قرآن مجید کی سورت آل عمران کی آیت نمبر 185میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کامیاب لوگوں کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:''ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت والے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیے جائو گے۔ پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میںداخل کر دیا جائے بے شک وہ کامیاب ہو گیا، دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے‘‘۔ قرآن مجید کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں جانے والا شخص حقیقت میں کامیاب ہوگیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر ان لوگوں کی صفات کا ذکر کیا جو اس کے فضل اور رحمت سے جنت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیںگے۔ چند مقامات کو میں قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں:
سورہ فرقان کی آیت نمبر 63 سے 76 تک اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے ان بندوں کا ذکر کرتے ہیں جو جنت میں جائیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں: ''رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پرفروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے، اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزار دیتے ہیں، اور جو دعاکرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم سے دوزخ کا عذاب پرے ہی پرے رکھ کیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے، بے شک وہ ٹھہرنے اور رہنے کے لحاظ سے بدترین جگہ ہے، اور جو خرچ کرتے وقت بھی نہ تو اسراف کرتے ہیں اور نہ بخیلی بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں اور وہ اللہ کے ساتھ کسی معبود کو نہیں پکارتے، اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں، اور جو کوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا، اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب کیا جائے گا اور وہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گا سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے، اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وہ تو اللہ کی طرف سچا رجوع کرتا ہے، اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں اور جب انہیں رب کے کلام کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو اندھے اور بہرے ہو کر ان پر نہیںگرتے اور یہ دعاکرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروںکا پیشوا بنا یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بالا خانہ دیے جائیں گے جہاں انہیں دعا اور سلام پہنچایا جائے گا، اس میںیہ ہمیشہ رہیں گے وہ بہت ہی اچھی جگہ اور عمدہ مقام ہے‘‘۔ سورہ فرقان کی ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بڑی وضاحت سے اپنے بندوں کے اوصاف کا ذکر کیا کہ وہ اپنے اوقات کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی میں گزارتے ہیں اور کبائر کے مرتکب نہیں ہوتے اور اس کی جنت کے حصول اور جہنم سے بچنے کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ مومنون کی ابتدائی آیات میں بھی ان لوگوں کا ذکر کیا جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بنائی ہوئی جنت کے بلند درجے یعنی جنت الفردوس میں داخل ہونے والے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مومنون کی آیت نمبر 1 سے آیت نمبر11 تک ان مومنوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کرلی جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں، جو لغویات سے مونہہ موڑ لیتے ہیں، جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں، جو اپنی پاکدامنی کی حفاظت کرنے والے ہیں بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے، یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں، جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں، جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں یہی وارث ہیں جو فردوس کے وارث ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فردوس میں جانے والوں کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کو واضح فرما دیا کہ ایسے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نماز ادا کرتے، اپنے مالوں میں سے اس کے حق کو ادا کرتے، اپنے وعدوں کو پورا کرتے اور اپنی پاکدامنی کا تحفظ کرتے ہیں اور ان تمام کاموں سے اجتناب کرتے ہیں جن کا دنیا اور آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ذاریات میں بھی ان لوگوں کا ذکر کیا جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل و رحمت سے کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار ہوںگے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ ذاریات کی آیت نمبر 15 سے 19 تک پرہیزگاروںکے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: '' بے شک تقویٰ والے لوگ جنتوں اور چشموں میں ہوں گے۔ ان کے رب نے جو کچھ انہیں عطا فرمایا ہے اسے لے رہے ہوںگے۔ وہ تو اس سے پہلے ہی نیکوکار تھے۔ وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے اور وقت ِسحر استغفار کیا کرتے تھے اور ان کے مال میں مانگنے والوں کا اور سوال سے بچنے والوں کا حق تھا‘‘۔ ان آیات میں پرہیزگاروں کے حوالے سے اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حقوق کو بھی ادا کرتے ہیں اور اس کے محتاج بندوں کے بھی کام آنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ معارج میں بھی ان لوگوں کے اوصاف بیان کیے جو اللہ تعالیٰ کے فضل بے پایاں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ معارج کی آیت نمبر 22 سے 35 تک ان لوگوں کا ذکر کرتے ہیں جو عزت واکرام کے ساتھ جنت میں داخل ہو جائیںگے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''مگر وہ نمازی جو اپنی نماز پر ہمیشگی کرنے والے ہیں، جن کے مالوں میں مقررہ حصہ ہے مانگنے والوں کا بھی اور سوال سے بچنے والوں کا بھی اور جو جزا کے دن پر یقین رکھتے ہیں اور جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں۔ بے شک ان کے رب کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں ہے۔ اور جو لوگ اپنی پاکدامنی کی حفاظت کرتے ہیں، ہاں ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں جن کے وہ مالک ہیں انہیں کوئی ملامت نہیں۔ اب اس کے علاوہ جو کوئی (راہ) ڈھونڈے گا تو ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہوںگے، اور جو اپنی امانتوںکا اور اپنے قول واقرار کا پاس رکھتے ہیں، اور وہ جو اپنی گواہیوں پر سیدھے اور قائم رہتے ہیں، اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہوںگے‘‘۔
ان آیات میں بھی ان نکات کا ذکر کیا گیا ہے جو انسان کے جنت میں داخل ہونے کا سبب ہوں گے۔ ان میں سے بہت سے نکات سابقہ سورتوںمیں بھی بیان کیے گئے ہیں، لیکن جو اہم نکات ان آیات میں بیان کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں کہ عزت کے ساتھ جنت میں عزت پانے والے لوگ امانت میں خیانت نہیں کریں گے، اپنے قول و قرار کا پاس رکھیں گے اور سچی گواہی پر سیدھے اور قائم رہیںگے۔ اگر انسان ان اوصاف کے ساتھ اپنی ذات کو مزین کرنے کی کوشش کرے تو وہ یقیناً آگ کے عذاب سے بچ کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی جنتوں میں داخل ہو سکتا اور اس کے خاص بندوں میں شامل ہو سکتا ہے۔ دنیا دارالعمل اور آخرت دارالجزا ہے۔ اس دارالعمل میں رہتے ہوئے اگر ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان اوصاف حمیدہ کو اپنی سیرت وکردار میں داخل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں اپنے بندگان میں شامل کرکے دنیا اور آخرت کی کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار فرمائے۔ آمین!