دبئی اور شارجہ میں مقیم دوستوں کے اصرار پر مجھے ایک مرتبہ پھرہفتہ بھر کے لیے متحدہ عرب امارات جانے کا موقع ملا۔ اس سفر میں‘جہاں پر ان علاقوں میں موجود دوست احباب سے ملاقاتیں کرنا تھیں‘ وہیں پر اس سفر کا بڑا مقصد ہندوستان کے معروف سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ملاقات اور حالیہ دنوں میں ان کے ساتھ کیے جانے والے نارواسلوک کے حوالے سے ان سے اظہار یکجہتی کرنا بھی تھا۔ خالد غوری اور برادر منظور شارجہ اور دبئی میں موجود دوست احباب میں سے نمایاں ہیں جو انتہائی محبت اور پیار کا مظاہرہ کرتے اور ان کے توسط سے کئی نئے دوستوں کو ملنے کا موقع بھی میسر آتا ہے۔ ان دوست احباب سے ہونے والی ملاقاتوں میں جہاں دنیا سے متعلق دلچسپی کے امور زیر بحث آتے ہیں وہیں پر ان سے ہونے والی نشستوں میں قرآن وسنت اور دینی امور کے حوالے سے بھی سیر حاصل گفتگوکرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ میں 15 نومبر کی رات کو پاکستان سے شارجہ کے لیے روانہ ہوا۔ شارجہ پہنچنے پر برادرخالد غوری نے ائیر پورٹ پرمیرا استقبال کیا اورمجھے اپنے گھر لے گئے۔ شارجہ میں 4روزہ قیام کے دوران اُن کے گھر میں مختلف پاکستانی دوستوں کے ساتھ نشستیںہوئیں اور ان مجالس میں سے ایک مجلس میں فکر آخرت کے حوالے سے گفتگو کرنے کا موقع میسر آیا۔
میں نے دوست احباب کے سامنے میں اس بات کو رکھا کہ انسان دنیا میں خواہ کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلے لیکن اگر وہ آخرت میں ناکام اور نامراد رہتا ہے تو اس کی دنیاوی کامیابیاں بے معنی اور بلامقصد ہیں۔ فرعون ، نمرود، ہامان، شداد ، قارون اور ابولہب دنیا میں اثرورسوخ رکھنے کے باوجود آخرت میں ناکام اور نامراد رہے۔ شارجہ میں مقیم دوستوں میں میاں محمود بھی شامل ہیں جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم ہیں انہوںنے بھی اپنی رہائش گاہ پر دوستوں کے ہمراہ ایک پروقار ڈنر کا اہتمام کیا ۔ ڈنر کے بعد میں نے نفس پرستی کے عنوان پر دوستوں کے سامنے اپنی گزارشات کو رکھا اور ان کے سامنے اس بات کو پیش کیا کہ جوانسان اپنی خواہشات کا اسیر بن گیا وہ ناکام اور نامراد ہو گیا۔ اس کے مدمقابل جس شخص نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے مقام کو پہچان کر اپنی خواہشات کو دبا لیا وہ حقیقت میں کامیاب اور کامران ہو گیا۔
شارجہ میں قیام کے دوران میری ملاقات امریکہ کے مشہور عالم دین ڈاکٹر ممدوح سے بھی ہوئی ۔ ڈاکٹر ممدوح والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر کے قریبی رفقاء میں شامل ہیں اور سیرت النبی ﷺ شریف میں تخصص اور دسترس رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر ممدوح سے ہونے والی میری ملاقات ہر اعتبار سے یادگار تھی۔ 66 سالہ ڈاکٹر ممدوح دھیمی طبیعت کے مالک ہیں۔ ان کی گفتگومیںسلاست، متانت اور ٹھہراؤ پایا جاتا تھا ۔ انہوں نے علامہ احسان الٰہی ظہیر کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کی یاد کو نہایت احسن انداز میں تازہ کیا۔ شارجہ میں قیام کے دوران ڈاکٹر ممدوح کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ساتھ بھی ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک عرصے سے تبلیغ دین کا فریضہ احسن انداز سے انجام دے رہے ہیں اور ان کی دعوت سے ہزاروں کی تعداد میں غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں۔ ان کی دعوتی سرگرمیوں کو دیکھ کر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی تعصب جانبداری کاشکار ہو چکا ہے اور جہاں پر اس نے اس سے قبل مظلوم کشمیری عوام کے ساتھ ظلم وتشدد کے غیر معمولی رویوں کو اپنایا اور پاکستان میںفلاحی کام کرنے والے حافظ محمد سعید کے خلاف ایک منظم مہم کو شروع کیا ، وہیں پر اُس نے ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے بین الاقوامی داعی اور اسلام کے عظیم مبلغ پر دہشت گردی کے جھوٹے الزام لگا کر ان کی دعوتی سرگرمیوں کو معطل کر دیا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ساتھ ملاقات کے دوران میں نے ان سے کامل اظہار یکجہتی کیا اور ان کے ساتھ کیے جانے والے ناروا سلوک پر افسوس کا اظہار کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو مہلت دی تو وہ قانونی اور دستوری جنگ لڑیں گے اور سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوںنے یہ توقع بھی ظاہر کی کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے پہلے کے مقابلے میں دس گنا زیادہ دعوت دین کا اہتمام کریں گے۔ دبئی میں مقیم دوست منظور بھائی نے بھی حسب سابق غیر معمولی مہمان داری کا مظاہرہ کیا اور دین اوردنیا سے متعلق بہت سے دلچسپی والے امور دبئی کے قیام کے دوران زیر بحث رہے۔ دبئی میں تین روزہ قیام کے دوران جہاں پر دوستوں کے ساتھ ملاقات کرنے کا موقع ملاوہیں پر دبئی کے تعمیراتی اور انتظامی ڈھانچے کو بھی بڑے غور سے دیکھنے کا موقع ملا اور دبئی کی بہت سی ایسی بلند عمارتیں نظروں سے گزریں جو اپنی تعمیرات کے اعتبار سے دنیا کے اندر ایک اچھوتا مقام رکھتی ہیں۔
برج خلیفہ دنیا کی سب سے بلند عمارت ہے۔ 2009ء سے لے کر اب تک اس کے مقابلے کی کوئی عمارت دنیا میںتعمیر نہیں کی گئی۔ برج خلیفہ کو 6جنوری 2004 ء میںبنانا شروع کیا گیا اور 31دسمبر2009ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔جب کہ اس کا افتتاح 4جنوری 2010ء میں کیاگیا۔ اس کی تعمیر پر 1.5ارب ڈالر کی لاگت آئی۔ اس کی بلندی828میٹر ہے۔ جب کہ اس کی نوک کی بلندی 829.8میٹر ہے۔ اس کی ایک سوتریسٹھ منزلیں ہیں۔ برج خلیفہ دبئی کے مختلف مقامات سے نظر آنے والی ایک انتہائی پرکشش عمارت ہے۔ دبئی میں آنے والا ہر شخص برج خلیفہ کے طرز تعمیر سے متاثر ہوتا ہے اور اس کے ذہن میں اس بلڈنگ کو دیکھ کر یہ تصور ابھرتا ہے کہ 5سے 6فٹ کی قامت کا انسان اپنے سے کہیں بلند عمارتوں کو کس طرح تعمیر کر لیتا ہے اور انسان کی بنائی ہوئی عمارتوں کی عمراور پائیداری اس کے اپنے مقابلے میں کس قدر زیادہ ہے۔
برج خلیفہ کے ساتھ برج العرب بھی اپنے طرز تعمیر کے لحاظ سے دنیا کی ایک منفرد عمارت ہے۔ یہ دنیا کا چوتھا بلند ہوٹل ہے جس کی تعمیر پر ایک ارب امریکن ڈالر کی لاگت آئی۔ یہ 56منزلہ ہوٹل جمیرا کے مصنوعی جزیرے میں واقع ہے اور دبئی کی طرف سفر کرنے والے لوگ اس کے طرز تعمیر کو دیکھ کر حیرت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ 321میڑ کی یہ عمارت سمند ر کے کنارے واقع ہے اور دیکھنے میں ایک بحری جہاز کا تاثر دیتی ہے۔ دبئی میں آنے والے لوگ بڑے شوق اور ذوق سے اس عمارت کو دیکھتے اور اس کے طرزِ تعمیر پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ دبئی میں بہت سے خوبصورت پارک بھی بنائے گئے ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ متحدہ عرب امارات اور جزیرۃ العرب میں زراعت اور سبزہ اس قدر فراوانیـ سے دیکھنے کو ملے گا لیکن کچھ عرصے سے متحدہ عرب امارات میں بنائے جانے والے پارکوں کو دیکھ کر یہ تاثر ملتا ہے کہ ان ممالک میں بھی سبزہ اسی طرح اُگ رہا ہے جس طرح پاک وہند میں اُگا کرتاتھا۔ ان پارکوں کی نفاست اور آرائش کو دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔ دبئی میں واقع عجائبات میں سے ایک حیرت انگیز اور پرکشش مقام ''گلوبل ویلیج ‘‘بھی ہے جہاں دنیا کے تمام ممالک کے نمایاںمقامات کو منصوعی ماڈلوں کی شکل میں تعمیر کیا گیا ہے۔ سیاحوں کی بڑی تعدادسیر وسیاحت کے لیے گلوبل ویلیج بھی آتی ہے اور ہر ملک کے کلچر اور طرز تعمیر کا مختصر نقشہ دیکھ کر بہت متاثر ہوتی ہے۔
دبئی میں سڑکوں کا ایک وسیع وعریض جال بچھا ہوا ہے اور اسی جال کے درمیان چلنے والی ٹرام دبئی کے گرد چلنے والی میٹرو مسافروں کے لیے غیر معمولی سفری سہولیات کو میسر کیے ہوئے ہے۔ دبئی کا طرز تعمیر اور یہاں پر قائم اتصالات کے موبائل اور کمپیوٹرنیٹ ورک کو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ تھوڑے ہی عرصے میں متحدہ عرب امارات نے اپنی سڑکوں اور ابلاغی نیٹ ورک کے اعتبار سے یورپ کو بھی مات کر دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات میںبنائی جانے والی مسجدیں بھی انتہائی پرکشش ہیں۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر موجود خوبصورت اور نفیس مساجد میں نمازی بکثرت نظر آتے ہیں اور اذانوں کے فوراً بعد اس ملک میں موجود مقامی اور غیرملکی باشندے اللہ کے حضور سر بسجود ہونے کے لیے مساجد کی طرف چل نکلتے ہیں۔ نماز کی ادائیگی اور مساجد کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات میں قانون کی عملداری بھی اپنے پورے عروج پر ہے اور کوئی شخص بھی ٹریفک قوانین سے لے کر امن وامان کے قیام کے لیے بنائے جانے والے قوانین کی مخالفت کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ یہاں پر موجود ملکی اور غیر ملکی باشندوں سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ یہاں پر ہر شخص کی جان ، مال اور عزت کلی طور پر محفوظ ہے اور کوئی شخص بھی اس حوالے سے تحفظات اور خطرات کا شکار نہیں۔ اس سے قبل برطانیہ اور سعودی عرب میں بھی قانون کی عملداری کے مناظر دیکھنے کا موقع ملا۔ ان ممالک میں قانون کی عملداری کو دیکھ کر بے اختیار دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے ملک کو بھی امن وسکون کا گہوارہ بنا دے اور یہاں پر بھی ہر شخص کی جان ، مال اورعزت محفوظ ہو جائے اوراے کاش! ہمارے دیس میں قانون ہر امیرو غریب کے لیے برابر ہو اور کسی بھی شخص کا استحصال نہ ہو۔ پاکستان ہمارا عظیم دیس ہے اور جب بھی کسی ملک کے مثبت پہلو دیکھنے کا موقع میسرآتا ہے تو بے اختیار دعائیں اپنے وطن کے لیے نکلتی ہیں۔ دبئی میں قیام کے آخری لمحات انہی دعاؤں میں بسر ہوئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے ملک کو بھی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرے اور اس کو ہر اعتبار سے حاسدوں کے حسد اور شریروں کے شر سے بچالے۔ آمین !