باپ اپنی اولاد کا خیر خواہ ہوتا ہے۔اور ہر باپ کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ اس کی اولاد دنیا اور آخرت کی اعلیٰ ترین کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار ہو۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں دو عظیم شخصیات کا بطور باپ ذکر کیا ہے ۔ان دونوں شخصیات نے اپنی اولاد کی تربیت کے لئے بیش بہا قسم کی نصیحتیں اور دعائیں کیں ۔ ان نصیحتوں اور دعاؤں پر غورکرنے کے بعدیہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک باپ کو اپنی اولاد کے لئے کن چیزوں کو پسند کرنا چاہئے۔
سورت لقمان میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حکیم لقمان کا ذکر کیاجنہوں نے اپنے بیٹے کو سونے کے پانی سے لکھے جانے والی نصیحتیں فرمائیں ۔ سورت لقمان کی آیت نمبر 13 سے لے کر19 تک اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت لقمان ؑکے ارشادات کوبیان فرمایا۔اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں'' اور ـجب کہ لقمان نے وعظ کرتے ہوئے اپنے بیٹے سے فرمایا، میرے بیٹے اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنابے شک شرک بہت بھاری ظلم ہے‘‘۔ اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے والدین کے حقوق کا احساس دلایااورفرمایاکہ ہم نے انسان کواس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کراسے حمل میں رکھااور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تم میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کرو( تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آناہے۔اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کر جس کا تجھے علم نہ ہو تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ا ن کے ساتھ اچھی طرح گزر بسر کرنا اور اس کی پیروی کرناجو میری طرف جھکا ہو ، تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے ، تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کر دوں گا۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے علم سے بھی آگاہ کیا کہ انسان جو کچھ بھی کر رہاہوتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو پوری طرح دیکھ رے ہوتے ہیں اور اس سے پوری طرح باخبر ہوتے ہیں ۔
جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو کہا ''میرے بیٹے اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہوپھر وہ خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہویا زمین میں ہواسے اللہ تعالیٰ ضرور (سامنے)لائے گا، اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے‘‘۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو بہت سے اچھے کاموں پر مداومت اختیار کرنے کی بھی تلقین کی ۔ آپ نے ارشاد فرمایا''اے میرے بیٹے تُو نماز قائم کرنا ، اچھے کاموںکی نصیحت کرتے رہنا ، برے کاموں سے منع کیاکرنا اور جو مصیبت تم پر آجائے صبر کرنایہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے ۔جب ہم ان تمام امور پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت لقمان ؑنے اپنے بیٹے کو ان کاموں کی تلقین کی جو انسان کی دنیا وآخرت کو سنوارنے والے ہیں۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو بعض ایسی ہدایات بھی کیں جو معاشرتی اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں ۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا''لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلااور زمین پر اترا کر نہ چل کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز کو پست کر یقینا آوازوں میں سے سب سے بدتر آوازگدھوں کی آواز ہے‘‘ ۔ حضرت لقمانؑ نے اپنے بیٹے کو تواضع اختیار کرنے کا حکم دیااورشیخی ، غرور اور تکبر سے بچنے کی تلقین کی ۔حضرت لقمانؑ کی بیش بہا نصیحتیں دور حاضر کے باپوں کے لئے ایک مثال ہیں کہ انہیں اپنی اولاد کو کن امور کی تلقین کرنی چاہئے ۔
اسی طرح قرآن مجید نے حضرت ابراہیم ؑ کے بطور باپ کردارکا بڑے خو بصورت انداز میں نقشہ کھینچا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جناب اسماعیل ؑ کو جب قربانی کا درس دیاتو انہیں مشورے میں شامل کیاکہ اے میرے بیٹے میں خواب میں دیکھ رہاہوں کہ میں آپ کے گلے پر چھری کو چلا رہاہوں ۔آپ ؑ نے ان کے دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے امر پر قربان ہونے کا احساس بہت ہی خوبصورت بیدار کیا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے نیکی کے کاموں میں حضرت اسماعیل ؑ کو شریک کئے رکھااور بیت اللہ الحرام کی تعمیر کے دوران بھی اپنے ہمراہ رکھا۔ بہت سے باپ خود تو نیکی کے کاموں میں مشغول رہتے ہیں لیکن اپنی اولاد کو نیکی کے کاموں کا کما حقہ حکم نہیں دیتے جن کی وجہ سے ان کی اولادیں سیدھے راستے سے بھٹک جاتی ہیں۔باپ کے لئے جہاںنیکی کرنا انتہائی ضروری ہے وہیں پر اس کو اپنی اولاد کو بھی نیکی کے ان کاموں میں ضرور شریک کرنا چاہئے ۔حضرت ابراہیم ؑنے جہاں پر اپنی اولاد کو نیکی کے کاموں میں شریک کئے رکھاوہیںپر حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی اولاد کے لئے بہت ہی خوبصورت دعائیں بھی فرمائیں جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورت ابراہیم کی آیت نمبر 35 سے 41 تک بیان فرمایا۔حضرت ابراہیم ؑ نے جو دعائیں مانگیں وہ درج ذیل ہیں ۔
اور ابراہیم ؑ نے جب کہا کہ '' اے میرے پرور دگار اس شہر کو امن والا بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناہ دے ۔ اے میرے پالنے والے انہوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے بس میری تابعداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے توتو بہت ہی معاف اور کرم کرنے والا ہے ۔ اے ہمارے پروردگار میں نے اپنی کچھ اولاد اس بے کھیتی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے ۔اے ہمارے پروردگار یہ اس لئے کہ وہ نماز قائم کریں ، بس تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرماتاکہ یہ شکر گزاری کریں‘‘۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم ؑ نے جہاں پر اپنی اولاد کی تربیت کا اہتمام کرتے ہوئے انہیں اللہ تعالیٰ کے گھر کے پاس بسایاوہاں پر ان کے لئے بہترین رزق اور لوگوں کی محبت کی دعا بھی مانگی تاکہ وہ شکر گزاری کا راستہ اختیار کرتے رہیں ۔
حضرت ابراہیم ؑ اللہ تعالیٰ کی عنایات پر ہمیشہ شکر گزاررہے اورانہوں نے حضرت اسحاق ؑاور یعقوب ؑکی پیدائش پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا'' اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیلؑ اور سحاق ؑعطا فرمائے کچھ شک نہیں کہ میرا پالنہار دعاؤں کا سننے والاہے‘‘۔حضرت ابراہیم ؑ نے جہاں پر اپنی اولاد کی دینی تربیت کا بھر پور انداز میں اہتمام فرمایاوہیں پر ان کے عمل صالح پر قائم رہنے کی دعا اس انداز میں مانگی کہ ''اے میرے پالنے والے مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی ۔ اے ہمارے رب میری دعاؤں کو قبول فرما۔ اے ہمارے پروردگار مجھے بخش اور میرے ماں باپ کو بھی بخش اووردیگر مومنوں کو بھی بخش ،جس دن حساب ہوں گے ‘‘۔ حضرت ابراہیم ؑ جہاں پر نیکی کے کاموں میں اپنی اولاد کو شریک کرتے اور ان کے لئے دعائیں مانگتے رہے وہیں پر آپ نے اپنی اولاد کو آخری ایام تک دین کے راستے پر کار بند رہنے کی نصیحت بھی فرمائی ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کے آخری لمحات کا ذکر سورت بقرہ کی آیت نمبر132 میں یوں فرما دیا '' اسی کی وصیت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولاد کو کی کہ اے ہمارے بچو اللہ نے تمہارے لئے اس دین کو پسند فرما لیا ہے ، خبردار تم مسلمان ہی مرنا‘‘۔ آیت مذکورہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب ؑ نے اپنے داد ا کے طرز عمل کو برقرار رکھا۔انہوںنے بڑے خوبصورت انداز میں اپنی اولاد کو دین کے راستے پر چلنے کی نصیحت فرمائی جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 133 میں یوں بیان فرما دیا''کیا یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے جب انہوںنے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے توسب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود اور آپ کے آباواجداد ابراہیم ؑ ، اسمعیل ؑ اور اسحقؑ کے معبود کی ، جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیںگے‘‘ ۔
حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت لقمان کے واقعات میں دور حاضر کے باپوں کے لئے بے مثال رہنمائی اور اسباق موجود ہیں۔ عہد حاضر کے باپوں کو ان دوباپوں کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اپنی اولاد کو اچھے کاموں کی تلقین کرنی چاہئے، ان کو اچھے کاموں میں اپنے ساتھ شریک رکھنا چاہئے اور ہمہ وقت ان کے لئے دعا گو رہنا چاہئے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اور ہماری اولادوں کو دنیا و آخرت کی اعلیٰ ترین کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار فرمائے ۔ آمین ۔