معاصر معاشروں میں‘ بشمول ہمارے اپنے معاشرے کے‘ ظلم عام ہے۔تاہم اللہ کے فضل وکرم سے ہمارے معاشرے میں ظلم اس انتہا پر نظر نہیں آرہا کہ جس پردنیا کے بہت سے مقامات میں نظر آ رہا ہے۔ دنیا میں بالعموم جس شخص کے پاس طاقت، اختیار، اثر ورسوخ اور مال موجود ہے وہ دوسرے انسان کا یاتو استیصال کر رہا ہے یا اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُس کا استحصال کرنے میں مصروف ہے۔ مذہبی ، لسانی اور گروہی اختلافات کی بنیاد پر دوسرے انسانوں کو جینے کا حق بھی نہیں دیا جا رہا۔ انسان جتنا زیادہ طاقتور ہے اپنے مخالف پر اتنا ہی زیادہ ظلم ڈھاتا ہوا نظر آتا ہے۔ دنیائے اسلام کے بعض خطے ایک عرصہ سے ظلم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ کشمیر ی گزشتہ پون صدی سے بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لیے کوششیں کر رہے ہیں لیکن بھارت ان کو کسی بھی طور پر اُن کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کے مسلمان رہنماؤں کواسلام اور پاکستان سے محبت کی وجہ سے کڑی سزاؤں کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ برما کے مسلمانوں کو صرف اسلام کی نسبت سے انسانیت سوز مظالم کا سامنا ہے۔ فلسطین میں بسنے والے مسلمانوں کی حالت بھی دنیا کے سامنے ہے۔ نہ کسی بزرگ کی داڑھی کو دیکھا جا رہا ہے ،نہ چھوٹی عمر کے بچے کی کمسنی کا لحاظ کیا جا رہا ہے، نہ ہی عورتوں کے تقدس کی پروا کی جا رہی ہے اور نہ ہی نوجوانوں کی جوانی پر ترس کھایا جا رہا ہے۔ صہیونی مسلمانوں کو مسلسل لہو میں غسل دے رہا ہے۔
چند روز قبل ''حلب ‘‘میں بھی بے پناہ مظالم دیکھنے میں آئے۔ معصوم بچوں، عورتوں ، بوڑھوں اور جوانوں کو لہو میں غسل دیا گیا۔ ـبے گناہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو بغیر کسی معقول وجہ کے موت کی نیند سلا دیا گیا۔ ظلم انسانوں میں بالعموم انتقام اور غیظ و غضب کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور انسان اس بات کی تمنا کرتا ہے کہ اگر اس کو موقع ملا تو وہ ظالم کو تہہ تیغ کر دے گا۔ مظلوم کی نفسیاتی کیفیت بالعموم متوازن نہیں رہتی۔ جب اس کو موقع ملتا ہے تو وہ بھی ظالم سے انتقام لینے میں کسر نہیں چھوڑتا۔ تاریخ انسانیت میں محسن انسانیت ایک ایسی بے مثال شخصیت ہیں کہ جنہوں نے انسانیت کو انتقام اور غیظ وغضب کی راہ اختیار کرنے کی بجائے توازن کا راستہ اختیار کرنے کا درس دیا۔ نبی کریم حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو لوگوں کو عدل اور احسان کی تلقین کی اور انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس امر سے آگاہ کیا کہ وہ انسانوں کو عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت نمبر 90 میں اعلان فرمایا ''اللہ تعالیٰ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔‘‘ عدل ظلم کی ضد ہے ظلم کا مطلب ہے کسی چیز کو ایسے مقام پر رکھنا ہے جو کہ اس کا اصل مقام نہیں۔ اس کے بالمقابل عدل کا مطلب کسی چیز کو اس کے اصل مقام پر رکھنا یا اس کے اصل مقام پر لانا ہے ۔ جب کہ احسان اس سے اوپر کے درجے کی چیز ہے۔ احسان حسن سلوک، عفوودرگزر اور معاف کر دینے کے معنوں میں آتا ہے۔ حق واجب سے زیادہ دے دینا یا عمل واجب سے زیادہ عمل کرنا یا انتقام لینے کی بجائے سرے سے اپنے حق کو چھوڑ دینا احسان کہلاتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر اہل ایمان کوانصاف اور عدل کو اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ سورہ نساء کی آیت 135 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! عدل وانصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور اللہ کی خوشنودی کے لیے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ خواہ وہ گواہی تمہارے اپنے خلاف یا تمہارے ماں باپ یا رشتہ دار عزیزوں کے خلاف ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو اللہ ان دونوں کا زیادہ خیر خواہ ہے پس تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ اس سے پوری طرح با خبر ہے۔ ‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس آیت میں اس بات کو واضح کر دیا کہ ہمیں کسی شخص کی محبت یا قرابت میں انصاف کے راستے کو ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اگر ہمارے کسی قریبی عزیز نے کسی کی حق تلفی کی ہو یادوسرے سے زیادتی کی ہو تو قرابت داری کی وجہ سے اس کا ساتھ دینے کی بجائے حق پرستی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور حق ہی کی حمایت کرنی چاہیے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مائدہ میں اس بات کی نصیحت کی ہے کہ انسان کو کسی قبیلے کی دشمنی کی وجہ سے حق کے دامن کو نہیں چھوڑ دینا چاہیے۔یہ بات کسی
بھی طور پر درست نہیں کہ انسان کسی کی عداوت کی وجہ سے اس کے ساتھ زیادتی کرنے پر آمادہ وتیار ہو جائے؛ چنانچہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر8 میں اللہ تبارک وتعالیٰ اعلان فرماتے ہیں ''اے ایمان والو!تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ ،راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ ،کسی قوم کی عداوت تمہیں عدل کی خلاف ورزی پر آمادہ نہ کرے اور عدل کیا کرو جو پرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو ،یقین مانو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ ‘‘
کسی بھی معاشرے اور ریاست میں جب عدل کو عام اور انصاف کے راستے کو اختیار کر لیا جاتا ہے تو ظلم اور زیادتی کا خودبخود خاتمہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اسلام معاشروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ریاست کے اہم ارکان کو عدل کی تلقین کرتاہے اور اس کے ساتھ ساتھ نجی حیثیت میں افراد کو احسان پر بھی آمادہ وتیار کرتا ہے۔ اگرچہ کئی مرتبہ عدالت کے نتیجے میں انسانی جان مال اور عزت کا تحفظ زیادہ بہتر انداز میں ہوتا ہوا نظر آتا ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں کو عدل کے ساتھ ساتھ احسان کا راستہ بھی دے رکھا ہے۔ قتل کے معاملے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میںمقتول کو قصاص کا راستہ بتلایا۔ لیکن قصاص کا راستہ بتلانے کے ساتھ ساتھ دیت کی شکل میں احسان کی بھی ایک صورت کو برقرار رکھا تاکہ اگر کسی قاتل کے زندہ رہنے کی صورت میں اصلاح کے امکان موجود ہوں تو اس پر بھی غوروخوض کر لیا جائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت 178 اور 179 میں ارشاد فرماتے ہیں '' اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے۔ آزاد آزاد کے بدلے، غلام غلام کے بدلے، عورت عورت کے بدلے ۔ہاں جس کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہیے۔ تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اوررحمت ہے ۔اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے اسے دردناک عذاب ہوگا۔ عقلمندو! قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے اس باعث تم (قتل ناحق) سے رکو گے۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے گھریلو زندگی کے معاملات کو بھی معروف طریقے سے چلانے کے ساتھ ساتھ علیحدگی کی صورت میں احسان کے راستے کو اپنانے کی تلقین کی۔ انبیاء علیہم السلام کی زندگی میں بھی احسان کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے ساتھ بہت زیادہ زیادتیاں کیں ، انہیں کنوئیں میں پھینک دیا ،انہیں باپ کی آنکھوں سے دور کر دیا‘بعدازاں حضرت یوسف علیہ السلام کو زندگی میں بہت سے اتار اور چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک طویل عرصے کے بعد جب حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اختیارات و اقتدار عطا کیا۔اس وقت یوسف علیہ السلام اپنی بھائیوں سے انتقام لینے پر قادر تھے لیکن آپ نے انتقام کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے احسان کا راستہ اختیار کرتے ہوئے انہیں معاف کردیا۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جب فتح مکہ کے موقع پر انتقام لینے کا موقعہ ملا تو آپ نے انتقام لینے کی بجائے اپنے دشمنوں کو معاف کرکے اپنی امت کے لوگوں کے لیے بہترین مثال کو قائم کر دیا۔ ظلم کا مقابلہ ظلم سے کرنے سے ظلم وبربریت میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ ظلم کی روک تھام کے لیے اگرعدل کا راستہ اختیار کیا جائے تو ظلم کا خاتمہ ہوتا ہے اور عدل سے بڑھ کر اگرکسی موقع پر احسان کا راستہ اپنا لیا جائے تو اس سے بھی ظلم کی بیخ کنی اور معاشرے کی اصلاح میں مدد حاصل ہوتی ہے۔ اسلام کی تمام حدودبھی عدل کو قائم کرنے کے لیے ہیں۔ چنانچہ چوری کی حد پر اگر عمل کر لیاجائے تو انسان کا مال محفوظ ہوسکتاہے ۔قانون قصاص پر عمل کرلیا جائے تو زندگیوں کے تحفظ کی ضمانت مل سکتی ہے۔ قذف کی حد پر عمل کرلیا جائے تو انسانوں کو بدنامی سے بچایا جا سکتا ہے ‘ اسی طرح اگر زناکی حد پر عمل کر لیاجائے تو لوگوں کے نسب محفوظ ہو سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے اور دنیا کے دیگر معاشروں کو اس وقت عدل اور اس کے ساتھ ساتھ احسان کی بھی ضرورت ہے۔ دعاہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ دنیا بھر کے مظلوموں کو ظلم سے نجات دلائے اور دنیا میں عدل واحسان کا دور دورہ ہو جائے ۔ آمین!