قرآن مجید کا مطالعہ کرنے کے بعد انسان اس بات کو بآسانی محسوس کر سکتا ہے کہ جن باتوں پر قرآن مجید میں بہت زیادہ زور دیا گیا ہے ان میں سے ایک اللہ تبارک وتعالیٰ کا تقویٰ اور ڈر اختیار کرنا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن حمید کے متعدد مقامات پر اپنا تقویٰ اختیار کرنے کا ذکر کیا۔ رمضان المبارک کے مہینے میں رکھے جانے والے روزوں‘ اسی طرح عید قربان کے موقع پر کی جانے والی قربانی کا مقصد بھی تقویٰ ہی کا حصول بتلایا گیا۔ اسی طرح نکاح کے موقع پر جن آیات مبارک کی تلاوت کی جاتی ہے ان میں بھی بار بار تقویٰ اختیار کرنے پر ہی زور دیا گیا ۔ جب انسان تقویٰ کی ضرورت ، اہمیت اور نتیجے پر غور کرتا ہے تو اس بات کو سمجھنا اس کے لیے کچھ مشکل نہیں رہتا کہ تقویٰ انسان کی زندگی میں بہت زیادہ نعمتوںلانے اوردکھوں اور پریشانیوںکے خاتمے کا پیش خیمہ ہے۔ انسان جب کسی ادارے یا دفتر میں کام کرنے کے دوران اس ادارے کے اصول وضوابط کا احترام کرتا ہے اور انتظامیہ کی مرضی کے مطابق کام کرتاہے تو ادارے کے مالک اور انتظامیہ کی نظر میں اِس شخص کے وقار میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور اس کو اس کی اچھی کارکردگی کی وجہ سے بہت سی سہولیات حاصل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ جن ملکوں میں سماجی انصاف کا نظام موجود ہے ان ممالک میں اچھے شہریوں کو اضافی سہولیات اور مراعات حاصل ہو جاتی ہیں۔ سرکاری اہلکار اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے شہریوں اور اپنے ملک کے باشندوں کی حرکات وسکنا ت اوران کے افعال پر نظر رکھ کر اس بات کو جانچ لیتے ہیں کہ کون سا شہری اور باشندہ ملکی قوانین کا احترام کر رہا ہے اور اسی کی بنیاد پر وہ اپنے شہریوں کی کارکردگی کا تعین اور تجزیہ بھی کرتے رہتے ہیں ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کائنات کے حقیقی مالک ہیں اور کائنات کی ہر ظاہر اور پوشیدہ چیزوں کو جاننے والے ہیں۔ چنانچہ جب کوئی شخص ان کا تقویٰ اور ڈر کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو بھی بہت سی کامیابیوں سے نواز دیتے ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر189میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا کہ '' اللہ سے ڈر تے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔‘‘ انسان کی فطرت میں تجسس ہے اس لیے اس کے ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ وہ کون سی کامیابیاں ہیں جو تقویٰ اختیار کرنے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ہیں۔ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ تقویٰ اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے ڈر کو اختیار کرتے ہوئے جب انسان نفس کی پاکیزگی کو اختیار کرتا اور اپنے کردار کی اصلاح کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو صرف روحانی اعتبار سے کامیاب وکامران نہیں فرماتے بلکہ مادی اعتبار سے بھی اسے دنیا میں سر بلند عطا فرما دیتے ہیں۔ وہ اخروی اور مادی کامیابیاں جو تقویٰ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ہیں ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ تنگیوں کا دور ہونا: تقویٰ کے نتیجے میں انسان کی تنگیاں اور تکالیف دور ہو جاتی ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ طلاق کی آیت نمبر 2میںیوں فرمایا ''اور جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ اُس کے لیے نکلنے کا راستہ بنائیں گے۔ ‘‘
2۔معاملات میں آسانی:اللہ تبارک وتعالیٰ تقویٰ کی وجہ سے انسان کے معاملات کو آسان بنا دیتے ہیں اور دنیاوی معاملات میں اپنی تائید اور نصرت کو شامل حال فرمادیتے ہیں ۔ چنانچہ سورہ طلاق کی آیت نمبر4 میں اس امر کا اعلان کیا گیا ''جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا اللہ اس کے لیے اس کے کام میں آسانی کر دے گا۔ ‘‘
3۔ رزق کی فراہمی: اللہ تبارک وتعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے والے شخص کے لیے غیب سے رزق کا بندوبست فرماتے ہیں۔ چنانچہ سورہ طلاق کی آیت نمبر2 میں ارشاد ہوا ''اس کو رزق اللہ وہاں سے دیتے ہیں جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا۔‘‘ سورہ اعراف کی آیت نمبر96میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور اگرواقعی بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے توضرور ہم ان پر آسمان وزمین سے برکتیں کھول دیتے۔ ‘‘ گویا کہ رزق حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ تقویٰ کے نتیجے میں انسان کو آسمان اور زمین میں چھپی ہوئی بہت سی برکات بھی حاصل ہو جاتی ہیں۔
4۔ گناہوں کی معافی: انسان گناہ گار اور خطا کار ہے کئی مرتبہ دیدہ و دانستہ ،کئی مرتبہ چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اور کئی مرتبہ اعلانیہ اور تنہائی میں وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے قوانین اور اصولوں سے انحراف کر بیٹھتا ہے۔ تقویٰ کو حاصل کرنے کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے چھوٹے اور بڑے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ چنانچہ سورہ طلاق کی آیت نمبر5میں ارشاد ہوا ''جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا تو وہ دور کر دے گا اس سے اس کی برائیاں اور وہ اس کو زیادہ اجر دے گا۔ ‘‘
5۔ حق وباطل میں فرق کرنے کی صلاحیت: اس دنیا میں رہتے ہوئے انسانوں کی اکثریت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ صراط مستقیم پر چلیں ۔ غور وفکر، جستجواور تحقیق کا بہت بڑا مقصد صراط مستقیم کا تعین کرنا ہے۔ جس شخص کے دل اور دماغ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت اور اس کا تقویٰ پیدا ہو جاتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس میں فرق کرنے کی صلاحیت بھی پیدا فرما دیتے ہیں۔ چنانچہ سورہ انفال کی آیت نمبر29 میں ارشاد ہوا ''اے ایمان والو!اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تو وہ تمہارے لیے فرقان بنا دے گا۔ ‘‘ یعنی تمہیںفرق کرنے کی صلاحیت عطا فر ما دے گا۔
6۔ خوف اور غم سے نجات: دور حاضر میں اکثر لوگ بے قراری اور غم شکار رہتے ہیں اس بے قراری اور غم سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھی تقویٰ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ یونس کی آیت نمبر 62 اور 63ارشاد فرمایا 'خبردار !بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمزدہ ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔‘‘
7 ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نظروں میں معزز ہو جانا: دنیا میں رہتے ہو ئے ہر انسان عزت کا طلب گار ہے اور بہت سے لوگ اچھے روزگار، اچھی معیشت اور کاروبار کو اس لیے بھی اختیار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اور ان کے خاندان کے لوگ باوقار اور عزت والی زندگی بسر کر سکیں۔ دنیا میں رہتے ہوئے یہ بات بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ لوگ دوسرے کے کردار ،شرافت اور اخلاق کی وجہ سے اس کی عزت کرنے کی بجائے اس کے حسب ونسب ،مال ومتاع، وجاہت اور کاروبار کی وجہ سے اس کی عزت کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حجرات کی آیت نمبر13 میں اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ ''بے شک تم میں سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ ہے جو اس سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔‘‘ انسان عام طور پر اس بات کا گمان کرتا ہے کہ وہ دنیا کے مال ،اسباب اور وجاہت کو جمع کرکے کامیاب لوگوں میں شامل ہو جائے گا جب کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ اعلیٰ میں اس حقیقت کو بیان فرمایا کہ '' کامیاب وہ ہوا جس نے تزکیہ نفس کو اختیار کیا۔ اپنے پروردگار کا ذکر کیا۔ پس نماز کو ادا کیا۔‘‘ گویا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نظروں میں کامیاب وہی شخص ہے جو اپنے نفس کو گناہوں کی آلائشوں سے پاک کرلیتا ہے۔ اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں اور قرآن مجید کے آئینے میں بعض اہم تاریخی شخصیات کے انجام کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا میں انتہائی کرو فر اور ہیبت وحشمت سے زندگی گزارنے والے بہت سے لوگ ناکام اور نامراد اس لیے ٹھہرے کہ انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کی اور اس کے بیان کردہ اصولوں اور قوانین سے انحراف کیا۔ چنانچہ فرعون اپنے اقتدار ، ہامان اپنے منصب ، شداد اپنی جاگیر ،قارون اپنے مال اور ابولہب اپنی خاندانی وجاہت کے باوجود اس لیے ناکام اور نامراد ٹھہرے کہ انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کو اپنے دلوں میں جگہ نہیں دی۔
انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت اور اس کے تقویٰ کو کئی مرتبہ معمولی مفادات ، لالچ، خوف اور دباؤ میں آکر نظر انداز کر دیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ شاید اپنی ذہانت، فطانت اور صلاحیتوں کے ذریعے وہ کامیابی کے راستے کو اختیار کرنے میں کامیاب ہو جائے گا حالانکہ حقیقی بات یہ ہے کہ کامیابی اسی شخص کو حاصل ہو گی جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی سلطنت میں رہتے ہوئے اُس کے احکامات کی پابندی کرے گا۔ جس طرح دنیا میں رہتے ہوئے دنیاوی قوانین کا احترام کرنے والے لوگ اہل دنیا کی نظروں میں معزز اور محترم ٹھہرتے ہیں اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ کی زمین پر بسنے والے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات اور قوانین کا احترام اور اس کی پیروی کرتے ہوئے اس کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
دنیا وآخرت کی سر بلندی کے لیے ہمیں خود بھی اور اپنے گردونواح میں بسنے والے اپنے اعزاء واقارب اور دوست احباب کو بھی تقویٰ کی دعوت دینی چاہیے ۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ ہم اپنے نفس کی پاکیزگی حاصل کر سکتے ہیں بلکہ معاشرے کو امن وسکون کا گہوارہ بھی بنا سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو تقویٰ کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین