رات اور دن اللہ تعالیٰ کی دو نشانیاں ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ نباء میں رات کو لباس اور دن کو معاش قرار دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ قصص کی آیت نمبر 71 اور 72 میں اس امر کا اعلان کیا '' کہہ دیجئے‘ دیکھو تو سہی! اگر اللہ تبارک و تعالیٰ تم پر رات ہی رات قیامت تک برابر کر دے تو سوائے اللہ کے کون معبود ہے جو تم پر دن کی روشنی لائے۔ کیا تم سنتے نہیں ہو۔ کہہ دیجئے کہ‘ یہ بھی بتا دو کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ قیامت تک دن ہی دن رکھے تو سوائے اللہ کے کوئی معبود ہے جو تمہارے پاس رات لے آئے جس میں تم آرام حاصل کرو‘ کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو‘‘۔ رات جہاں پُرسکون اور اطمینان کا ذریعہ ہے وہیں پر اس بات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ رات اپنے اندر بہت سی شر والی چیزوں کو بھی سموئے ہوئے ہے۔ رات ہونے پر بازارِ گناہ آباد ہو جاتے ہیں اور رات کے اندھیرے میں چور، ڈکیت اور لوگوں کے مال لوٹنے والے لوگ اپنے غلط منصوبے تیار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ رات کے وقت کئی مرتبہ نفس انسانی میں کمزوری اور ناامیدی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ نفسیاتی امراض کے شکار لوگوں کے امراض رات کے وقت بڑھ جاتے ہیں اور ان کے دکھ اور کرب میں رات کے اندھیرے کی وجہ سے اضافہ ہو جاتا ہے۔ راتوں کو بہت سے لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نافرمانی‘ فسق و فجور، غلط دعوتوں اور اجتماعات کے انعقاد میں مشغول رہتے ہیں۔ جہاں پر رات کو منفی انداز میں گزارا جاتا ہے وہاں رات کو مثبت انداز میں گزارنے کے ذریعے انسان دنیا اور آخرت کی ترقی کے بہت سے مدارج بھی طے کر سکتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہم سب کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپ نے جس انداز میں اپنی راتوں کو بسر کیا‘ اگر اس پر غور کیا جائے تو اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک مومن و مسلمان کی رات کس طرح کی ہونی چاہیے۔ نبی کریمﷺ کا معمول امام ترمذی نے نقل کیا ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ بلا شک و شبہ نبی رحمتﷺ سورہ سجدہ اور سورہ ملک پڑھے بغیر نہ سوتے۔ بعض احادیث مبارکہ میں سورہ بنی اسرائیل اور سورہ زمر کے متعلق بھی آیا ہے کہ آپ سونے سے پہلے ان کی تلاوت بھی فرمایا کرتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی تعالیٰ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سوتے وقت کا معمول ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتی ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات سونے کے لیے اپنے بستر مبارک پر محو استراحت ہوتے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ملا لیتے پھر ان پر پھونک مارتے اور سورہ اخلاص، فلق اور ناس ان پر پڑھتے۔ یعنی یہ سورتیں پڑھ کر ان پر دم کرتے پھر اپنے جسم اطہر پر جہاں تک ممکن ہوتا اپنے ہاتھ پھیرتے۔ آپؐ اپنے سر مبارک اور چہرے سے ان کاآغاز فرماتے اور اپنے جسم کے سامنے والے حصے پر تین بار یہ عمل فرماتے۔ اس طرح سورہ اخلاص، فلق اور ناس کی تلاوت کا مقصد واضح ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی پناہ کو طلب کیا جائے اور سورہ فلق میں خصوصیت سے رات کے اندھیرے کے چھا جانے والے شر سے بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی گئی۔ ارشاد ہوا کہ کہہ دیجئے میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں‘ ہر اس چیز کے شر سے جس کو اُس نے پیدا کیا اور اندھیری رات کی تاریکی کے شر سے جبکہ اس کا اندھیرا پھیل جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو سورہ بقرہ کی آخری دو آیات اور آیت الکرسی پڑھنے کی بھی تلقین فرمائی ہے۔ صحیح بخاری کی طویل حدیث میں مذکور ہے کہ جب انسان سونے کے لیے بستر میں آئے اور آیت الکرسی پڑھے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نگران اس کی حفاظت پر مامور ہو جائے گا اور صبح تک شیطان اس کے پاس بھی نہیں پھٹکے گا۔ سنن ابی داؤد کی حدیث کے مطابق جو شخص بستر پر آئے اور اللہ کا ذکر نہ کرے تو روز قیامت اس کے لیے پچھتاوا ہو گا۔ نبی کریمﷺ نے سونے سے پہلے وضو کرنے کی بھی تلقین فرمائی‘ اور طہارت کی حالت میں سونے والے کے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی میسر ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔ آپﷺ سونے سے قبل رات کو اپنے بستر کو جھاڑنے کا بھی حکم دیا اور پیٹ کے بل لیٹنے سے منع فرمایا ہے۔ حدیث پاک کے مطابق نبی کریمﷺ اپنی دائیں کروٹ میں سویا کرتے تھے۔ نبی کریم صلیﷺ نے اپنی امت کے لوگوں کی اس حوالے سے رہنمائی کی کہ اگر ان کے ہاتھوں پر چکناہٹ لگی ہو تو ان کو اپنے ہاتھوں کو صاف کر لینا چاہیے۔ اسی طرح آپﷺ نے سونے سے پہلے دروازے بند کرنے، سونے سے پہلے چراغ گل کر دینے اور سونے سے پہلے برتن ڈھانپ دینے کی بھی تلقین فرمائی۔ نبی کریمﷺ راتوںکو لمبے قیام والی تہجد کا اہتمام فرمایا کرتے اور رات کی تنہائی میں آپ اپنے پروردگار کے سامنے اپنی مناجات، دعاؤں، تمناؤں اور نیک آرزوؤں کو بھی رکھا کرتے تھے۔ رات کا پچھلا حصہ جہاں تہجد کے اہتمام کے لیے بہترین وقت ہے‘ وہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں آ کر دعا مانگنے کا بھی بہترین موقع ہے۔ دن کے وقت کئی مرتبہ انسان اپنے کاروبار، ملازمت اور اہل خانہ کی ذمہ داریوں میں مشغول ہونے کی وجہ سے اپنے مسائل کے حوالے سے کماحقہ دعا نہیں کر سکتا‘ لیکن رات کے اندھیرے میں دعا کرنے‘ رات کے پچھلے پہر اُٹھ کر اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے اپنی حاجات پیش کرنے اور اپنے خالق و مالک کے سامنے اپنی عرضداشت پیش کرنے کے بڑے خوبصورت امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ رات کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی قربت حاصل کرنا‘ اس لیے بہت آسان ہو جاتا ہے کہ انسان شور و غل اور دنیا کے جھمیلوں سے کٹ کر تنہا اپنے مالک کی بارگاہ میں کھڑا ہوتا ہے اور وہ اپنے مالک سے جو چاہتا ہے طلب کر سکتا ہے۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث پاک میں اس بات کا ذکر ہے کہ نصف شب یا دو تہائی رات کے بیت جانے کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ اس امر کا اعلان فرماتے ہیں کہ ''کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ اسے عطا کیا جائے، کیا کوئی دعا کرنے والا ہے کہ اس کی مراد پوری ہو، کیا کوئی گناہوں سے معافی کا طلب گار ہے کہ اسے پروانۂ مغفرت مل جائے‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے راتوں کے وقت جب ان چیزوں کو طلب کیا جاتا ہے تو پروردگار عالم اپنے بندوں کی فریادوں کو قبول و منظور فرما لیتے ہیں۔
قرآن مجید نے ایک موقع پر ہمیں یہ بات بتلائی کہ حضرت یونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ میں موجود تھے تو آپ نے اندھیروں ہی میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی تسبیح کی تھی‘ اور اپنی تکلیف کی نسبت اللہ تعالیٰ کی بجائے اپنی ذات کے ساتھ کی تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کی فریاد کو قبول و منظور فرما کر ان کے غم کو دور کر دیا اور قرآن مجید میں یہ بات کہی ''اسی طرح ہم مومنوں کے غموں کو دور فرماتے ہیں‘‘۔
بعض لوگ رات کو گپ شپ، غلط لٹریچر کے مطالعے اور غلط پروگرام دیکھنے کی نذر کر دیتے ہیں‘ جبکہ رات کے وقت قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے اور رات کے وقت طلبا اور تحصیل علم کے شائقین اپنے مضامین کی اچھے انداز میں دُہرائی یا تیاری بھی کر سکتے ہیں۔ رات کے پچھلے پہر اٹھ کر اللہ تبارک و تعالیٰ کے قرآن مجید کی تلاوت کرنا یقینا خوش نصیبی کی بات ہے۔ احادیث طیبہ اور اپنے پیغمبر کے فرامین کے مطالب کو سمجھنا بھی ہر اعتبار سے مستحسن ہے۔ اسی طرح اپنے اسباق کی دُہرائی کرنے کی کوشش کرنا بھی انتہائی مفید ہے۔ رات کے وقت یاد کیے جانے والے اسباق انسان کو تادیر نہیں بھولتے اور اس کے ذہن پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتے ہیں۔ رات کا اندھیرا جہاں انسان کو بربادی کے راستے پر چلانے کا باعث بن جاتا ہے وہیں رات کے اندھیروں میں کئی لوگ اپنے والدین کی خدمت کرکے اپنے لیے جنت کی منازل کو آسان بنا لیتے ہیں۔ رات کے وقت اگر والدین کو پیاس لگے یا انہیں کسی دوائی کی ضرورت ہو تو ایسے عالم میں اپنے آرام کو تج کرکے ان کی ضروریات کو پورا کرنے ور ان کی خبر گیری کے لیے ان کی آرام گاہوں میں پہنچ کر ان کے حالات کی آگاہی حاصل کرنا یقینا اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمتوں کے حصول کا باعث ہے؛ چنانچہ ہم لوگوں کو رات کے وقت صرف اپنے آرام یا آسائش کا خیال نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے بوڑھے والدین کی ضروریات کی تکمیل کے لیے بھی جستجو کرنی چاہیے۔ رات کے اندھیروں میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنے مال کو بھی مستحقین تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ جو اپنے مالوں کو رات، دن خفیہ اور علانیہ طور پر خرچ کرتے ہیں‘ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے متعلق اعلان فرماتے ہیں ''ایسے لوگوں کا اجر اپنے رب کے پاس ہے اور نہ انہیں کوئی خوف ہو گا اور نہ انہیں کوئی غم ہو گا‘‘۔
رات کے اندھیروں میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرنا عام افراد کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کے پچھلے پہر گشت فرمایا کرتے اور اپنے رعایا کے احوال کی خبر رکھتے۔ جہاں کوئی ضرورت ہوتی تو پوری کرتے اور کوئی مشکل ہوتی تو اسے دور کرنے کی کوشش کرتے‘ جہاں کوئی فسق و فجور ہو رہا ہوتا‘ اس کے خاتمے کے لیے کمربستہ ہو جاتے۔ اگر ہمارے حکمران بھی رعایا کے حالات سے باخبر ہونے کے لیے راتوں کو صحیح انداز میں گزاریں تو ملک کے تمام کے تمام معاملات کی اصلاح ہو سکتی ہے اور ملک سے جرائم، فسق و فجور، بدامنی اور اضطراب کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو راتوں کو صحیح انداز میں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!