space) message & send to 7575

موت کے بعد

موت ایک ایسی حقیقت ہے جس پر جمیع انسانیت کا اتفاق ہے۔ تمام مذاہب کے پیروکار اور الہامی کتابوں پر یقین رکھنے والے موت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات اور آخرت کے بارے میں شکوک وشبہات کااظہار کرتے ہیں وہ بھی موت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ اگرچہ تمام انسانیت کا موت پر اتفاق ہے لیکن موت اور اس کے بعد کیا ہوگا کے حوالے سے انسانوں کی اکثریت شدید غفلت کا شکار ہے۔ انسانوں کی بہت بڑی تعداد دوسروں کو مرتا دیکھ کر بھی یہ خیال کرتی ہے کہ شاید وہ خود موت کے شکنجے سے بچ جائیں گے ۔ موت پر یقین رکھنے کے باوجود جس حدتک انسان اس سے غافل ہے اس سے کہیں زیادہ بے یقینی اور غفلت موت کے بعد کی زندگی کے حوالے سے پائی جاتی ہے۔ انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ذہانت، فطانت، عقل ، مشاہدے اور تجزیے کی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ وہ ان صلاحیتوں کے ذریعے اپنے معاملات کو طے کرنے اور اپنی مشکلات پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنی معیشت، کاروبار ،تعلیم اور دیگر مسائل کو ان صلاحیتوں کے ذریعے قابو پانے کے لیے پوری زندگی تگ ودو کرتا رہتا ہے لیکن وہ زندگی کے سفر اوراس کے منطقی انجام کے بارے میں جس حد تک غفلت کا شکار ہے اس سے یوں محسوس ہوتا ہے اس کی ذہانت، فطانت، عقل اور علم اس کو صرف اور صرف ظاہر بینی اور مستقبل قریب کی چیزوں کے بارے میں غور وفکر کرنے کے قابل بنا رہی ہے اور اس کے پاس دور اندیشی اور زندگی سے متعلق اہم ترین حقائق پر غوروفکر کرنے کا صحیح معنوں میں وقت ہی موجود نہیں۔ 
جب ہم اپنے گردوپیش پر نظر ڈالتے ہیں تو لوگوں کی بڑی تعداد کو تعلیم اور دیگر فنون میں مہارت حاصل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اس ساری تگ ودو کا مقصد اپنی دنیاوی زندگی کو سنوارنا ہوتا ہے۔ لوگ اپنی محنت کے ذریعے اپنی زندگی کو سنوارنے میںبہت حد تک کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ اس زندگی کی کامیابی کو عام طور پر روپے، پیسے، مکان، بینک بیلنس، اچھی شریک حیات اوربچوں کی کامیابی کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن موت اور اس کے بعد کی زندگی کی تیاری کے حوالے سے انسان کیا کرتا ہے ؟اس سوال کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ انسانوں کی بڑی تعداد اس حوالے سے لاپروائی اور غفلت کا شکار ہے۔ موت آئے گی اور یقینا آئے گی اور ہر ذی روح کو فنا کاجا م پینا پڑے گا۔ موت کے بعد کیا ہوگا ؟کیا انسان مٹی کے ساتھ مل کر مٹی ہوجائے گا یا موت کے بعد اس کو دوبارہ زندگی حاصل ہو گی ۔ اس حوالے سے اگرچہ الہامی کتب اور بالخصوص قرآن مجید میں بڑے واضح قسم کے تصورات اور بیانات موجود ہیں لیکن اس کے باوجود انسانوں کی کثیر تعداد اس حوالے سے شکوک وشبہات کا شکار ہے۔ وہ زندگی کو انتہائی محدود اور سطحی انداز میں دیکھ رہی ہے اور انسانوں کی پیدائش اورا موات کے تسلسل کو دیکھ کر بھی نظر انداز کرتی جا رہی ہے۔ حقیقی بات یہ ہے کہ پیدائش سے لے کر موت تک کا سفر جن جن مراحل سے گزرتا ہے وہ اس حقیقت کی بڑے واضح انداز میں نشاندہی کرتا ہے کہ انسان کو یقینا مرنا پڑے گا اور مرنے کے بعد اپنے اعمال کے لیے جوابدہ بھی ہونا پڑے گا۔ کئی مرتبہ انسان اپنی ہڈیوں کے دوبارہ جمع ہونے ، اپنے گوشت کے دوبارہ زندہ ہو جانے اور اپنی عقل وشعور کے دوبارہ واپس آنے پر حیرت کا اظہار کرتا ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر انسان کے ذہن میں اُٹھنے والے ان شکوک وشبہات کا ازالہ کیا ہے۔ سورہ قیامہ کی آیت نمبر3 اور 4 میں اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کے اسی وہم کا جواب دیتے ہیں کہ ''کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کوجمع ہی نہیں کریں گے ہاں ضرور کریں گے‘ہم تو قادرہیں کہ اس کی پور پور تک درست کر دیں۔‘‘ اسی طرح سورہ یٰسین کی آیت نمبر 77 تا 79 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی بات کا ذکر کیا کہ ''کیا انسان کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہم نے اسے پانی کی بوند سے پیدا کیا ہے پھر یکا یک وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھااور اس نے ہمارے لیے مثال بیان کی اور اپنی پیدائش کو بھول گیاکہنے لگا ان گلی سڑی ہڈیوں کوکو ن زندہ کر سکتا ہے ؟ کہہ دیجئے ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی مرتبہ پیداتھا اور وہ سب طرح کی پیدائش کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔ ‘‘اللہ تبار ک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں بعض ایسے واقعات کو بھی بیان کیا ہے جن میں اسی دنیا میں رہتے ہوئے بعض انسان وقتی طور پر سو گئے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو دوبارہ لمبے عرصے کی نیند کے بعد بیداری عطاء فرمائی۔ سورہ بقرہ میں ایک سابقہ شخصیت کا ذکر ہے جن کے بارے میں بعض مفسرین کا گمان ہے کہ وہ حضرت عزیر علیہ السلام تھے۔ جب وہ ایک اجڑی ہوئی بستی سے گزرے تویہ کہنے لگے کہ اس کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اسے کس طرح زندہ کرے گا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو سوبرس کے لیے سلا دیااور دوبارہ جب ان کو بیدار کیا تو انہوں نے دیکھا ان کا گدھا ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے دیکھتے ہی دیکھتے اس گدھے پر دوبارہ کھال چڑھائی اور دوبارہ اس کو زندہ کر دیا۔اس کے برعکس وہ جو کھانااور پینا رکھ کر سوئے تھے ان میں کسی قسم کی باس پیدا نہ ہوئی تھی۔ جب انہوں نے سارے منظر کو دیکھا تواللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت کو بھانپ گئے اور شرح صدر سے کہنے لگا کہ بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ 
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اصحابِ کہف کا بھی ذکر کیا کہ چند نوجوان اپنے ایمان کو بچانے کے لیے اپنی قوم سے کنارہ کشی اختیار کرکے ایک غار میں چلے گئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو 309 برس کے لیے سلا دیا۔ جب وہ دوبارہ بیدار ہوئے تو یہ گمان کر رہے تھے کہ دن کا کچھ حصہ ہی سوئے ہوں گے ۔ لیکن بعد میں انہیں اندازہ ہوا کہ وہ کئی سو برس تک سوتے رہے ہیں۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بھی قرآن مجید میں موجود ہے کہ انہوں نے پروردگار عالم کے سامنے اپنی اس تمنا کو رکھا کہ اے پروردگار تو مُردوں کوکیسے زندہ کرتا ہے؟ تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں چار پرندوں کو ٹکڑے کر کے مختلف پہاڑوںپر رکھنے کا حکم دیا اور رکھنے کے بعدانہیں پکارنے کے لیے کہااور ان کو بتلایا کہ جب آپ انہیں پکاریں گے تو پرندے اڑتے ہوئے آپ کی طرف آئیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایاکہ ''جان رکھواللہ تبارک وتعالیٰ زبردست حکمت والا ہے۔‘‘ 
یہ واقعات اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے مخلوقات کو ازسر نو زندہ کرنا چنداںمشکل نہیں۔ مرنے کے بعد انسان جو کچھ دنیا میں کرتا رہا ہے اس کو اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں جوابد ہ ہونا پڑے گا۔ زندگی کا یہ سفر موت کے ساتھ ختم نہیں ہوگا۔ بلکہ موت کے ساتھ ایک نئی زندگی شروع ہو جائے گی۔ عالم برزخ کے بعد عالم حشرمیں منتقل ہو گاجہاں پر میزان عدل کو قائم کیا جائے گا اوراس میزان میں انسانوں کے نامہ اعمال کو تولنے کے بعد ان کو ان کے اعمال کے مطابق ان کے ٹھکانے پر پہنچا دیا جائے گا۔ اس ٹھکانے پر پہنچ کر انسان اپنی زندگی میں کئے ہوئے اعمال کا بدلہ پا لے گا۔ انسان بہت زیادہ ترقی کر چکا ہے اور خلاؤں اور فضاؤں کو مسخر کرنے کی بات کر رہا ہے لیکن زندگی کے بعداعمال کی جواب دہی کے حوالے سے زبردست غفلت کا شکار ہے ۔ انسان کو چاہیے کہ اس آنے والی زندگی کے بارے میں بھی پوری طرح غوروفکر کرکے اس کی تیاری کے لیے اپنے آپ کو آمادہ وتیار کرے تاکہ موت کے بعد اپنے اعمال کے حوالے سے کامیاب ہو سکے۔ 
یہ مقام فکر ہے کہ وہی انسان جو چند سو گز کے پلاٹ کے لیے دن رات دوڑ دھوپ کرتا رہتا ہے اور وہی انسان جو اچھے لباس‘ اچھی خوراک اور اچھی رفیق حیات کی تلاش میں زندگی کے کئی برس تگ ودو میں گزار دیتا ہے۔ وہی انسان جنت میں لعل یاقوت کے محلات ، حوروں کی رفاقت، غلمان کی خدمت اور حریرودیبا کے لباس کو حاصل کرنے کے لیے اپنا معمولی سا وقت بھی صرف کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ وہی انسان جو دنیا میں سورج کی تپش سے بچنے کے لیے مختلف طرح کے انتظامات کرتا ہوا نظر آتا ہے اور چلچلاتی ہوئی دھوپ سے بچنے کے لیے ائیر کنڈیشنر ،کولر اور پنکھوں کو نصب کرتا ہوا نظر آتا ہے وہ جہنم کی آگ اور اس کے انگاروں سے بچنے کے لیے اپنی توانائیوں کا کچھ حصہ بھی صرف کرنے کے لیے آمادہ وتیار نہیں۔انسان عقل مند اور ذہین ہونے کے باوجود ان معاملات میں کس قدر کوتاہ بین اور حماقت کا شکار نظر آتا ہے۔ موت کے بعد کی زندگی ایک حقیقت ہے اس حقیقی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں زندگی کے ماہ وسال عطا کیے ہیں ہمیں ان ایام کو ضائع کرنے کی بجائے صحیح طور پر ان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضاکے لیے صرف کرنا چاہیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی کامل تابعداری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل پیروی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے جنت کو حاصل کرنے اور جہنم سے بچنے کی تگ ودو کرنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں