ہر محب وطن شخص اپنے ملک کے حوالے سے مختلف تمناؤں کو اپنے دل میں سموئے ہوئے ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی نیک تمنائیں اور خواب پورے ہو جائیں۔ میری بھی اپنے وطن کے حوالے سے خواہشات اور تمنائیں ہیں اور ان کی تکمیل کے لیے میں بھی اپنی بساط کے مطابق جدوجہد میں مصروف رہتا ہوں۔ میری زندگی کی یہ بہت بڑی خواہش ہے کہ جس مقصد کے لیے پاکستان کو بنایا گیا تھا اس مقصد کو اپنی زندگی میں پورا ہوتے ہوئے دیکھ سکوں۔
حضرت محمد علی جناح، حضرت علامہ محمد اقبال، حضرت مولانا ظفر علی خاں ، حضرت محمد علی جوہر اور اس جدوجہد کی تکمیل کے لیے تحریک پاکستان کے دیگر قائدین نے ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے بھر پور انداز میں جدوجہد کی تھی اور اس جدوجہد کو مکمل کرنے کے لیے برصغیر کے طول و عرض میںبسنے والے مسلمانوں نے ان کا بھر پور طریقے سے ساتھ دیا تھا۔ بڑی تعداد میں قربانیاں دینے کے بعد ہم پاکستان کے حصول میںتو کامیاب ہوگئے لیکن تاحال پاکستان اس مقام پر نہیں پہنچ سکا جس مقام پر پہنچانے کے لیے ہمارے قائدین اور اکابرین نے محنتیں اور جدوجہد کی تھی۔
دینی تحریکیں جب اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا نعرہ لگاتی یا اس مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کرتی ہیں تو معاشرے میںبسنے والے بہت سے موثر افراد ان کے اس نعرے سے تشویش اور شکوک و شبہات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بعض عناصر کا یہ گمان ہے کہ ایک اسلامی ریاست شاید فرقہ وارانہ یامذہبی تشدد پر مبنی ریاست ہو گی جب کہ بعض عناصر یہ گمان کرتے ہیں کہ اس میں قبائلی طرز زندگی کو اجاگر کیا جائے گا ۔ اسی طرح بعض لوگوں کایہ خیال ہے کہ ایک اسلامی فلاحی ریاست دورحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتی اور مذہب سے نجات حاصل کیے بغیر عصر حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔
یہ تمام شبہات غیر حقیقی ہیں اور ان شبہات کے حوالے سے قرآن وسنت کی تعلیمات اور دینی تحریکوں کے قائدین کے فلسفہ ٔسیاست پر غور کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ یہ تاثرات درحقیقت اسلام اور مذہب کے ناقدین نے جان بوجھ کر تراشے ہیں تاکہ پاکستان حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر کام نہ کر سکے۔
ایک اسلامی فلاحی ریاست کسی بھی اعتبار سے فرقہ وارانہ تشدد کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔ بلکہ ایک اسلامی فلاحی ریاست میں بسنے والے مختلف مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذاہب کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ اسلام ریاست کا مذہب ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ریاست باقی تمام مذاہب کے پیر وکاروں کو جینے کا مکمل حق دیتی ہے اور پرسنل لاز کے مطابق ان کے معاملات کو طے کیا جاتا ہے۔ اسلامی ریاست میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا بنیادی مقصد ایک پر امن معاشرے کو قائم کرنا اور معاشرے میں موجود سنگین نوعیت کے جرائم کی بیخ کنی کرنا ہوتا ہے۔ اگر اسلام کے نظام حدود و تعزیرات پر غور کیا جائے تو اس سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ زناکی حد کا مقصد نسب کی حفاظت کرنا، شراب کی حد کا مقصد عقل کی حفاظت کرنا ، چوری کی حد کا مقصد مال کی حفاظت کرنا،حد قذف کا مقصد انسانوں پر لگنے والی جھوٹی تہمتوں کا انسداد کرنا اور قانونِ قصاص کا مقصد انسانی جان کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔
ایک اسلامی فلاحی ریاست کا مقصد لوگوں کی آزادیوں کو سلب کرنا نہیں ہوتا بلکہ معاشرے میں موجود فواہش اور منکرات کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے تمام انسانوں کو بہترین انداز میں ان کے حقوق کو فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اسلام اقلیتوں اور دیگر مذاہب کے پیرو کاروں کے حقوق کا علمبردار ہونے کے ساتھ ساتھ عورتوں اور بچوں کے لیے بھی تعلیم اور تربیت کے تمام امکانات کی مکمل حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ عورت کا پردہ اگرچہ اسلامی ریاست کے اہداف میں شامل ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عورت پردے کی حدود میں رہتے ہوئے اپنی جائز خواہشات، ضروریات اور تعلیم کے مراحل کو مکمل نہیں کر سکتی۔ ایک اسلامی معاشرے میں بسنے والی عورت طب، ادب، مذہب، سماجی علوم، کیمیا، حساب، طبعیات اور تجارت سمیت تمام علوم کو حاصل کر سکتی ہے۔ پردے کا مقصد بنیادی طور پر اس کو بری نظر سے بچانا اور معاشرے میں بد اخلاق عناصر کی اس کی سمت پیش قدمی کو روکنا ہے۔ اسلامی معاشرے میں بسنے والے لوگ کسی بھی طور پر قبائلی طرزثقافت کے پابند نہیں ہوتے۔ اسلامی فلاحی ریاست کے شہروں میں رہنے والے لوگ شہری انداز میں ، دیہات میں رہنے والے لوگ دیہی انداز میں اور قبائلی زندگی گزارنے والے لوگ قبائلی انداز میں اپنی زندگی کے ایام کو گزارتے ہوئے بھی اسلامی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں۔ یہ سوال بھی بالعموم لوگوں کے ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ شاید مذہب سائنسی ترقی اور علوم کی حوصلہ شکنی کرتا ہے یہ اعتراض بھی فقط تعصب اور پروپیگنڈا پر مبنی ہے۔
تاریخ اسلام اور تاریخ انسانیت اس بات پر شاہد ہے کہ جس وقت یورپ سائنسی علوم میں نابالغ تھا اس وقت مسلمان سائنسدان ان علوم میں دنیا کی رہنمائی کر رہے تھے۔ مسلمان حکمرانوں نے فلکیات، کیمیائ، ہندسہ، طب اور حیاتیات کے علوم کے فروغ کے لیے ماہرین کی احسن انداز میں حوصلہ افزائی اور سرپرستی کی تھی۔ سائنسی علوم کا مقصد انسانوں کی زندگی کے مسائل کو حل کرنا اور ان کے رہن سہن میں سہولیات پیدا کرنا ہے اور ہمارا مذہب اسلام ان تمام معاملات میں بہترین اسلوب کو اپنانے کا حامی ہے۔ تاہم اسلام اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ آلات اور فنون کا استعمال منفی کی بجائے مثبت ہونا چاہیے۔ جب اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کی بات کی جاتی ہے تو بہت سے لوگ یہ بھی گمان کرتے ہیں شاید دینی تحریکوں کو چلانے والے اس مقصد کے حصول کے لیے تشدد، قتل وغارت گری اور دہشت گردی کا راستہ اپنانا چاہتے ہیں۔ یہ الزام بھی حقیقت پر مبنی نہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والی دینی جماعتوں کی اکثریت آئینی اور دستوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہے اور ان کا یہ ماننا ہے کہ آئینِ پاکستان نے قرآن وسنت کو سپریم لاء قرار دیا ہے اور اس آئین کی رو سے مطابق اسلام کو اس ملک کا سپریم لاء ہونا چاہیے اور ملک کی پارلیمان کو قانون سازی کرتے ہوئے قرآن وسنت کی حدود وقیود کو مد نظر رکھنا چاہیے اور اسی مقصد کے لیے ملک میں اسلامی نظریاتی کونسل کا ادارہ بھی کام کر رہا ہے۔
ملک میں کام کرنے والی دینی جماعتوں کی اکثریت فلسفہ ٔ عدم تشدد پر یقین رکھتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بعض عناصر خوامخواہ دینی تحریکوں کو بدنام کرنے کے لیے غلط قسم کی افواہوں کو اڑاتے رہتے ہیں۔ ریاست میں جہاں جدت پسندی، آزاد خیالی اور یورپی طرز ثقافت کے علمبردار افراد اپنے اپنے دائرے میں کام کرنے کے لیے آزاد ہیں اسی طرح مذہب کی بالا دستی اور ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کہ جس میں بسنے والے تمام شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں کے لیے کام کرنے والی دینی تحریکوں کو بھی کام کرنے کی مکمل آزادی ہو نی چاہیے اور ان کے خلاف بلاجواز پروپیگنڈا اور افواہ سازی کا عمل بند ہونا چاہیے۔ بعض لوگ دینی تحریکوں کے منشور کو شدت پسندی سے جوڑتے ہیں یہ تاثر درست نہیں دین بقائے باہمی ، مساوات، احترام اور رواداری کا درس دیتا ہے اور سمجھ دار زیر ک علماء اور دانشور کبھی بھی اپنے نظریات کو جبراً دوسروں پر مسلط نہیں کرتے۔ میر ی اور بہت سی دیگر دینی جماعتوں کی یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر کام کرے اور اس مقصد کے لیے جدوجہد کرنے والی تمام جماعتوں کو اشتراک عمل کے ساتھ اس مقصد کے حصول کے لیے کوشش کرنی چاہیے تاکہ پاکستان صحیح معنوں میں حضرت محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے ویژن کے مطابق اکیسویں صدی میں صرف برصغیر نہیں بلکہ عالم اسلام کی قیادت کا فریضہ انجام دے سکے۔