دعوت دین کا کام اس وقت سے زمین پر جاری و ساری ہے جب سے انسان یہاں پر آباد ہے۔ انبیاء اور رسل اللہ کا بنیادی فریضہ لوگوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے دین کی دعوت دینا تھا۔ یہ دعوت کس انداز میں دینی چاہیے اس کا اسلوب، انداز اور طریقہ کار کیا ہونا چاہیے اس حوالے سے قرآن و سنت میں تفصیلی رہنمائی موجود ہے۔ انبیاء علیہم السلام اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلوب دعوت کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک داعی کو اس بات کا بڑی اچھی طرح اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ کون سا انداز ہے جسے دعوتِ دین کے دوران اسے اختیار کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے قرآن و سنت میں مذکور انبیاء علیہم السلام کے واقعات اور دیگر نصوص کو مدنظر رکھ کے جو اہم نکات سامنے آتے ہیں ان کو میں قارئین کی نظر کرنا چاہتا ہوں:
1۔ تسلسل: دعوتِ دین کے کام میں تسلسل کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ دعوتِ دین کا کام بغیر کسی انقطاع کے مسلسل جاری و ساری رہنا چاہیے۔ سورہ عنکبوت کی آیت نمبر14 کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام اس زمین پر ساڑھے نو سو برس تک رہے۔ سورہ کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں کو صبح شام اللہ تبارک و تعالیٰ کے دین کی دعوت دی اور اس سلسلے میں آپ اسلام قبول کرنے والے افراد کی قلیل تعداد سے دل شکستہ نہ ہوئے بلکہ آپ نے اپنے مشن کو پوری تندہی سے مسلسل جاری و ساری رکھا۔ دیگر اولعزم انبیاء اور رسل اللہ کا طریقہ کار بھی یہی رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مکی زندگی میں اعدائے دین کی زبردست مخالفت، شقاوت اور متشددانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دعوت دین کو قبول کرنے والی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مختصر جماعت بھی مسلسل کفار کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنی رہی‘ لیکن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت کے عددی نتائج سے بے نیاز ہو کر مسلسل دعوت کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔
2۔ دعوتِ دین کے راستے میں آنے والی مشکلات پر صبر کرنا: اللہ تبارک و تعالیٰ کے دین کی دعوت دیتے ہوئے انسان کو مختلف طرح کی تکالیف اور آزمائشوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ آزمائشیں کئی مرتبہ زبانی مخالفت سے آگے بڑھ کر جسمانی تشدد تک بھی پہنچ جاتی ہیں۔ انبیاء علیہم السلام نے بھی اپنے اپنے ادوار میں اعدائے دین کی مسلسل مخالفت کا سامنا کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کو طویل عرصے تک (معاذاللہ) دیوانہ اور مجنوں کہا گیا اور ان پر سنگ باری بھی کی گئی‘ اس کے باوجود آپ دعوتِ دین کے عمل پر سختی کے ساتھ کاربند رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ بھی یہی رہا۔ آپ کو اہل مکہ اور اہل طائف کے متشددانہ رجحانات کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے بڑی خندہ پیشانی سے اعدائے دین کی مخالفت کو برداشت کیا‘ اور لمحہ بھر کے لیے بھی دعوت دین سے دستبردار نہ ہوئے۔ سورہ عصر میں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے کہ بے شک انسان سراسر خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور حق بات کی وصیت اور صبر کی تلقین بھی کرتے رہے۔
3۔ مادی اجر سے بے نیازی: اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ شعراء میں حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ہود علیہ السلام، حضرت صالح علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کے حوالے سے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے جب اپنی قوم کے لوگوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے دین کی دعوت دی تو ساتھ یہ بات بھی کہی کہ ہم اس پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتے ہماری اجرت تو بس پروردگار عالم کے پاس ہے۔ گویا داعی کو اپنی دعوت کے بدلے لوگوں سے کسی مفاد یا اپنی مادی تمنا کی تکمیل کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ اگر لوگ اس کی عزت یا اس کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں تو یہ ایک اضافی معاملہ ہے لیکن اس کام کا بنیادی اور حقیقی اجر اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاس ہے۔
4۔ نرم روی اختیار کرنا: دعوتِ دین دیتے ہوئے داعیان کو نرم روی اختیار کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت نمبر125 میں ارشاد فرمایا: ''اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو‘ حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو فرعون کے پاس بھیجا تو انہیں کہا کہ فرعون کو نرمی سے سمجھاؤ شاید کہ وہ نصیحت حاصل کرلے یا اللہ تبارک و تعالیٰ سے ڈر جائے۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ عنکبوت میں یہ بات کہی کہ اہل کتاب سے مجادلہ نہ کرو‘ مگر احسن انداز سے۔
5۔ نکتہ مشترک کی طرف دعوت دینا: دعوت دین دیتے ہوئے داعی کو مخاطب کے نظریات اور اس کی فکر سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے اور اپنے اور اس کے درمیان جو مشترکہ نکات پائے جاتے ہیں ان کو دعوت کی اثر پذیری کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ اگرچہ نصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہا کرتے تھے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی تلقین کی کہ آپ نے جب نصاریٰ کو دعوت دینی ہے تو یہ بات کہیں کہ میں آپ کو کلمہ ٔ مشترکہ کی طرف دعوت دیتا ہوں کہ ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کے سوا کسی کی پوجا نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔
6۔ عقلی دلائل کا استعمال: دعوت دین دیتے ہوئے عقلی دلائل کو بھی استعمال کرنا چاہیے۔ جب موسیٰ علیہ السلام فرعون کے پاس آئے تو فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے یہ بات کہی تھی کہ سابق لوگوں کا انجام کیا ہو گا؟ تو موسیٰ علیہ السلام نے بڑی دانش مندی سے فرعون کو اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کا علم میرے پروردگار کے پاس ایک کتاب میں موجود ہے۔ نہ میرا رب کبھی گمراہ ہوا ہے نہ وہ کبھی بھولا ہے۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ کو بھی سورہ نمل میں ذکر کیا کہ جب ملکہ سباء ان کے پاس آئی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو دین کی دعوت بڑی دانش مندی سے دی۔ آپ نے اس کے تحت کو تبدیل کرکے اس کے سامنے رکھا تو وہ اس تبدیلی کے باوجود اپنے تخت کو بھانپ گئی اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے محل کے ایک ایسے حصے کی طرف اس کو آنے کی دعوت دی جو شیشے کا بنا ہوا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب اس کو محل کے شیشے سے گزرنے کے لیے کہا تو اس کے گمان کیا کہ شاید یہ پانی ہے۔ چنانچہ اس نے پانی کے چھینٹوں سے بچنے کے لیے اپنے کپڑوں کو پنڈلیوں سے اوپر اُٹھا لیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس موقع پر اس سے کہا کہ بے شک یہ شیشے کا جڑا ہوا فرش ہے۔ ملکہ سباء جو آج سے قبل اپنی قوم کے ہمراہ سورج کی پوجا کیا کرتی تھی‘ اس عقلی دلیل کو بھانپ کر اس حقیقت کو سمجھ گئی کہ جس طرح میں شیشے اور پانی میں امتیاز نہیں کر سکی اسی طرح میں سورج کی روشنی اور پروردگار عالم کے نور میں امتیاز نہیں کر سکی؛ چنانچہ اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھ پر اسلام کو قبول کر لیا۔
7۔ ایک دلیل پر جمے رہنے کی بجائے دوسری مؤثر دلیل دینا: دعوت دین دیتے ہوئے انبیاء علیہم السلام کے اسلوب سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ کئی مرتبہ جب داعی کسی کو دعوت دیتا ہے تو جس کو دعوت دی جا رہی ہوتی ہے تو وہ دلیل کو ٹالنے یا اس میں تاویل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میںکئی مرتبہ لوگوں کے ذہن میں شکوک شبہات پیدا ہو جاتے ہیں‘{ لیکن ذہین داعی ایسے موقع پر کسی اور مؤثر دلیل کو دے کر اس کی باطل تاویل کو رد کر دیتا ہے اور اس کا منہ بند کر دیتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب دربار نمرود میں آئے تو آپ نے یہ بات کہی تھی:: میرا رب وہ ہے جو زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ نمرود نے کہا:: میں بھی مارتا اور زندہ کرتا ہوں۔ اس موقع پر اس نے ایک بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ایک گناہ گار اور سزا کے مستحق کو رہا کر دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اس دلیل سے مقصود یہ تھا کہ اللہ پیدا بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے لیکن نمرود نے اس دلیل میں تاویل کرنے کی کوشش کی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی دلیل کو مزید طول دینے کی بجائے مزید ایک مؤثر دلیل دی اور یہ کہا کہ بے شک اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے اگر تو رب ہے تو سورج کو مغرب سے لے کر آ۔ اس بات کا نمرود کے پاس کوئی جواب نہیں تھا؛ چنانچہ وہ لاجواب ہو گیا۔ دعوت دین دینے والوں کو ابنیاء علیہم السلام کے دعوتی اسلوب سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے مذکورہ بالا نکات کو ذہن نشین کرنا چاہیے۔ اگر وہ ان نکات کو اپنے سامنے رکھیں گے تو اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ ان کی دعوت زیادہ مؤثر ہو گی اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے دین کا پیغام ہر کس و ناکس تک پہنچ سکتا ہے اور داعی قرآن مجید کی سورہ آل عمران کے مطابق خیرالامم کا حصہ بن سکتا ہے اور سورہ حم سجدہ کی آیت کے مطابق بہترین بات کرنے والوں میں شامل ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو دعوتِ دین اچھے طریقے سے انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔