"AIZ" (space) message & send to 7575

فحاشی و عریانی سے بچاؤ

انسانوں کے بعض مسائل آفاقی نوعیت کے ہیں جن سے ہر عہد کا انسان دوچار رہا ہے۔ ان میں سے ایک مسئلہ فحاشی اور عریانی کے اثراتِ بد ہیں۔ انسانوں کی کثیر تعداد کسی نہ کسی اعتبار سے فحاشی اور عریانی کے منفی اثرات کے زیر اثر آ جاتی ہے۔ فحاشی اور عریانی سے بچاؤ کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے کلام حمید کی سورت نور میں بہت ہی احسن انداز میں رہنمائی فرمائی ہے۔ سورت نور میں بہت سی ایسی نصیحتیں مذکور ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو فحاشی سے بچانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ سورت نور کے مختلف مقامات پر عریانی اور فحاشی کی روک تھام کے لیے جن مضامین کو بیان کیا گیا ہے ان کے خلاصے کو میں قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورت کی آیت نمبر32 میں اس امر کا اعلان فرمایا کہ ''تم میں سے جو مرد اور عورتیں بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا‘‘۔ بہت سے لوگ نکاح میں تاخیر اپنے معاشی حالات بہتر بنانے کی وجہ سے کرتے ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ اگر غیر شادی شدہ مرد اور عورتوں کے نکاح کر دیے جائیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی فقیری اور غربت کو دور کر دے گا۔ نکاح کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورت کی آیت نمبر30 میں مردوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی پاکدامنی کا تحفظ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح اس سورت کی آیت نمبر31 میں عورتوں کو اپنی نظریں نیچی رکھنے اور پاکدامنی کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ غیر محرموں سے پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنے باپ، بیٹے، بھائی، بھتیجے، بھانجے، چچا، ماموں، سسر، غلام، چھوٹی عمر کے بچوں اور بوڑھے مردوں کے سامنے آ سکتی ہیں‘ لیکن ان کو باقی تمام غیر محرموں سے پردہ کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا دین دینِ فطرت ہے‘ اور وہ کسی پر اضافی بوجھ نہیں ڈالتا۔ اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورت میں ان عورتوں کے پردے میں قدرے تخفیف رکھی ہے جن کی عمر ڈھل چکی ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس سورت کی آیت نمبر60 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ بوڑھی عورتیں جنہیں نکاح کی امید نہیں رہی‘ ان پر کوئی گناہ نہیں اگر وہ اپنے کپڑے اتار رکھیں بشرط کہ وہ اپنا بناؤ سنگھار ظاہر کرنے والیاں نہ ہوں؛ تاہم اگر وہ بھی احتیاط رکھیں تو ان کے لیے بہت افضل ہے‘‘۔ اسی سورت کی آیت نمبر31 میں عورتوں کو اس بات کی بھی تلقین کی کہ جب وہ چلیں تو اپنے قدموں کو زمین پر زور سے مت رکھیں‘ تاکہ ان کے قدموں کو زور سے رکھنے کی وجہ سے ان کے زیورات یا پوشیدہ زینت ظاہر نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ اس سورت میں اس بات کی بھی نصیحت کی گئی کہ جب انسان کسی کے گھر میں داخل ہونے کا ارادہ رکھے تو اجازت لے کر اور اہل خانہ کو سلام کرکے گھر میں داخل ہونا چاہیے۔ تاہم ایسا غیر آباد گھر جو کسی انسان کی ملکیت ہو اور جہاں پر اس کا سامان موجود ہو تو ایسے گھر میں اس کے داخل ہونے پر کوئی ممانعت نہیں وہ اپنے گھر میں بلا روک ٹوک داخل ہو سکتا ہے۔ 
اس سورت میں اس امر کی بھی تلقین کی گئی کہ جب انسان کسی سے ملاقات کی نیت سے اس کے گھر جائے اور اس کو اس گھر سے پیغام ملے کہ پلٹ جاؤ تو ایسی صورت میں گھر میں داخل ہونے کے لیے اصرار کرنے کی بجائے پلٹ آنا چاہیے۔ اس سورت میں اس امر کا بھی ذکر کیا گیا کہ تین اوقات ایسے ہیں‘ جن میں انسان کو بلا اجازت دوسروں کی خلوت میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے: عشا کی نماز کے بعد، فجر کی نماز سے پہلے اور ظہر کی نماز کے بعد۔ یہ ایسے اوقات ہیں جن میں انسان عموماً اپنی خلوت میںآرام کر رہا ہوتا ہے۔ خلوت اور تنہائی کے ان اوقات میں انسانوں کی نجی زندگی میں بلا اجازات مداخلت کرنا کسی بھی طور پر مناسب نہیں۔ انسانوں کو بغیر کسی ضروری کام کے ان اوقات ممنوعہ میں دوسروں کے گھر بلا اجازت آنے جانے اور ان سے ملاقات کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس سورت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فحاشی اور عریانی کی روک تھام کے لیے اس بات کی بھی تلقین کی کہ کسی انسان کو پاکدامن عورت پر تہمت نہیں لگانی چاہیے۔ جو شخص پاکدامن عورت پر تہمت لگاتا ہے اور اپنے دعویٰ کے ثبوت کے طور پر چار گواہوں کو پیش کرنے سے قاصر رہتا ہے‘ تو ایسے شخص کو قذف کی حد یعنی 80 کوڑے لگانے چاہئیں۔ اس سزا کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں افواہوں اور بدگمانی کو فروغ حاصل نہ ہو اور آئندہ کے بعد ایسے شخص کی گواہی کو بھی کسی بھی طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس سورت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے تنبیہہ کرتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ جو پاکدامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ایسے لوگ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں۔ اس سورت کے شروع میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کا بھی حکم دیا کہ جو لوگ احکام شریعت کو پامال کرتے ہوئے بے پردگی، بے حیائی اور اخلاقی بے راہ روی کے راستے کو اختیار کر لیتے ہیں‘ اور شرم و حیا کی تمام حدود کو پھلانگ کر بدکرداری اور زناکاری کے راستے پر چل نکلتے ہیں‘ ایسے لوگوں کو 100 کوڑوں کی سزا ملنی چاہیے۔ حدیث پاک میں شادی شدہ زانی کے لیے سنگسار کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ ان سزاؤںکا مقصد کسی کا استحصال یا استیصال نہیں بلکہ ان کا مقصد معاشرے میں ان عناصر کی روک تھام ہے جو معاشرے میں پردہ داری، حیاء اور نکاح کے اصول و ضوابط کو پامال کرتے ہوئے بے راہ روی اور بے حیائی کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس بات کا علم ہے کہ انسان بعض رشتوں کے معاملے میں انتہائی حساس ہوتا ہے۔ میاں بیوی کا رشتہ ان حساس ترین رشتوں میں سے ایک ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بری حالت میں دیکھے تو اس کے لیے یہ بات ممکن نہیں رہتی کہ چار گواہوں کا اہتمام کرے۔ ایسی صورت میں مرد چار گواہوں کی بجائے چار قسمیں اُٹھا کر اپنی بیوی پر الزام عائد کر سکتا ہے اور پانچویں قسم اس کو یہ کھانی ہو گی کہ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ ان قسموں کے باوجود بہرحال اس بات کا امکان باقی رہتا ہے کہ انسان کسی بدنیتی یا ذاتی عداوت کی وجہ سے اپنی بیوی سے انتقام لینا چاہتا ہو؛ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے عورت کے لیے بھی بچاؤ کا راستہ رکھا ہے کہ وہ بھی چار قسمیں کھائے کہ اس پر جھوٹا الزام لگایا جا رہا ہے اور پانچویں قسم کھائے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا اس پر غضب ہو اگر شوہر کا الزام سچا ہو۔ اگر شوہر اور بیوی دونوں اپنے اپنے دعوے کی تائید میں قسمیں اُٹھا لیتے ہیں تو اس کو شرعی اصطلاح میں لعان کہا جاتا ہے اور اس کے بعد مرد اور عورت میں دائمی جدائی کر دی جائے گی۔ 
اللہ تبارک و تعالیٰ نے احکامات کے نزول کے ساتھ ساتھ اس سورت کی آیت نمبر19 میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ ''بے شک وہ لوگ جو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اہلِ ایمان میں فحاشی کو پھیلایا جائے تو ایسے لوگوں کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہیں‘‘۔ تزکیہ و طہارت کی ان تمام تدابیر کو بتلانے کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورت کی آیت نمبر21 میں اس حقیقت کا ذکر کیا ہے کہ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی شخص کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا‘ مگر اللہ تبارک و تعالیٰ جس کو پاک کرنا چاہتے ہیں کر دیتے ہیں۔ فحاشی اور عریانی کی روک تھام کے لیے سورت نور میں مذکور احکامات کو اختیار کر لیا جائے تو انسان خود اور اپنے اہل خانہ کو فحاشی اور برائی سے بچا سکتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں بدکرداری، بے حیائی اور فحاشی کے راستوں کو چھوڑ کر طہارت، تزکیے اور پاکدامنی کے راستے کو اختیار کرنے کی توفیق دے۔ آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں