دنیا کی کوئی نعمت نعمتِ ہدایت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ انسان کے پاس سرمائے کی فراوانی، وسیع و عریض جاگیر، بلند و بالا عمارت، خوبصورت رفیق حیات، اچھی صحت، باوقار اولاد، اچھا روزگار اور دنیا کی دیگر نعمتیں موجود ہوں‘ لیکن وہ نعمت ہدایت سے محروم ہو تو یہ سب نعمتیں بے معنی ہیں۔ اس کے مقابل اگر انسان کے پاس قلیل سرمایہ، مختصرخاندان، چھوٹا مکان، معمولی کاروبار، مناسب صحت اور مادی اعتبار سے بہت سی نعمتیں دوسرے لوگوں کے مقابلے میں کم بھی ہوں لیکن وہ نعمت ہدایت سے بہرہ ور ہو تو اس کے پاس کائنات کی سب سے بڑی نعمت موجود ہے۔ اس تنہا نعمت کی بنیاد پر وہ دنیا کی زندگی کے نشیب و فراز کا مقابلہ کرنے کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل اور کرم سے اس کی مہمانیوں اور اس کی بنائی ہوئی جنت کا حق دار بن سکتا ہے۔ نعمت ہدایت اگرچہ دیگر تمام نعمتوں کے مقابلے میں سب سے اعلیٰ اور بیش قیمت ہے اور قرآن مجید کی پہلی سورت‘ سورہ فاتحہ میں اسی کی طلب کی رغبت دلائی گئی ہے‘ اس کے باوجود یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہر دور میں انسانوں کی ایک بڑی تعداد گمراہی کا شکار رہی ہے۔ انسانوں کی گمراہی کے اسباب پر غور کرنے کے بعد یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان گمراہی اور ضلالت کا چناؤ درحقیقت خود کرتا ہے۔ آئیے قرآن و سنت کی روشنی میں اُن اسباب کا تجزیہ کریں جو انسان کو ہدایت سے دور لے جاتے ہیں۔ ان میں سے چند اہم اسباب کو میں قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں:
1۔ تکبر: قرآن مجید کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کسی بھی فرد کی گمراہی کا بہت بڑا سبب تکبر ہوتا ہے۔ اگر کوئی انسان متکبر ہو جائے تو وہ ہدایت کی نعمت سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا۔ ابلیس یہ بات جانتا تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ خالق و مالک کائنات ہیں لیکن جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُس کو آدم علیہ السلام کے سامنے جھکنے کا حکم دیا‘ تو اس نے تکبر کی وجہ سے آدم علیہ السلام کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا‘ اور قیامت کے دن تک کے لیے راندۂ درگاہ ہو گیا۔ سابق انبیا علیہم السلام کی دعوت ٹھکرانے والے بہت سے لوگ معاشرے کے بااثر افراد تھے۔ انہوں نے صرف اپنے مادی عروج کی وجہ سے دعوت قبول نہ کی اور تکبر کے راستے پر گامزن رہے؛ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو تباہ و برباد کر دیا۔ بہت سے انبیا علیہم السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے آنے والی نشانیاں بھی اپنی قوم کے بااثر لوگوں کو دکھلائیں‘ لیکن وہ ان نشانیوں کو قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہ ہوئے۔ قوم ثمود کے سامنے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی ایک نشانی اونٹنی اور اس کے بچے کی شکل میں ظاہرکی۔ بن ماں اور بن باپ کے پیدا ہونے والی اونٹنی اور بن باپ کے پیدا ہونے والے اس کے بچے میں قوم کے لیے ایک بہت بڑی نشانی تھی لیکن انہوں نے تکبر کی وجہ سے اس نشانی کو قبول نہ کیا۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے سامنے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بہت سی نشانیاں لے کر آئے۔ ید بیضاء، اعصائے موسیٰ اور آسمان سے اترنے والی آفات میں فرعون اور آل فرعون کے لیے بہت سی نشانیاں تھیں لیکن فرعون اور اس کے ہمنوا ان تمام نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود تکبر کے راستے پر گامزن رہے؛ چنانچہ دنیا اور آخرت کی ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی۔
2۔ تعصب اور حسد: تکبر کے ساتھ ساتھ تعصب اور حسد بھی انسان کو حق پرستی سے دور کرکے گمراہی کے راستے پر دھکیل دیتا ہے۔ عصبیت مذہبی، قومی، لسانی ہو یا خاندانی‘ انسان کو حق قبول کرنے سے روکتی رہتی ہے۔ بنی اسرائیل کے لوگ اس حقیقت کو بھانپ چکے تھے کہ نبی محترم و مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تبارک و تعالیٰ کے آخری رسول ہیں‘ اس کے باوجود وہ آپؐ کی رسالت کو قبول کرنے پر اس لیے آمادہ نہیں ہوتے تھے کہ ان کا یہ گمان اور خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ کے آخری رسول کو آل اسحاق میں سے ہونا چاہیے۔ انہوں نے اس خاندانی عصبیت اور حسد کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول نہ کیا۔ قریش کے بہت سے رؤسا اور سرداروں نے اسلام کی سچی دعوت کو صرف تعصب اور ضد کی بنیاد پر قبول نہ کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ انفال کی آیت نمبر32 میں کفار مکہ کی اس بات کو نقل کیا‘ ''اور جب کہ ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ اگر یہ گمان آپ کی طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کر دے‘‘۔ گویا کہ مشرکین مکہ نے اس بات کو واضح کر دیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے سے آنے والی دعوت حق کو کسی بھی طور پر قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہیں ہوں گے۔
3۔ آباؤاجداد کی اندھی پیروی: قرآن مجید نے گمراہی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب یہ بھی بیان کیا ہے کہ لوگ حق کے مقابلے میں آباؤاجداد کے طریقے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انسان کو حق کے مقابلے میں کسی بھی طور پر اپنے آبا کی بات کو ترجیح نہیں دینی چاہیے‘ اور جب حق سچ بات سامنے آ جائے تو اس کو بلا چون و چرا قبول کر لینا چاہیے۔ لیکن آباؤاجداد کی غیر معمولی اور حد سے بڑھی ہوئی محبت کئی مرتبہ انسان کی گمراہی کا باعث بن جاتی ہے؛ چنانچہ قرآن مجید کی سورہ مائدہ کی آیت نمبر104 میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ''اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحی اور اس کے رسول کی طرف آؤ تو وہ کہتے ہیں‘ ہم کو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے آبا کو پایا ہے‘‘۔
4۔ اپنے اکابرین اور رہنماؤں کی غیر مشروط پیروی: اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ احزاب میں یہ بات بیان کی کہ جس دن جہنمی جہنم میں جائیں گے‘ ان کے جہنم میں جانے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہو گا کہ انہوں نے اللہ کے رسول کے مقابلے میں اپنے رہنماؤں کی بات کو مانا ہو گا اور اسی وجہ سے ناکام اور مراد ہو چکے ہوں گے۔ سورہ احزاب کی آیت نمبر66 اور 67 میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کیے جائیں گے تو وہ کہیں گے کاش! ہم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے اور کہیں گے‘ اے ہمارے رب ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی مانی؛ چنانچہ انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا۔
5۔ غلط صحبت: انسان کی گمراہی کا ایک بڑا سبب غلط صحبت اور گمراہ دوستوں کی رفاقت بھی ہے۔ اُنیسویں پارے کی آیت نمبر27،28 اور 29 میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا کہ ''اور اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا‘ اے کاش میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کو اختیار کیا ہوتا۔ ہائے افسوس کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا اُس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی۔
6۔ غلو: قرآن کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ گمراہی کا ایک بڑا سبب اپنے محبوب مذہبی رہنماؤں کی شان میں غلو کرنا بھی ہے۔ مسیحیوں اور یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام اور عزیر علیہ السلام کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر171 میں ارشاد فرمایا کہ ''اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ تبارک و تعالیٰ پر نہ کہو مگر حق۔ بے شک عیسیٰ ابن مریم تو صرف اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جنہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت مریم علیہا السلام کی طرف القا کیا اور اس کی طرف سے روح ہیں اس لیے کہ تم اللہ کو اور اس کے سب رسولوں کو مانو اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں۔ گویا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ یہ بات سمجھا رہے ہیں کہ انسان کو دینی معاملات میں مبالغہ آمیزی کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
7۔ اپنے مذہبی رہنماؤں کی شان میں غلو اور ان کی ہر بات کو بلا چون و چرا ماننا: قرآن مجید کا مطالعہ ہمیں یہ بات بھی سمجھاتا ہے کہ گمراہی کا ایک بڑا سبب اپنے مذہبی رہنماؤں کی ہر بات کو حرف آخر سمجھنا۔ اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے اس طرز عمل کا ذکر سورہ توبہ کی آیت نمبر31 میں یوں کیا کہ ''انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علما اور درویشوں کو رب بنا لیا‘‘۔
8۔ لاعملی اور جہالت: راہ ہدایت سے بھٹکانے والا ایک سبب لاعلمی اور جہالت بھی ہے۔ انسان کو ہمہ وقت نفع بخش علم کے حصول کے لیے کوشاں رہنا چاہیے تاکہ انسان سیدھا راستہ اختیار کر سکے۔
9۔ مفاد پرستی اور لالچ: کئی مرتبہ انسان مفاد پرستی اور لالچ کی وجہ سے بھی راہ ہدایت سے دور ہو جاتا ہے۔ اس کی کوتاہ بینی اور ظاہر داری اس کو اخروی حقائق سے غافل کرکے دنیا کی زندگی میں محو کر دیتی ہے چنانچہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے راستے کو چھوڑ بیٹھتا ہے۔
گمراہی کے بہت سے دیگر اسباب بھی ہیں جن میں سے ایک شریعت کے نزول کا لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد دل میں سختی کا پیدا ہونا ہے۔ اسی طرح رشتہ داروں اور مال کی محبت بھی انسان کو راہ راست سے دور لے جاتی ہے۔ آخرت کے بارے میں شک بھی انسان کی گمراہی کا باعث بن جاتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو گمراہی کے ان اسباب سے بچا کر حق پرستی کے راستے پر چلانے کی کوشش کرے تاکہ دنیا اور آخرت میں سرخرو اور کامیاب ہو سکے۔