سیاست کا بنیادی مقصد امور مملکت کو احسن اندازمیں چلانا ،عوام الناس کے مسائل کو حل کرنا ، داخلی اعتبار سے امن وامان کو قائم رکھنا ، ملک کی معیشت کو مضبوط کرنا اورملک کی بہتر خارجہ پالیسی کو مرتب کرنا ہے۔ ان مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کی جانے والی جدوجہد سیاسی جدوجہد کہلاتی ہے۔ تاریخ انسانیت نے سیاسی کشمکش کے بہت سے مناظر اپنے دامن میں محفوظ کیے ہیں۔ دنیا میں سیاست کے مختلف اسلوب اور طرز عمل موجود ہیں۔ کہیںبادشاہت ہے تو کہیں پر قبائلی نظام، کہیں جرگے کا نظام ہے تو کہیںپرجمہوری سیاست ہے۔ ان تمام نظاموں کا مقصد بنیادی طور پر ملک وملت کی بہتری کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے۔ نظریاتی اعتبار سے ان نظاموں کے حوالے سے انسانوں کی سوچیں مختلف ہیں۔دنیا بھر میں مختلف جماعتیں بعض نظاموں پر تنقید اور اپنے من پسند نظام کی حمایت میں مصروف عمل رہتی ہیں۔ مغربی ممالک میں ایک عرصے سے جمہوریت کا دور دورہ ہے۔ وہ لوگ غیر مشروط اور لامحدود جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں الہام اور آسمانی ہدایات کو بھی قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہوتے۔ اہل مغرب کے نزدیک عوامی رائے اور عوام کی اکثریت کا فیصلہ حرف آخر ہوتا ہے اور اس سلسلے میں وہ تورات اور انجیل کو بھی بالادست نہیں سمجھتے۔ اہل اسلام اسلام کو مکمل ضابطۂ حیات سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کے نزدیک قرآن وسنت کی تعلیمات دائمی ہیں اس لیے مسلمانوں کی اکثریت کسی بھی ایسے نظام کو قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہوتی جس میں قرآن وسنت کی بالا دستی کو نظر انداز کیا گیا ہو۔
پاکستان براعظم ایشیا کا ایک عظیم ملک ہے۔ جو اسلامیان ہند کی عشروں کی جدوجہد کے بعد دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا۔ اس ملک کے بنانے والوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان کے معاملات جمہوریت کے ذریعے طے پائیں گے لیکن پاکستان کی جمہوریت غیر مشروط عوامی رائے کی پابند یا مادر پدر آزادی کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھے گی بلکہ کتاب وسنت کے دائرے میں رہتے ہوئے عوام الناس کے معاملات طے کیے جائیںگے۔ پاکستان کی تاریخ میں بہت سے سیاسی مدوجزر آئے اور عوام الناس نے اپنے قائدین اور جماعتوں کی تائید میں بہت سے حکمرانوں کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ پاکستان میں چلنے والی سیاسی تحریکوں کے نتیجے میں کئی مرتبہ سیاسی معاملات افہام وتفہیم سے حل ہونے کی بجائے جذبات اور تشدد پر منتج ہوئے۔ اس تشدد اور کشیدگی کے نتیجے میں ملک کو فائدہ ہونے کی بجائے بہت نقصانات بھی ہوئے۔ 1971ء میں تقسیم وطن کا بہت بڑا سبب یہی ٹکراؤ اور باہمی چپقلش تھی۔ بنگالی زبان اور بنگالی قومیت کا مسئلہ دن بدن زورپکڑتا چلا گیا۔ لسانی اور سیاسی تنازعے کو احسن طریقے سے حل نہ کرنے کی وجہ سے ملک دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ قومی اتحاد کی تحریک میں بھی ملک داخلی اعتبار سے تقسیم ہوا اور اس کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹومرحوم کو بھی اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ پاکستان کا سیاسی کلچر کئی مرتبہ امن وامان ،رواداری اور ہم آہنگی کی بجائے باہمی کشمکش ،تناؤاور انانیت پر منتج ہوجاتا ہے اور حکمران اور اپوزیشن کے دھڑے ملکی مفادات سے کہیں ذاتی اور جماعتی مفادات کو ترجیح دینا شروع کر دیتے ہیں۔ 2013 ء کے انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے اس موقف کو اختیار کیا کہ یہ انتخابات دھاندلی کی پیداوار ہیں اور اس حوالے سے ملک میں اجتماعات کا انعقاد کرتے کرتے بات لانگ مارچ اور اسلام آباد کے گھیراؤ پر منتج ہوئی۔ ایک لمبے دھرنے کے باوجود بھی میاں نواز شریف اور ان کی ٹیم کی بردباری اور تحمل کی وجہ سے ملک سیاسی ڈیڈلاک کا شکار نہ ہو سکا اور میاں صاحب اور مسلم لیگ کے قائدین عمران خان اور طاہر القادری کے دباؤ سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
عمران گاہے گاہے دوبارہ دھاندلی کے خلاف تحریک اُٹھانے کی جستجو کرتے رہے۔ عدالتوں اورعوام کے ذریعے حکومت پر دباؤ قائم کرنے کے لیے تحریک کو چلانے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ لیکن عمران خان اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں کما حقہ کامیاب نہ ہو سکے۔ رائے عامہ کو ہموار کرنے میں جزوی کامیابی تو حاصل کر لی لیکن انتخابی عمل کو دہرانے کی خواہش تشنہ رہ گئی۔ حالیہ دنوں میں عمران خان نے ایک مرتبہ پھر دھاندلی ہی کے حوالے سے تحریک چلانے کی جستجو کی ۔ تو حکومتی زعماء نے پرتشدر روش کو اختیار کرتے ہوئے ملک میں ایک بحرانی کیفیت کو پیدا کر دیا۔ اس سے قبل بھی ماڈل ٹاؤن میں حکومت کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے 14کے قریب افراد ہلاک ہو گئے اور حکومت کے خلاف سیاسی تشدد اور قتل وغارت گری کے مضبوط الزامات منظر عام پر آئے۔ حالیہ دنوں میں چلنے والی تحریک کے بعد حکمرانوں کا رویہ جارحانہ اور پر تشدد ہو چکا ہے۔ سیاست کے طالب علم اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ تشدد کرنے والے گروہ کا گراف ہمیشہ گرتا اور پر امن جماعتوں اور گروہوں کا گراف ہمیشہ بڑھتا ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کے مشیر حالیہ دنوں میں جس روش کو اپناتے ہوئے نظر آرہے ہیں اس سے مسلم لیگ کے عوامی اثرات میں اضافے کی بجائے کمی واقع ہونے کے اندیشے موجود ہیں۔ اس سارے سیاسی ٹکراؤ کا بہت بڑا نقصان عوام کی نجی، معاشی اور معاشرتی زندگی پر منفی اثرات ہیں۔ پر تشدد سیاسی ٹکراؤ کی وجہ سے عوام الناس اپنے معاملات کو چلانے سے قاصر ہوجاتے ہیں۔ ماضی میں ماڈل ٹاؤن میں رہنے والا ایک دوست شدید ذہنی اضطراب اور دباؤ کا شکار رہا اور وہاں پر موجود اپنے گھر تک کو بیچنے پر آمادہ وتیار ہو چکا تھا۔ میں نے اس کو تسلی دی کہ وقت گزرنے کے ساتھ حالات بہتر ہو جائیں گے ۔سیاسی تناؤ کے کم ہونے کے بعد جب حالات کچھ بہتر ہوئے تو اہل علاقہ نے سکھ کا سانس لیا۔ جن دنوں میں پر تشدد سیاسی کشمکش اپنے عروج پر ہوتی ہے تو
ان ایام میں متاثرہ علاقے اور متاثرہ علاقوں اور شہروں کے لوگ شدید اضطراب اور بے چینی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لال مسجد کے اپریشن کے دوران بھی G6 کے رہنے والے لوگ معاشی اورکاروباری حوالے سے مایوسی اور اضطراب کا شکار ہو گئے تھے۔ حالیہ دنوں میں چلنے والی تحریک کے دوران میں پکڑ دھکڑ، گھیراؤ ، گرفتاریوں اور آنسو گیس کے استعمال کے نتیجے میں ایک تین دن کے بچے کی ہلاکت کی خبربھی سننے میں آئی ہے۔ یہ خبر ہر اعتبار سے افسوس ناک ہے۔ حکمرانوں کی ذمہ داری عوام کے جان، مال اور عزت کا تحفظ کرنا ہے۔ لیکن حکمران اپنے اقتدار کو بچانے اور سیاسی حریفوںکو زیر کرنے کے لیے کئی مرتبہ اس اندازمیں حکومتی فورس اور مشینری کو استعمال کرتے ہیں کہ عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں کا جینا بھی دوبھر ہو جاتا ہے اور کئی مرتبہ لوگ موت کے گھاٹ بھی اتر جاتے ہیں۔ حکمرانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ سیاسی معاملات کو آگے بڑھانے اور سیاسی حریفوںکو مات دینے کے لیے ایسی پالیسیوں کو اختیارکریں کہ جن کے نتیجے میں عوام الناس بے چینی، اضطراب ، مایوسی اورکلفت کا شکار نہ ہوں۔ اسی طرح اپوزیشن کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ احتجاج کرتے ہوئے ایسے رویے اور طرز عمل کو اختیار نہ کریںکہ جس کے نتیجے میں تشدد کی فضا پیدا ہو۔
ملک میں جمہوری کلچر کے دعویداروں حکمرانوں کو سیاسی مخالفت کو برداشت کرنے کے لیے اپنے دلوں کو وسیع کرنا چاہیے اور اپوزیشن جماعتوںکو پورے پورے شہروں اور علاقوں کو جام کرنے کی کالیں دینے کی بجائے کسی پبلک مقامات کو اپنے احتجاج کے لیے منتخب کرنا چاہیے۔ تاکہ احتجا ج بھی ہوجائے اور عوام الناس کی زندگی بھی کسی قسم کے خطرات سے دوچار نہ ہو۔ہمارا سیاسی کلچر عدم برداشت ، انانیت ، خود پسندی اور ضد پر مبنی ہے۔ ہم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتے جب تک ہم رواداری، برداشت اور تحمل کے کلچر کو فروغ نہیں دیتے۔ امید ہے کہ مغربی اقوام کی طرح اپنے ملک کو جمہوریت کا ماڈل بنانے کے دعویدار لوگ اہل مغرب سے برداشت اورتحمل کا سبق حاصل کریں گے صبر ،تحمل ،برداشت اور رواداری کے ذریعے ہی ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے گا۔امید ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں سیاست کرنے کے ساتھ ساتھ ملک اور عوام کے مفاد کو بھی مدنظر رکھیں گی۔ اللہ ہمارے سیاسی زعماء کو دانشمندی اور بصیرت عطا فرمائے۔ تاکہ ہمارا ملک ایک مثالی ریاست کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہو سکے۔