"AIZ" (space) message & send to 7575

زوال نعمت

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کوان گنت نعمتوں سے نوازا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات میں انسان کی ضروریات اورخواہشات کی تسکین کا پورا پورا سامان موجود ہے۔ کائنات میں بکھرے ہوئے رنگ ، روشنی اور نور کا سیلاب ، انواع واقسام کے پھل اور پھول درحقیقت انسان ہی کی ضیافت طبع کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 29میں ارشاد فرمایا ''وہ ذات وہ ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 34میں ارشاد فرماتے ہیں'' اور اگر تم اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو انہیں گن نہیں سکتے۔ ‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے جن وانس پر اپنی عنایات اور اپنے فضل بے پایاں کا ذکر کرتے ہوئے سورہ رحمن میں تکرار سے یہ بات ارشاد فرمائی ''پس اے جن وانس تم اللہ تبارک وتعالیٰ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ ‘‘خارج میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ان گنت نعمتوں کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو مال ، صحت، علم ، عقل ، شعور ، گھر، رفیق حیات اور اعزا واقارب کی شکل میں بھی بے پناہ نعمتیں عطا کی ہیں۔ یہ تمام کی تمام نعمتیں انسان کے زمین پر قیام کے لیے انتہائی سود مند اور ضروری ہیں۔ کسی ایک نعمت کے تلف ہوجانے سے بھی انسان بے قراری اور مایوسی کا شکار ہونا شروع ہو جاتاہے۔ انسان کی ہمہ یہ وقت تمنا اور خواہش رہتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں کسی بھی قسم کی کمی واقع نہ ہو اور اس کے لیے وہ اپنی دانست میں اپنی حیثیت کے مطابق تگ ودو بھی کرتار ہتا ہے۔ لیکن مشاہدے، تجربات اور مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی زمین پر رہنے والے بہت سے لوگوں سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے نعمتوں کو چھین لیا اور وہ زندگی کا ایک عرصہ نعمتوں میں بسر کرنے کے بعد آخری وقت میں بے بسی ، بدحالی اور مشکلات کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہوئے۔انسان نعمتوں سے کیوں محروم ہو جاتا ہے یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب صرف مادی،سائنسی اور عصری علوم کی بنیاد پر نہیں دیا جا سکتا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے انسان کو روحانی اور الہامی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ قرآن مجید کا مطالعہ زوال نعمت کے حوالے سے ہماری کامل رہنمائی کرتا ہے اور انسان قرآن مجیدکے مطالعے سے سمجھ سکتا ہے کہ نعمتوں کے زوال کے اسباب کیا ہیں اور کن ذرائع سے انسان نعمتوں کے زوال پر قابو پا سکتا ہے۔ چند اہم وجوہات جو زوال نعمت پر منتج ہوتی ہیں درج ذیل ہیں:
1۔تکبر : اللہ تبارک وتعالیٰ جب انسان کو کوئی نعمت عطا فرماتے ہیں تو اس کو عاجزی، انکساری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ لیکن دیکھنے میں آیاہے کہ انسانوںکی ایک بڑی تعداد نعمتوں کے میسر آ جانے پرعاجزی اور انکساری کا رویہ اختیار کرنے کی بجائے غرور اور تکبر کے راستے کو اختیار کر لیتی ہے۔ اس غرور اور تکبر کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیںاُس سے چھن جاتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں قارون کا ذکر کیا جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت بڑ اخزانہ عطا کیا تھا۔ اس کی قوم کے دانشمند لوگ اُس کو تکبر اور فساد کی بجائے عاجزی ، انکساری اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے جھکنے کا درس دیتے اور اس کے ساتھ ساتھ فکر آخرت اور دنیا میں لوگوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کی تلقین بھی کرتے لیکن وہ مال کی فراوانی کی وجہ سے خبط کا شکار ہو کر اپنے خالق ومالک کو بھلا بیٹھا تھا اور وہ ان نعمتوں کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کی بجائے اپنے علم اور صلاحیتوں سے تعبیر کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ پوری آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے نکلا تو قوم کے وہ لوگ جو ظاہر بین تھے انہوں نے کہا اے کاش ہمیں بھی وہ کچھ حاصل ہو جائے جو قارون کے پاس ہے یہ تو بڑا ہی قسمت کا دھنی ہے۔ اہل علم نے ان کو سمجھایاکہ بہتر چیز وہ ہے جو بطور ثواب انہیں ملے گی جو اللہ پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قارون کے سرمائے کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے اس کو اس کے محل سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ وہی لوگ جو کل تک اس بات کی تمنا کر رہتے تھے کہ اے کاش ہمیں بھی قارون کا مال حاصل ہو جاتا ہے وہ شکر کرنے لگے کہ ہم قارون کی مثل نہیں ہیں۔ قرآن مجید کا مطالعہ ہمیں یہ بات بھی بتلاتا ہے کہ عبادت وریاضت کی وجہ سے ساتھ فرشتوں کا ہم نشین ہو جانے والا ابلیس بھی تکبر کی وجہ سے ہی قیامت کی دیواروں تک کے لیے راندۂ درگاہ ہوگیا۔ 
2۔ ناشکری: ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمت کا ہمہ وقت شکر ادا کرنا چاہیے۔ جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے بارے میں شکر گزاری کے جذبات ہوں ، زبان پر ''الحمدللہ‘‘ ہو اور اعضاء اور جوارح نعمتوں کو ویسے استعمال کریں جیسے ان کو استعمال کرنے کا حق ہے۔ کئی مرتبہ انسان اپنے مال، ذہانت اور عقل کو منفی راستوں پر استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری ہے اس نا شکری کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ ناراض ہو جاتے ہیں اور انسان سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں چھن جاتی ہیں۔ سورہ نحل کی آیت نمبر 114 میںارشاد ہوا ''اللہ تعالی اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن واطمینان سے تھی اس کا رزق اس کو ہر جگہ سے آ رہا تھا پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو بھوک اور خوف کا مزہ چکھایاجو ان کے کیے کی وجہ سے تھا۔‘‘ گویا کہ اگر اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نعمتوں کو چھین لیتے ہیں۔ 
3۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں پر سانپ بن کر بیٹھ جانا: اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسا ن کو جتنی بھی نعمتیں عطا کی ہیں ان کا ایک بڑا مقصد ان نعمتوں کو اپنی ذاتی ضروریات کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور اس کی مخلوق کی خدمت کے لیے صرف کرنا ہے۔ جو شخص ایسا کرتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر اپنا فضل فرماتے رہتے ہیں اور جو اس راہ سے ہٹ جاتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس سے نعمتوں کو چھین لیتے ہیں۔ حدیث پاک میں کوڑھی، اندھے اور گنجے کا واقعہ مذکور ہے کہ جن کی بیماریاں دور کر کے اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی جانب سے حاملہ اونٹنیوں، بکری اور گائے کی نعمت سے نواز دیا اورکچھ ہی عرصے میں اپنے فضل سے ان میں بے پایاں اضافہ فرما دیا۔ کچھ عرصے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب ان کی آزمائش کی تو کوڑی اور گنجے نے اپنے اس مال اور صحت کوقدیم قرار دیا اور اس کی نسبت اپنے آباؤ اجداد سے کی۔ جب کہ اندھے نے سائل کے ساتھ بہترین معاملہ فرمایا اور اپنے ماضی کے حوالے سے اس بات کا ذکر کیا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے صحت اور مال کی نعمتوں سے نوازا۔تم جو کچھ بھی لینا چاہتے ہو اس کے نام پر لے سکتے ہو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کوڑھی اور گنجے سے اپنی نعمتوں کو چھین لیا جب کہ اندھے پر اپنے فضل بے پایاں کو برقرار رکھا۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نون میں ایک باغ کے مالک کا ذکر کیا ہے جو ہمیشہ غریبوں ، یتیموں اور مسکینوں کے کام آیا کرتا تھا اس کی موت کے بعد اس کے بیٹوں نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ آئندہ کے بعد اپنے باپ کے راستے کو چھوڑ دیں گے اور جو مال اور پیداوار ہمیں باغ سے حاصل ہو گی اس کوفقط اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کریں گے ۔اس منفی ارادے کے بعد جب کٹائی کے دن وہ اپنے باغ میں داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا وہاں کچھ بھی موجود نہ تھا ۔ ابتدا میں تو ان لڑکوں نے محسوس کیا کہ شاید ہمیں دھوکہ ہوا ہے لیکن بعد ازاں وہ اس حقیقت کو بھانپ گئے کہ ان کے غلط ارادوں اور عمل کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیںان سے چھن چکی ہیں۔
4۔بداعتقادی اور گناہوں کی کثرت:اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ سہولیات اور نعمتیں کئی مرتبہ بداعتقادی اور مسلسل گناہوں کی وجہ سے بھی چھن جاتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ ہود میں ان اقوام کا ذکر کیا جو دنیا میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنیں چنانچہ قوم نوح، قوم ہود اور قوم صالح اپنی بداعتقادی کی وجہ سے اور قوم لوط کے لوگ بداعتقادی کے ساتھ ساتھ جنسی بے راہ روی اور قوم مدین کے لوگ بداعتقادی کے علاوہ کاروباری اور تجارتی بے اعتدالیوں کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان اقوام کی بد اعتقادی ، مسلسل گناہوں، اپنے پیغمبروں کی نافرمانی اور استہزاء اور مسلسل فسق وفجور کا راستہ اختیار کرنے کی وجہ سے انہیں صفحہ ہستی سے مٹا د یا اور آنے والی اقوام اور زمانوںکے لیے ان کو عبرت کا نشان بنا دیا۔ مذکورہ بالا اسباب کے ساتھ ساتھ ناامیدی اور بے صبری کی وجہ سے بھی کئی مرتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں چھن جاتی ہیں۔ 
اگر ہم زوال نعمت سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں کسی بھی وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی گرفت سے بے نیاز نہیں ہونا چاہیے، ہمہ وقت اس سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ اس کی یاد اور تابعداری میں اپنے اوقات اور توانائیوں کو صرف کرنا چاہیے اور اس سے ملنے والی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اگر ہم اس راستے کو اختیار کر لیں گے تو یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں اور اس کا فضل ہم پر برقرار رہے گا۔ دعا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں