"AIZ" (space) message & send to 7575

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت

اللہ تبارک وتعالیٰ نے تین ذوالعقول اور کلام کرنے والی مخلوقات پیدا کیں۔ فرشتے، جنات اور انسان عقل اور کلام کی صفت سے متصف ہوئے۔ فرشتوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے عصمت کا جوہر رکھا اور ان کو اپنی نافرمانی سے محفوظ فرما لیا۔ انسان اور جنات میں بیک وقت نیکی اور بدی کی صلاحیتیں موجود ہیں، اس لیے یہ دونوں مخلوقات اپنے اعمال کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں جوابدہ ٹھہریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اگرچہ انسان کو ان دونوں مخلوقات کے بعد پیدا کیا لیکن حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے جمیع فرشتوں کو ان کے سامنے جھکنے کا حکم دے کر حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کو واضح فرما دیا۔ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد دو حصوں میں تقسیم ہوئی۔ بعض لوگ اپنے نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات سے رو گردانی کرنے والے ہیں۔ ایسے لوگ چوپایوں کی مانند بلکہ اس سے بھی زیادہ بدتر قرار پائے، جبکہ اس کے مد مقابل ایک گروہ ایسے لوگوں پر بھی مشتمل رہا جنہوں نے اس دنیا کی عارضی زندگی کی رونق اور کشش سے متاثر ہونے کی بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کیے رکھا۔ صلحائ، شہداء اور صدیقین اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ یہ تینوں جماعتیں رتبے کے اعتبار سے بہت اعلیٰ ہیں، لیکن انبیاء علیہم السلام کا مقابلہ اس اعتبار سے نہیں کر سکتیں کہ انبیاء علیہم السلام پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی وحی کا نزول فرمایا اور اپنے کلام کو براہ راست یا کسی فرشتے کے ذریعے ان تک پہنچایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام کے حامل ہونے کی وجہ سے انبیاء علیہم السلام جمیع مخلوقات سے بہت بلند وبالا ٹھہرے۔ انبیاء علیہم السلام کی جماعت میں 313 یا 315 ایسی ہستیاں گزریں جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے شریعت اور قوانین عطا فرما کر منصب رسالت پر فائز فرما دیا۔ 
رُسُل اللہ انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے قوانین لائے۔ ان رسولوں میں سے پانچ ہستیاں اپنی استقامت، ہمت، عزم اور حوصلے کی وجہ سے اولوالعزم ٹھہریں۔ حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ ، حضرت موسیٰؑ ،حضرت عیسیٰؑ اور حضرت محمد رسول اللہﷺ نے مثالی زندگیاں گزاریں۔ حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک توحید کی دعوت دینے میں مصروف ومشغول رہے۔ اس طویل عرصے کے دوران آپ کو مختلف طرح کی اذیتیں سہنا پڑیں اور اعدائے دین کی شقاوتوں کو برداشت کرنا پڑا، لیکن آپ پوری شد ومد سے اپنے مشن پر کاربند رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے لیے بے مثال قربانیاں دیں۔ نمرود کی چتا میں کودنا گوارہ کر لیا ، بت کدے میں کلہاڑا چلا دیا، بستی اور باپ کی دشمنی مول لے لی، سورج، چاند اور ستاروں کی حقیقت واضح فرما کر لوگوں کو یہ پیغام سنا دیا کہ اجرام سماویہ خالق نہیں بلکہ مخلوق ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توحید کے لیے بہت سی محبتوں کی قربانی بھی دی۔ اپنی شریک زندگی کو شیر خوار بچے کے ساتھ وادیٔ بے آب وگیا میں چھوڑ دیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر اپنے کم عمر بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلانے پر آمادہ وتیار ہوگئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے لیے بے مثال جدوجہد کی۔ فرعون کی رعونت، قارون کے سرمائے، شداد کی جاگیر اور ہامان کے منصب کو خاطر میں لائے بغیر اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت لوگوں کے سامنے رکھتے رہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی بستی والوں کی مخالفت مول لی، حاکم وقت کی عداوت و شقاوت کی پروا کیے بغیر اللہ تبارک وتعالیٰ کا پیغام لوگوں کے سامنے رکھا۔ اولوالعزم انبیاء علیہم السلام کی قربانیاںاور جد و جہد ہر اعتبار سے قابل تحسین ہیں لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اولوالعزم رسولوں میں سے جو مقام رسول اکرم ﷺ کو حاصل ہوا وہ کسی دوسرے کے مقدر میں نہیں آیا۔ رسول اللہ ﷺ سابقہ انبیاء علیہم السلام کے مقابلے میں درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر افضل اور بلند ہیں:
1۔ عالمگیریت: حضرت رسول اللہﷺسے قبل مختلف انبیاء علیہم السلام اپنی اقوام اور اپنے علاقے کی رہنمائی کے لیے مبعوث کیے گئے۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم، حضرت ہودؑ قوم عاد، حضرت صالحؑ قوم ثمود، حضرت شعیبؑ قوم مدین ، حضرت لوطؑ قوم سدوم جبکہ حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون، حضرت داؤد ، حضرت سلیمان ،حضرت زکریا، حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ علیھم السلام جیسے برگزیدہ رسول بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے مبعوث کیے گئے۔ اس کے بالمقابل اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید کی سورہ اعراف کی آیت نمبر 158 میں بیان فرمایا: ''کہہ دیجئے، اے لوگو، بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں‘‘۔
2۔ دوام: حضرت رسول اللہﷺسے پہلے جتنے بھی رسول آئے ان میں سے بعد میں آنے والے رُسُل اللہ نے سابق رسولوں کی شریعتوں کو منسوخ کر دیا ۔ گویا ایک رسول کی شریعت کو بعد میں آنے والا رسول منسوخ کر دیتا تھا۔ اس کے بالمقابل اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت رسول اللہﷺکودوام عطا فرمایا اور قیامت کی دیواروں تک کے لیے آپ کی شریعت اور آپﷺ کے عطا کردہ پیغامات کو انسانیت کے لیے حجت اور رہنما بنادیا۔ 
3 ۔ نبی قبلتین: حضرت ابراہیم علیہ السلام ابو الانبیاء ہیں۔ آپ کی اولاد اللہ تبارک وتعالیٰ کے دو عظیم گھروں کی پاسبانی کا فریضہ انجام دیتی رہی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد بیت المقدس کے علاقے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے ابلاغ میں مصروف رہی جبکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور آپ کی اولاد بیت اللہ کے گرد و نواح میں آباد ہوئی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ شرف حضرت رسول اللہ ﷺ کو عطا فرمایا کہ آپ ﷺکو سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر1 کے مطابق بیت الحرام سے بلند فرما کر صحن بیت المقدس میں پہنچا دیا گیا اور اس امر کو واضح فرما دیا گیا کہ نبی کریم ﷺ ایک قبلے کے مقتدا نہیں بلکہ نبی القبلتین بن کر آئے ہیں۔ 
4 ۔ ختم نبوت: نبی کریم ﷺسے پہلے آنے والے رُسُل اللہ اور انبیاء یکے بعد دیگرے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والے پیغام کی نشر و اشاعت میں مصروف رہے۔ حضرت آدمؑ کے بعد حضرت نوحؑ آپ کے بعد حضرت ہودؑ اور ان کے بعد حضرت صالحؑ اور ان کے بعد حضرت ابراہیمؑ اورآپ کے بعد حضرت اسماعیلؑ، حضرت اسحاقؑ اور حضرت لوطؑ اور ان کے بعد حضرت یعقوبؑ، حضرت یوسفؑ ۔ اسی طرح حضرت موسیٰؑ ، حضرت ہارونؑ، جناب داؤدؑ اور جناب سلیمانؑ، حضرت زکریاؑ او ر حضرت یحییٰؑ اور ان کے ساتھ ساتھ حضرت عیسیٰؑ اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے ابلاغ میں مصروف رہے۔ لیکن حضرت رسول اللہﷺکے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت نمبر40 میں اس امر کا اعلان فرما دیا: ''اور نہیں ہیں محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ اور لیکن وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں‘‘۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺکے بعد دعویٰ نبوت کرنے والا شخص خواہ کوئی بھی ہو وہ جھوٹا اور کذاب ہو گا اور آپﷺکے بعد کسی اور شخص کو نبوت اور رسالت نہیں مل سکتی۔ چنانچہ آپ کے بعد دعویٰ نبوت کرنے والے مسیلمہ کذاب، اسود عنثی، علی محمد باب، حسین علی مازمدانی، علیجہ محمد، راشد الخلیفہ ،غلام احمد قادیانی اور یوسف کذاب جیسے تمام لوگ ملعون اور مبغوض ٹھہرے۔
حضرت رسول اللہﷺکو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ عالم برزخ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ربوبیت کے بعد آپ کی نبوت و رسالت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اسی طرح حضرت رسول اللہ ﷺکا یہ اعزاز بھی ہے کہ عالم ارواح میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جمیع انسانیت سے اپنی توحید کا اقرار کروانے کے ساتھ ساتھ انبیاء علیہم السلام کی ارواح کے اجتماع میں حضرت رسول اللہﷺکی نبوت اور رسالت کا عہد لیا تھا۔ حضرت رسول اللہﷺعالم ارواح، موجودہ دنیا اور عالم برزخ کی طرح عالم حشر میں بھی انتہائی بلند مقام پر فائزہوں گے اور یوم محشر میں جب اللہ تبارک وتعالیٰ غصے اور غضب کی انتہا پر ہوں گے اور جمیع انسانیت اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب سے خوفزدہ ہوگی تو ایسے عالم میں سوال وجواب کا آغاز بھی حضرت رسول اللہ ﷺ کی دعا ہی سے ہوگا۔ قیامت کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے ساتھ شرک نہ کرنے والوں کے لیے حضرت رسول اللہ ﷺ شفاعت فرمائیں گے۔ اسی طرح یوم محشر شدید گرمی کے عالم میں آپ کے حوض یعنی حوض کوثر سے پانی پینے والے لوگوں کو پچاس ہزار سال تک گرمی کا احساس تک نہیں ہو گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کے دن آپ کو مقام محمود بھی عطا فرمائیں گے۔ نبی کریمﷺکی فضیلت کے دلائل اس کے علاوہ بھی بہت سے ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر میں نے چند منتخب دلائل کو قارئین کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے۔ نبی کریم ﷺکی فضیلت مسلّم ہے، آپ کی ذات اعلیٰ و ارفع ہے اور آپ کی شخصیت بلند و بالا ہے۔ اُمت محمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ کے مقام اور منصب کو پہچانتے ہوئے آپﷺ کی حرمت، تقدس اور ناموس کا پاس کرے اور آپ ﷺکی محبت کو ہر غیرکی محبت پر ترجیح دے۔ اسی طرح ہمیں آپ ﷺکی بات کو ہر غیر کی بات پر ترجیح دینی چاہیے اور آپ کے نظام کو اغیار کے نظام سے بہتر ماننا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں فضیلت محمدی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں