قرآن مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتاب ہے۔ یہ کتاب فصاحت وبلاغت کا شاہکار اور معنی اور مطالب کے سمندر کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ کتاب حمید میں زندگی گزارنے کے بہترین طریقے اور اخروی کامیابی حاصل کرنے کے اصولوں کو احسن انداز میں واضح کر دیا گیا ہے۔ اللہ نے سورہ ذاریات کی آیت 56 میں اس امر کا اعلان فرما دیا ''اور میں نے نہیں بنایا جنات اور انسان کو مگر اپنی عبادت کے لیے ۔‘‘ اللہ نے اس مقصد کو واضح کرنے اور انسان کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کے لیے آسمان وزمین میںطرح طرح کی نشانیوں کو بکھیر دیا ہے۔ جب انسان اللہ کی بنائی ہوئی کائنات پر غور کرتا اوردوران شام وسحر پر توجہ مرتکز کرتا ہے تو اس حقیقت کو بھانپ جاتا ہے کہ کائنات کو بنانے والا اور نظام ہستی کو چلانے والا فقط کائنات کا رب اور پروردگار ہے۔ اللہ کی ذات کی معرفت حاصل کرنے کے بعد انسان میں اللہ کی عبادت کا ذوق پیدا ہوتا ہے۔
عبادت کے ذوق کے اظہار کی مختلف شکلیں ہیں جن میں سے دو بڑی صورتیں اللہ کا ذکر کرنا اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا ہے۔ ذکر الٰہی کے دوران انسان اللہ تعالیٰ کی یاد اور محبت میں محو رہتا ہے جب کہ دعا مانگنے کے دوران انسان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا کرتے ہوئے اس کی بندگی میں مصروف رہتا ہے۔ اللہ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر انسانوں کی توجہ کو اپنی ذات اور عبادت کی طرف مبذول کروانے کے لیے نہایت خوبصورت اور غیر معمولی انداز کو اختیار کیا ہے۔ انہیں مقامات میں سے ایک مقام سورہ آل عمران کا آخری رکوع بھی ہے۔ اس رکوع پر غور کرنے کے بعد انسان اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی عبادت کی طرف مائل ہوتا ہے اور کائنات کے اسرار ورموز اور حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ کائنات کی وسعتوں پر غور کرنے کے بعد اس کے ذہن میں اپنے خالق اور مالک کی بڑائی کا تصور ابھرتا ہے اور اس کی توجہ ذکر اللہ اور دعاؤں کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید کے اس خوبصورت مقام کو میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
اللہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر190 سے 194 میں ارشاد فرماتے ہیں ''آسمان وزمین کی تخلیق میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقینا عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں وزمین کی پیدائش میں غور وفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے پروردگار تو نے یہ بے فائدہ نہیںبنایا تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے اے ہمارے پالنے والے ! تو جسے جہنم میں ڈالے یقینا تو نے اسے رسوا کیا اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ اے ہمارے رب ! ہم نے سنا کہ منادی کرنے والا باآواز بلند ایمان کی طرف بلا رہا ہے کہ لوگو اپنے رب پر ایمان لاؤپس ہم ایمان لائے۔ اے ہمارے رب! اب تو ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری برائیاں ہم سے دور کر دے اور ہماری موت نیکو کاروں کے ساتھ کر۔ اے ہمارے پالنے والے ! ہمیں وہ دے جس کا وعدہ تو نے ہم سے اپنے رسولوں کی زبانی کیا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کریقینا تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔‘‘
اللہ نے ان پر اثر دعاؤں کاذکر کرنے کے بعد اسی سورہ کی آیت 195 میں اس بات کی یقین دہانی بھی کروائی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان دعاؤں کے کرنے والوں کی فریاد وں کو ضرور قبول فرمائے گا۔ اللہ آیت نمبر195 میں ارشاد فرماتے ہیں ''پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی کہ تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت میں ہرگز ضائع نہیں کرتا ، تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو اس لیے وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکال دئیے گئے اور جنہیں میری راہ میں ایذا دی گئی اور جنہوں نے جہاد کیا اور شہید کئے گئے میں ضرور بالضروران کی برائیاں ان سے دور کر دوں گا اور بالیقین انہیں جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ یہ ہے ثواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اللہ ہی کے پاس بہترین ثواب ہے۔ ‘‘ اللہ نے جہاں پر ان خوبصورت دعاؤں کے قبول کرنے کی ضمانت دی ہے وہیں پر اللہ نے انسانوں کی کوتاہ بینی کا ازالہ بھی کیا ہے ۔انسانوں کی ہمیشہ سے یہی کمزوری رہی ہے کہ وہ اخروی حقیقت کو بھانپ لینے کے باوجود بھی دنیا کے اندر غیر مسلموں اور بدعقیدہ لوگوں کے عروج کو دیکھ کر متاثر ہوجاتے ہیںاور کئی مرتبہ اس متاثر ہونے کی وجہ سے اللہ کی ذات ،اپنے مقصد تخلیق اور اخروی زندگی کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ اللہ اس سورت کی آیات 196،197 اور198 میں ارشاد فرماتے ہیں ''تجھے کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا فریب میں نہ ڈال دے یہ تو بہت تھوڑا فائدہ ہے اس کے بعد ان کا ٹھکانہ تو جہنم ہے اور وہ بری جگہ ہے۔ لیکن جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے ان کے لیے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ مہمانی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۔ اور نیکوکاروں کے لیے جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہت ہی بہتر ہے۔‘‘ اللہ نے ان آیات میںاس حقیقت کو واضح کیا کہ دنیا کی زندگی میں اگر اہل ایمان بے بسی، تنگ دستی، کمزوری اور بدحالی کا شکار ہونے کے باوجود بھی ایمان اور عمل صالح کی شاہراہ پر گامزن رہتے ہیں تو اللہ ان کی کسمپرسی کاازالہ فرماتے ہوئے انہیں جنت کی مہمانیاں عطا فرما دیگا۔
اللہ نے اس سورت میں اس امر کا بھی ذکر کیا کہ مومنوں کے ساتھ ساتھ اہل کتاب یعنی یہودو نصاریٰ سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اپنے فہم اور شعور کی بنیاد پر درست راستے کا انتخاب کرکے اللہ کی رضوان اور جنت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اللہ اس سورت کی آیت 189 میںارشاد فرماتے ہیں ''یقینا اہل کتاب میں سے بعض ایسے ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور تمہاری طرف جو اتارا گیا ہے اور ان کی جانب جو نازل ہوا اس پر بھی، اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو تھوڑی قیمت پر بیچتے بھی نہیں ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ جلدی حساب لینے والا ہے۔‘‘ اس آیت میں اہل کتاب کی اس جماعت کا ذکر ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا۔اللہ نے ان کے ایمان اور ایمانی صفات کا ذکر فرما کر انہیں دوسرے اہل کتاب سے ممتاز کر دیا جن کی زندگی کا مقصد پیغمبر اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشیں کرنا ،آیت الٰہی میں تحریف کرنا اور دنیا کے عارضی اور فانی نفعات کے لیے کتمان علم کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ یہ ایمان لانے والے اہل کتاب بے ایمان لوگوںجیسے نہیں ہیں بلکہ یہ اللہ سے ڈرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی آیات کو تھوڑی قیمت پر نہیں بیچتے ۔ اس کے بعد اللہ نے اہل ایمان کو چار نکات پر مشتمل ایک بڑی خوبصورت نصیحت فرمائی ۔ اللہ اس سورت کی آیت 200 میں ارشاد فرماتے ہیں'' اے ایمان والو !تم ثابت قدم رہواور ایک دوسرے کو تھامے رہو اور جہاد کے لیے تیار رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم مراد کو پہنچو۔ ‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس آیت میں جو نصیحت کی اس کی دور حاضر میں اہل ایمان کو بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ایمان پر ثابت قدم رہنا انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔ ایمان کا فقط اظہار کافی نہیں بلکہ زندگی کے نشیب وفراز اور اتار اور چڑھاؤ کے دوران انسان کو ایمان اور اسلام کے حوالے سے پیش آنے والی تکالیف پر صبر کرنا چاہیے اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کو اس بات کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ کے راستے میں آنے والی تکالیف پر صبر کرنا جہاں پر بہت ضروری ہے وہیں پر اسلامی معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے کو تھامے رکھنا چاہیے اور معاشرے میں انتشار اور افتراق سے گریز کرنا چاہیے۔ اسی طرح حکم الٰہی کی پاسداری کرتے ہوئے ہمہ وقت اللہ کے راستے میں جدوجہد کے لیے بھی آمادہ وتیار رہنا چاہیے اورہر وقت اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ جب اہل ایمان میں یہ چارخصلتیں پیدا ہو جائیں گی تو اللہ ان کو کامیاب وکامران کر دے گا۔ سورہ آل عمران کایہ خوبصورت بیان یقینا توجہ طلب ہے اور ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابیوں کو سمیٹنے کے لیے اس خوبصورت پیغام میں مذکور نصیحتوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں دنیا وآخرت کی کامیابیاں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔