سورہ فاتحہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا کی سب سے بڑی نعمت یعنی سیدھے راستے کی طلب کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سیدھے راستے کے حوالے سے یہ بات بھی کہی کہ یہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنا انعام کیا اور یہ ان لوگوں کا راستہ نہیں ہے جو اللہ کے غضب کا نشانہ بنے یا گمراہ ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''مغضوب علیہم‘‘ یعنی کہ جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا سے مراد یہود ہیں۔ جب ہم قرآن مجیدکا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہودی اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب اور اس کے عذاب کا نشانہ کیوں بنے؟ یہودیوں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف واقعات بیان کیے ہیں۔ ان واقعات سے اس حقیقت کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں رہتا کہ یہودکن وجوہات کی بنیاد پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ اعراف میں اس واقعہ کا ذکر کیا کہ قوم موسیٰ کے لوگوں کو اللہ نے سمندر کے پار اتارا تو انہوں نے ایک ایسی قوم کو دیکھا جو بتوں کی پوجا کر رہی تھی۔ انہوں نے اس موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ بات کہی کہ موسیٰ علیہ السلام ہمیں بھی اِن کی طرح ایک اِلٰہ بنا دیجئے ۔ موسیٰ علیہ السلام اس بات پر بہت غصے میں آئے اور آپ نے فرمایا تم اللہ تبارک وتعالیٰ کو چھوڑ کر کسی اور کو اِلٰہ بنانا چاہتے ہو جب کہ اس نے تمہیں جہانوں پر فضیلت عطا کی ہے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ میں قوم موسیٰ کے اس واقعے کو بھی نقل کیا کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے ان کو بچھڑے کو ذبح کرنے کا حکم دیا تووہ مختلف طرح کی حجتیں کرنے لگے۔ کبھی اس کی عمر کے بارے میں سوال کرتے ، کبھی اس کی کیفیت کے بارے میں پوچھتے، کبھی رنگ کے بارے میں سوال کرتے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے ان تمام باتوں کی وضاحت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ ہر بات کے واضح ہو جانے کے بعد مجبوراًوہ بچھڑے کو ذبح کرنے پر آمادہ ہوئے جب کہ وہ دل سے بچھڑے کو ذبح نہیں کرنا چاہتے تھے۔اسی طرح جب موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر اللہ سے ہم کلام ہونے کے لیے تشریف لے گئے تو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں سامری جادوگر کے بنائے ہوئے مصنوعی بچھڑے کو پوجنا شروع کر دیا ۔ ہارون علیہ السلام کے سمجھانے کے باوجود بھی وہ موسیٰ علیہ السلام کی آمد تک بچھڑے کی پوجا سے دستبردار نہ ہوئے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ میں اس بات کا ذکرکیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قومِ موسیٰ پر آسمان سے من وسلویٰ کا نزول کیا لیکن من وسلویٰ کے نزول کے بعد بھی وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی اور ناشکری پر آمادہ وتیار رہے اور بعد میں یہ بھی کہنا شروع ہو گئے کہ موسیٰ علیہ السلام ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کر سکتے اپنے پروردگار سے کہیے کہ ہمیں زمین سے اگنے والی ترکاریوں، گندم، مسور،پیازاور دیگر سبزیوں کی ضرورت ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے اُن کے اس مطالبہ پر انہیںتنبیہ کی کہ کیا تم اعلیٰ چیز کو ادنیٰ سے بدلنا چاہتے ہو ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی اس خواہش کو پورا کر دیا۔ لیکن انہوںاپنے اس مطالبے اورناشکری کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے غصے اور ناراضگی کو دعوت دی۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مائدہ میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ بنی اسرائیل کے لوگ برائی سے نہیں روکتے تھے بلکہ خود برائی میں ملوث ہو چکے تھے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام اور عیسیٰ ابن مریم کے ذریعے ان پر لعنت کی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ یہود نے سیدہ مریم علیہا السلام جیسی مقدس عورت کی کردار کشی کی اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نسب پر طعن کیا اور ان کو شہیدکرنے کی کوشش کی، اسی طرح ان کو سود کھانے سے روکا گیا لیکن وہ سود کھانے میں ملوث ہو گئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ میں اس بات کا ذکر کیا کہ یہود اللہ تبارک وتعالیٰ کی آیات کو جھٹلایا کرتے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے نبیوں اور حق بات کہنے والوں کو شہید بھی کیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے افعال شنیع کی وجہ سے ان پر ذلت، مسکنت اور اپنے غضب کو مسلط کر دیا۔
سورہ بقرہ ہی میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہود کے مزید افعال بد کا بھی ذکر کیا جن میں سے ایک انتہائی برا عمل یہ تھا کہ وہ کتاب کے بعض حصے کو مانتے اور بعض حصے کا انکار کیا کرتے تھے ، اپنی من پسند چیزوں کو کتاب سے تسلیم کر لیتے اور جو چیز ان کے من کو نہ بھاتی اور ان کے نفس پر بوجھل ہوتی اس کا انکار کر دیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حوالے سے ارشاد فرمایا کہ کیا تم کتاب کے بعض حصے کو مانتے ہو اور بعض کا انکار کرتے پس جو تم میں سے ایسا کرے گا اس کو دنیا میں ذلت اور آخرت میں دردناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ میں یہودیوں کے ہی افعال کے حوالے سے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ وہ کتاب اللہ کی تعلیمات کو چھپایا کرتے تھے اور سورہ آل عمران میں اس بات کا ذکر کیا گیا کہ ان میںبعض لوگ اپنی زبانوں کو موڑ کر اس انداز میں گفتگو کرتے تھے کہ سننے والے کو یہ معلوم ہو کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتاب کی تلاوت کر رہے ہیں جب کہ حقیقت میں وہ کتاب اللہ کی تلاوت نہیں کر رہے ہوتے تھے۔ اسی طرح وہ اللہ کی آیات کو دنیا کے مال کے بدلے بیچ دیا کرتے تھے۔
اسی طرح یہود نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے بارے میں بھی عداوت اور بغض کا رویہ اختیار کیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کو(نعوذباللہ) خزانوں کا مالک ہونے کے باوجود تنگ دست اور فقیر قرار دیا۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے موقع پر بھی یہود نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے فیصلے کو تسلیم کرنے کی بجائے جبرائیل علیہ السلام کے بارے میں ہرزہ سرائی کرنا شروع کر دی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ میں اس امر کا اعلان فرمایا کہہ دیجئے!کہ جو جبرائیل کا دشمن ہے توبے شک اس نے آپ کے دل پر جو نازل کیا اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر کیا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہود کے علماء کے طرز عمل کے حوالے سے سورہ جمعہ میں اس بات کا ذکر کیا کہ وہ تورات کو اُٹھانے کے باوجود تورات کو نہیں اُٹھایا کرتے تھے اور ان کی مثال گدھے کی مانند ہے کہ جس پر کتابوں کا بوجھ لدا ہو اورسورہ توبہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا کہ بے شک بہت سے رہبان اوراحبار لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے اور ان کو راہ ہدایت سے بھٹکاتے ہیں۔ یہودی قوم کا طرز عمل یہ بھی رہا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو جب کسی چیز کا حکم دیتے تو وہ حیلے اور بہانے سے اس حکم کو ٹالنے کی کوشش کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ جب ان کو ہفتے کے روز مچھلیوں کا شکار کرنے سے روکا گیا تو انہوں نے حیلے بہانے سے ہفتے کی حرمت کو بھی پامال کردیا۔ یہودی ان افعال شنیع کی وجہ سے دنیا کے معزز اور مکرم قوم کے منصب سے گر کر دنیا کی مغضوب ترین قوم بن گئے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان سے دنیا کی قیادت ورہبری کو چھین کر پستی وذلت کی گہریوں میں گرا دیا۔
آج اُمت مسلمہ کو بھی اپنے افعال وکردار پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم یہود والا طرز عمل تو نہیں اپنا رہے، کہیںہم کتاب اللہ کے من پسند حصے کو قبول کر نے اور مشکل حصے کو ماننے سے انکار تو نہیں کر رہے، کہیںہم بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی فرامین کو ٹالتے ہوئے حجت بازی میں مصروف تو نہیں ۔ جب ہم اپنے طرز عمل پر غور کرتے ہیں تو اس بات کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں رہتاکہ سود کھانے ،فواحش اور منکرات کا ارتکاب کرنے اور مخلوط مجالس کے انعقاد کے لیے ہم بھی قرآن وسنت کے واضح احکامات میں تاویل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہمیں بھی جن احکامات پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا گیا ہے جب ہم ان کو نہیں کرنا چاہتے تو ان کو ٹالنے کے لیے کسی نہ کسی دلیل اور تفصیل کو تلاش کرنے میں مصروف رہتے ہیں نتیجتاًاللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب اور اس کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں۔ سورہ نور کے مطابق مسلمانوں کا طرز عمل یہ ہونا چاہیے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کی طرف بلایا جائے تو انہیں فوراً سے پہلے کہناچاہیے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ اگر ہمارا یہ طرز عمل ہو گا تو ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمتوںکے مستحق بن جائیں گے اور اگر ہمارا طرز عمل اس کے برعکس ہوا تو یہود کی طرح ہم بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کے مستحق ٹھہریں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین