"AIZ" (space) message & send to 7575

نظریۂ پاکستان

25 دسمبر کا دن ہمیں اس عظیم شخصیت کی یاد دلاتا ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کے لیے محسن کی حیثیت رکھتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح بلاشبہ برصغیر کے رہنماؤں میں ممتاز تر حیثیت کے حامل ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو ذہانت، فطانت، جرأت، مستقل مزاجی اور بلند عزائم کا حامل انسان بنایا تھا۔ 
بانیء پاکستان حضرت محمد علی جناح 25 دسمبر 1876ء کو وزیر مینشن کراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم کیتھڈرل اور جان کونن سکول سے حاصل کی۔ بعدازاں سندھ مدرسۃ الاسلام اور کرسچین مشنری ہائی سکول میں زیر تعلیم رہے۔ آپ کے والد پونجا جناح کے ساتھ تجارت کرنے والے انگریز فیڈرک لی کورٹ نے آپ کو برطانیہ میں اپنی کمپنی گراہم شپنگ اینڈ ٹریڈنگ میں اپرنٹس شپ کی پیشکش کی۔ آپ نے لندن پہنچنے پر اپرنٹس شپ ترک کرکے وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ''لنکن ان‘‘ میں داخلہ لے لیا۔ بیس برس کی عمر میں بیرسٹر بننے کے بعد بمبئی (اب ممبئی) واپس آ گئے۔ آپ اس وقت شہر کے واحد مسلمان بیرسٹر تھے۔ آپ کی پیشہ ورانہ زندگی کے ابتدائی تین سال جدوجہد میں گزر گئے۔ 1900ء میںآپ کو بمبئی کے ایڈووکیٹ جنرل کے چیمبر میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران آپ عارضی طور پر بمبئی کے ریزیڈنسی مجسٹریٹ بھی بنے۔ 6 ماہ کے بعد آپ کو مستقل طور پر اس ملازمت کی پیشکش کی گئی‘ مگر آپ نے جج بننے کے بجائے وکالت کو ترجیح دی۔ 1907ء میں آپ کو بیرسٹر سر فیروز شاہ کا کیس لڑنے کا موقع ملا‘ جنہیں دھاندلی کے ذریعے میونسپل انتخابات میں ہرا دیا گیا تھا۔ آپ نے بھرپور وکالت کی۔ اگرچہ مقدمہ جیت نہ سکے لیکن دلائل پر گرفت کی وجہ سے آپ کو غیرمعمولی شہرت ملی۔ بمبئی ہائیکورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ایک جج نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: مسٹر جناح ! یاد رکھیے، آپ کسی تھرڈ کلاس مجسٹریٹ سے گفتگو نہیں کر رہے۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ جج صاحب آپ بھی متنبہ رہیے کہ آپ بھی کسی تیسرے درجے کے وکیل سے دلائل نہیں سن رہے۔
حضرت محمد علی جناح کو وکالت کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی دلچسپی تھی۔ اپنی سیاسی زندگی کا آغاز بمبئی میں ہونے والے کانگریس کے بیسویں سالانہ اجلاس سے کیا۔ ان کا اس وقت خیال تھا کہ ایک علیحدہ مسلمان جماعت بنانے کے بجائے مسلمانوں کو کانگریس کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنی چاہیے۔ آپ نے پوری دیانت داری اور خلوص کے ساتھ کانگریسی رہنماؤں کے ہمراہ برصغیر کے باسیوں کی آزادی کے لیے جدوجہد کی اور اپنی کاوشوں کی وجہ سے ہندو مسلم اتحاد کے سفیر بن کر ابھرے۔
مسلم لیگ کی محنت اور کاوش کی وجہ سے جہاں برصغیر کے مسلمانوں کی توجہ اس کی طرف مبذول ہونا شروع ہوئی وہاں جناح بھی ذہنی طور پر اس طرف مائل ہونا شروع ہوگئے۔ 1912ء میں آپ نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اس حالت میں شرکت کی کہ آپ کانگریس کے لیڈر بھی تھے۔ آپ نے 1913ء میں مسلم لیگ میں باقاعدہ شمولیت اختیارکرلی اور دونوں جماعتوںکے اتحاد کے لیے بھی جستجو کرتے رہے۔ بعد ازاں آپ نے اپنی توجہ مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی بحالی پر مرتکز کر دی اور رفتہ رفتہ مسلمانوں کے ایک علیحدہ وطن کے حصول کے لیے کوشاں ہو گئے۔ 
محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے قیام پاکستان کے لیے انتھک جدوجہد کی۔ آپ نے بیک وقت انگریز سامراج اور ہندوؤں کی مکاری کا مقابلہ کرکے مسلمانان ہند کے لیے دنیائے اسلام کی سب سے بڑی ریاست کے حصول کو یقینی بنا دیا۔ حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے نظریاتی، مولانا ظفر علی خان نے صحافتی اور مولانا محمد علی جوہر نے خطیبانہ انداز کے ذریعے جس مشن کو آگے بڑھایا‘ قائد اعظم نے اپنی شبانہ روز جدوجہد سے اس کو حقیقت کا روپ دے دیا۔ جناح کی زندگی اس اعتبار سے انتہائی قابل قدر ہے کہ آپ نے پاکستان کے قیام کے وقت اپنے خطابات کے ذریعے نظریاتی منزل اور جہت کو واضح کر دیاکہ اس کی منزل اور اس کا رخ واشنگٹن یا ماسکو کی بجائے مکہ اور مدینہ ہوں گے۔ اس کا دستور کسی سیکولر ڈاکومنٹ کی بجائے قرآن مجید کو قرار دیا اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ اور مطہرہ کو اپنے لیے اور مسلمانانِ ہند کے لیے رول ماڈل قرار دیا۔ آپ نے اتحاد، ایمان اور تنظیم کی بات کی اور اپنی قوم کی توجہ ترقی اور بقا کے عظیم اصولوں کی طرف مبذول کرائی۔ جب ہم ان تمام اصولوں پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مسائل کی وجہ ان تینوں اصولوں میں سے کسی ایک یا زائد پر عمل نہ کرنا ہے۔ قوموں کی ترقی میں ان کا اتحاد کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ قوم خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو جب تک متحد نہ ہو اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ آلِ عمران میں اس بات کا حکم دیا ''اور تم سب اللہ کی رسی کو مل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں مت پڑو‘‘۔ بدنصیبی سے جناح کی رحلت کے بعد ہم اپنے تفرقات پر قابو نہ پا سکے اور لسانی، گروہی، مذہبی اور سیاسی دھڑوں میں تقسیم ہوئے۔ لسانی تقسیم کے نتیجے میں اپنے مشرقی بازو سے بھی محروم ہو گئے۔ بچے ہوئے پاکستان کو متحد کرکے چلانا ارباب سیاست، مذہبی رہنماؤں اور ریاست کے ارکان کی ذمہ داری ہے‘ لیکن تاحال ہم اتحاد کے اس مثالی مقام پر نہیں پہنچ سکے‘ جس کی طرف ہماری توجہ ہمارے قائد نے مبذول کرائی تھی۔ 
اتحاد کے ساتھ ساتھ آپ نے ایمان کی اہمیت کو اجاگر کیا اس لیے کہ ایمان انسان کو منزل کے تعین میں مدد دیتا ہے۔ ایمان انسان میں حوصلہ، جرأت اور کردار کی بلندی پیدا کرتا ہے۔ جو قوم ایمان کی دولت سے لبریز ہوتی ہے، اس کے سیاسی اور معاشی معاملات خواہ کتنے ہی بدتر کیوں نہ ہوں، وہ جلد یا بدیر دنیا میں اپنا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بدر، احد، حنین اور فتح مکہ کے معرکوں میں جس بے مثال کردار کا مظاہرہ کیا اس میں جہاں ان کے اتحاد نے کلیدی کردار ادا کیا وہاں ان کی ایمانی غیرت نے بھی کافروں کی پسپائی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ جب تک ایمان کی شمع کسی قوم میں جلتی رہتی ہے‘ وہ کامران رہتی ہے۔ آج ہمار امعاشرہ حیاء داری اور ایثار کی نعمتوں سے کسی حد تک محروم ہے تو اس کی وجہ ایمان کی کمی ہے۔ قائد اعظم کے اگر اس فرمان پر غور کیا جائے تو پاکستان کے ٹوٹنے کی ایک بڑی وجہ ایمان کی کمی بھی نظر آتی ہے۔ ایمان اور عمل صالح کے نتیجے میں انسان دنیا میں بالادست ہوتا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق دنیا میں خلافت کا وعدہ ایمان اور عملِ صالح کرنے والوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ 
اتحاد اور ایمان کے ساتھ ساتھ حضرت محمد علی جناح نے تنظیم کا بھی درس دیا‘ اور اس بات کو واضح کیا کہ متحد اور مومن قوم منظم ہوجائے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کو شکست نہیں دے سکتی۔ قرآن مجید اور تاریخی کتب کا مطالعہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ دنیا میں بہت سی ایسی اقوام جو تعداد میں کم تھیں، انہوں نے اپنے سے بڑی اقوام پر اگر غلبہ حاصل کیا تو اتحاد اور ایمان کے بعد تنظیم کی قوت سے حاصل کیا۔ تنظیم کی قوت انسان کو اپنے رہنماؤں اور قائدین کی اطاعت پر آمادہ اور اپنی ذمہ داریوں کو بروقت اور احسن انداز میں ادا کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ قرآن مجید میں طالوت اور جالوت کا واقعہ مذکور ہے۔ جناب طالوت نے دریا میں سے گزرتے ہوئے اپنے لشکر کو پانی پینے سے روکا اور مجبوری کی حالت میں مٹھی بھر پانی پینے کی اجازت دی۔ قوم کے لوگ جو پیاس کو برداشت نہ کرسکے اور جی بھر کر پانی پیا مگر لشکر کفار سے مقابلہ ہوا تو وہ حوصلہ ہار گئے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جنہوں نے اپنے قائد کے حکم کی تعمیل کی تھی ان میں کسی قسم کی کم حوصلگی پیدا نہیں ہوئی۔ انہوں نے ڈٹ کر لشکر جالوت کا مقابلہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کو شکست دی۔ تنظیم انسانوں کے اندر سے اونچ اور نیچ کا فرق ختم کرکے سماج کو ایک مضبوط اکائی کی شکل دیتی ہے۔ 
جب کسی سماج میں رہنے والے لوگ اپنی منزل کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے یکسوئی کو اختیار کر لیتے ہیں اور منظم انداز میں اپنے ہدف کے حصول کے لیے کوششیں کرتے ہیں تو ان کی کامیابی یقینی ہو جاتی ہے۔ حضرت محمد علی جناح نے اپنی قوم کی توجہ جس سمت مبذول کرائی تھی آج بھی ہمیں اسی سمت پیش قدمی کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت قائد کے موٹو اور نصب العین پر عمل کرکے یقینا ہم ایک عظیم قوم کی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں ایک عظیم قوم کی حیثیت سے دنیا میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے۔ آمین 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں