اس دنیا میں رہتے ہوئے انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کی بہت سی نعمتوں سے فیض یاب ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے چار نعمتیں ایسی ہیں جن کا درست استعمال کیا جائے تو انسان کی زندگی سنور جاتی ہے اور انسان دنیا و آخرت کی سربلندی اور عروج سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر ان چار نعمتوں کا غلط استعمال کیا جائے تو یہ نعمتوں کی بجائے زحمت بن جاتی ہیں۔ چار نعمتیں درجہ ذیل ہیں:
1۔ صحت 2۔ فراغت 3۔ اختیار 4۔ مال
صحت: اللہ تبارک و تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ صحت مند انسان اپنے کاروبارِ زندگی کو احسن طریقے سے انجام دے سکتا ہے، اپنے بیوی بچوں کی خاطر روزگار کے حصول کے لیے کماحقہ محنت کر سکتا ہے۔ سفر، تعلیم اور رشتہ داروں کے حقوق سمیت زندگی کے بہت سے امور کو احسن طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔ صحت مند انسان ان دنیاوی امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت بھی ذوق اور شوق سے کر سکتا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور بروقت اور باقاعدگی سے سربسجود ہو سکتا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے فرض کردہ روزے بھی احسن انداز سے رکھ سکتا ہے، اس کے کلام کی تلاوت کر سکتا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فریضہ ٔ حج بھی بطریق احسن ادا کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس ایک کمزور انسان ان تمام امور کو بہتر انداز میں سرانجام دینے سے قاصر رہتا ہے۔ صحت کی یہی نعمت کئی مرتبہ انسان کو غلط راستوں پر بھی لے جاتی ہے اور انسان کسب حلال کے بجائے کسبِ حرام کے لیے اپنی توانائیوں کو صرف کرنا شروع کر دیتا ہے۔ صحت مند انسان کئی مرتبہ تعیشات، فواحش اور منکرات کے راستے پر بھی چل نکلتا ہے اور اپنی طاقت کو بے راہ روی اور بدکرداری کے راستوں پر بھی استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے۔ صحت کی نعمت کا غلط استعمال جہاں انسان کی دنیاوی زندگی میں اس کی صحت کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے‘ وہاں اس کی اُخروی زندگی کی تباہی پر بھی منتج ہو سکتا ہے۔
اسی طرح اگر فراغت پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ فراغت بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اگر انسان اپنے امور کی انجام دہی کے بعد فارغ وقت پانے میں کامیاب ہو جائے تو وہ ان فارغ اوقات کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی میں صرف کر سکتا ہے۔ اسی طرح اچھی کتب کے مطالعے کے ذریعے اپنے علم میں اضافہ کر سکتا ہے، اچھی مجالس میں بیٹھ کر اہلِ علم سے فیض یاب ہو سکتا ہے۔ لیکن یہی فراغت کئی مرتبہ لوگوں کی تباہی پر بھی منتج ہو جاتی ہے۔ فارغ لوگ کئی مرتبہ گندی فلمیں، فحش پروگرام، مخربِ اخلاق لٹریچر کے مطالعے میں مصروف رہتے ہیں۔ اسی طرح فارغ اوقات کو کئی مرتبہ گندی مجالس اور فحش گوئی کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ جب فارغ اوقات کا درست استعمال کیا جائے تو یہ اوقات اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی کے علاوہ انسانوںکے ساتھ بہتر رویوں کے فروغ میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن جب انسان اپنے وقت کو برباد کرتا ہے تو یہی وقت اس کے لیے دنیا اور آخرت کی ذلت و رسوائیاں سمیٹنے کا باعث بن جاتا ہے۔
فراغت کے ساتھ ساتھ اختیار بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اختیار کے درست استعمال کے ذریعے انسان مظلوموں کی حمایت کر سکتا ہے، بے بسوں اور بے کسوں کے کام آ سکتا ہے اور دکھی افراد کی خدمت کر سکتا ہے۔ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دنیا میں بہت سی ایسی ہستیاں گزری ہیں‘ جنہوں نے اپنے اختیارات کا درست استعمال کیا۔ حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت یوسف، حضرت طالوت اور حضرت ذوالقرنین علیہم السلام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان تمام ہستیوں کو اقتدار اور اختیار کی نعمت سے نوازا‘ لیکن ان ہستیوں نے اس اختیار کو خود پسندی، جاہ پرستی، تکبر اور غرور کے لیے استعمال کرنے کی بجائے مخلوق خدا کی خدمت کے لیے صرف کیا۔ یہی معاملہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی المرتضیٰ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم اور حضرت عمر ابن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کا بھی ہے۔ خلفائے راشدین نے اپنے اختیارات کو صحیح طریقے سے استعمال کیا‘ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے ساتھ ساتھ رعایا کی درست انداز میں خدمت بھی کرتے رہے۔ اس کے برعکس بہت سے صاحبِ اختیار لوگوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا؛ چنانچہ جہاں دنیا کی بدنامی ان کا مقدر بنی‘ وہیں یہ لوگ آخرت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی بنائی ہوئی جہنم کے مستحق بھی ٹھہرے۔ فرعون، نمرود، ہامان اور جالوت کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان کے پاس سیاسی اختیار اور دنیاوی عہدے موجود تھے۔ فرعون، ہامان، نمرود اور جالوت ان عہدوں کا درست کے بجائے ناجائز استعمال کرتے رہے اور ان ظالموں نے ظلم، جور اور بربریت کو فروغ دیا۔ اسی طرح ہلاکو خان اور چنگیز خان نے بھی اپنے عہدوں کا غلط استعمال کیا اور انسانیت کے لہو سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کیا۔ دنیا کی ذلت اور آخرت کی رسوائی ان تمام لوگوں کا مقدر بن گئی۔ آج بھی جب ہم اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں بہت سے ایماندار، دیانت دار، محب وطن اور دین سے محبت کرنے والے افسران اور صاحب اختیار لوگ نظر آتے ہیں‘ جو اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے اداروں کی نیک نامی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ اس کے برعکس مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ہمیں بہت سے ایسے لوگ ملتے ہیں جو اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے اپنی دانست میں دنیا کی عارضی زندگی کو بہتر بنانے کی تگ و دو کرتے ہیں لیکن ان کا غلط طرز عمل ان کی ساکھ بڑھانے کے بجائے‘ اسے مجروح کر دیتا ہے۔ یہ ظالم، خود پسند، متکبر اور خود غرض لوگ جہاں اپنی ذات کو بدنام کرتے ہیں‘ وہاں اپنے اداروں کی رسوائی اور بدنامی کا بھی باعث بنتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے مال بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کے درست استعمال سے انسان جہاں اپنے بیوی بچوں کے رزق کا بہترین انداز میں بندوبست کر سکتا ہے وہاں اللہ تبارک و تعالیٰ کی مخلوق کے بھی احسن انداز میں کام آسکتا ہے۔ اس مال کا صدقہ اور خیرات کے ذریعے درست استعمال کیا جائے تو یتیموں، بیواؤں اور غریبوں کی احسن انداز میں کفالت کی جا سکتی ہے‘ لیکن اسی مال کے غلط استعمال کے ذریعے انسان دنیا اور آخرت کی ذلت و رسوائی کو بھی اپنے لیے جمع کر سکتا ہے۔ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے کے بعد ایسے متمول اور جاگیردار لوگوں کی ذہنیت کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہتا‘ جنہوں نے اپنے مال کے غلط استعمال کے ذریعے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضی مول لی۔ قارون اور شداد کے پاس مال کی وسعت تھی۔ اسی طرح ابولہب بھی ایک متمول انسان تھا‘ لیکن یہ لوگ اپنے مال کی وجہ سے سرکشی اور گھمنڈ پر اُتر آئے۔ ان کی سرکشی، غرور اور گھمنڈ کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ ان سے ناراض ہوئے اور دنیا اور آخرت کی رسوائی ان کا مقدر بن گئی۔ اس کے مدمقابل حضر ت عثمان غنیؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے اپنے مال کے ذریعے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی حاصل کی اور اسی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کی بشارت کے مستحق ٹھہرے۔ آج بھی جب ہم اپنے گرد و پیش میں دیکھتے ہیں تو بہت سے لوگ اپنے مال کو درست طریقے سے استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مساجد، دین کے مدارس، رفاہی ادارے اور انسانیت کی خدمت کے بہت سے منصوبے تیار کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اس کے مدمقابل بہت سے لوگ اپنے مال کو شراب نوشی، جوئے، قمار بازی، عیاشی اور فحاشی کے فروغ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے لوگ اپنے مال کو رشوت ستانی کے لیے استعمال کرکے دوسروں کے حقوق کو غصب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی لوگ اپنے مال کا غلط استعمال کرکے دوسروں کی کردار کشی کرتے اور ان کو بدنام کرنے کی جستجو کرتے ہیں‘ تو ایسے لوگ اپنے لیے دنیا و آخرت کی رسوائیاں اور ذلت جمع کر لیتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کل قیامت کے دن نعمتوں کے بارے میں سوال کرے گا۔ یہ نعمتیں حقیقی معنوں میں جبھی نعمتیں رہیں گی‘ جب انسان ان کو درست طریقے سے استعمال کرے اور اگر انسان نے ان کو منفی طریقے سے استعمال کیا تو یہی نعمتیں اس کے لیے زحمت بن جائیںگی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنی ان چار نعمتوں کو درست طریقے سے استعمال کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔