فارغ وقت صحت اور مال کی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کا درست اور صحیح استعمال کرنے والے اپنے عہد کے بڑے لوگوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ دیکھنے، سننے، کھانے، پینے کی صلاحیت تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر انسان کو دی ہے‘ لیکن عقل، ذہانت، حکمت اور علم کی دولت سے بہرہ ور لوگ اپنے علاقے اور وقت کے رہنما اور قائد بن جاتے ہیں۔ جس طرح مال اور دولت کمانے کے لیے انسان کو توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح علم، شعور اور آگہی کے حصول کے لیے بھی انسان کو اپنا وقت صرف کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ اپنا وقت ضائع کر بیٹھتے ہیں وقت بھی ان کی قدر نہیںکرتا اور ان کی یادوں کو دھندلا دیتا یا ان کو کُلی طور پر فراموش کر دیتا ہے۔ یہ لوگ اپنی زندگی کا پہلا حصہ عیش و عشرت میں ضائع کر بیٹھتے ہیں لیکن زندگی کے آخری حصوں میں انہیں مشقت اور حسرتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ وقت کی قدروقیمت اور افادیت کا احساس کرتے ہیں انہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے اور گردونواح کے لوگوں میں نمایاں حیثیت حاصل ہوتی چلی جاتی ہے۔ پاکستان میں ہر سال دو مرتبہ طلبہ کو چھٹیاں ملتی ہیں۔ گرمیوں کی طویل چھٹیاں اور موسم سرما کی مختصر تعطیلات۔ ان تعطیلات میں طلبہ بالعموم وقت بہت زیادہ ضائع کرتے ہیں۔ دوستوں سے ملنا ملانا، گپ شپ کرنا، ہوٹلوں میں چلے جانا اور انٹرنیٹ پر اپنے دوست احباب سے چیٹنگ میں مصروف رہنا‘ ان تعطیلات کا مصرف بن چکا ہے۔ یوں فارغ وقت کو بہتر طریقے سے استعمال نہیں کیا جاتا اور چھٹیاں گزرنے کے بعد ان کے علم اور صلاحیتوں میں اضافہ ہونے کی بجائے کمی واقع ہو جاتی ہے۔
تعطیلات اور فارغ وقت کیسے گزارنا چاہیے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب بالعموم والدین کے پاس بھی موجود نہیں۔ تعطیلات گزارنے کے لیے اگر ترجیحات کا تعین کر لیا جائے تو تعطیلات کو بہتر انداز میں گزارا جا سکتا ہے۔ فارغ وقت کے بہترین مصارف میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر: اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے خالق اور مالک ہیں اور انہوں نے بنیادی طور پر انسانوں اور جنات کو اپنی بندگی اور عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ سورہ ذاریات کی آیت نمبر56 میں ارشاد ہوا: ''میں نے جنات اور انسان کو محض اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت کے بہت سے انداز ہیں۔ ان میں سے ایک انتہائی آسان اور فائدہ مند کثرت سے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر کرنا ہے۔ ذکراللہ کے فضائل کے حوالے سے قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہت سی بیش قیمت باتیں ارشاد فرمائیں ہیں۔ سورہ احزاب میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکراللہ کو اندھیروں سے اجالوں کی طرف جانے کا ذریعہ قرار دیا اور سورہ بقرہ میں ذکر کرنے والے کے بارے میں یہ بھی بتلایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ بھی اس کو یاد کرتے ہیں۔ ذکراللہ کے حوالے سے سورہ آل عمران میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ عقل مند لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کو اُٹھتے، بیٹھتے اور اپنے پہلوؤں پر یاد کرتے ہیں۔ گو کہ ہمیں ہر آن اللہ تبارک و تعالیٰ کو یاد کرتے رہنا چاہیے لیکن کم ازکم فارغ اوقات میں کثرت سے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر ضرور کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ الم نشرح کی آیت نمبر7 اور 8 میں ارشاد فرمایا ''پس جب آپ فارغ ہو جائیں تو (عبادت میں) محنت کیجیے، اور پس اپنے رب کی طرف رغبت کیجیے‘‘۔ فراغت کے دوران جب انسان عبادت میں محنت کرتا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کو دل لگا کر یاد کرتا ہے تو انسان جہاں پر اُخروی کامیابیوں سے ہمکنار ہوتا ہے وہاں پر اللہ تبارک و تعالیٰ دنیاوی عروج اور کامیابیوں کے دروازے بھی اس پر کھول دیتے ہیں۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور آپ کی سنتوں کی معرفت: اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ذکر کے ساتھ ساتھ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت و کردار کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ہمہ وقت اس کے لیے کوشاں رہنا چاہیے‘ لیکن کئی مرتبہ کاروباری اور تعلیمی مصروفیات کے دوران ہم کماحقہ آپﷺ کی سنت اور احادیث سے واقفیت حاصل نہیں کر پاتے۔ فراغت کے لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے ہمیں کسی نہ کسی حدیث کی کتاب یا کم ازکم اِس کے کسی اہم باب کا مطالعہ کرکے حضرت رسول اللہﷺ کے سیرت و کردار اور آپ کے فرامین کے بارے میں آگاہی حاصل کرنی چاہیے۔ نبی کریمﷺ کی پوری زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے‘ لیکن ارکانِ اسلام اور روزمرہ کے معاملات کے حوالے سے آپﷺ کے ارشادات، احادیث اور سنتوں کو سمجھنا تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ تعطیلات میں ہمیں آپﷺ کے روزمرہ کے معمولات، نجی زندگی اور ارکانِ اسلام کی ادائیگی کے درست اور مسنون انداز کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم صحیح معنوں میں اس طریقے سے اعمال بجا لا سکیں‘ جن سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو سکے۔
3۔ کتب بینی: کتابیں انسان کی بہترین ساتھی ہیں۔ ماضی میں بڑے لوگ بہت زیادہ وقت کتابوں کے مطالعے میں گزارتے تھے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ انٹرنیٹ کی ترقی کے بعد لوگ کتب بینی سے دور ہو چکے ہیں اور زیادہ تر معلومات نیٹ سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ کتب بینی کی افادیت آج بھی مسلمہ ہے اور جو ثقہ اور قابلِ اعتماد معلومات کتابوں سے حاصل ہوتی ہیں نیٹ ان کا متبادل نہیں بن سکتا۔ دینی، تاریخی اور سائنسی کتب کے مطالعے سے انسان کے علم اور آگہی میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان کو وہ کچھ حاصل ہوتا ہے جو اِن کتابوں سے دور رہ کر حاصل نہیں ہو سکتا۔
4۔ اچھی مجالس کا انتخاب: انسان کو فارغ وقت میں علما اور دانشوروں کی صحبت اور مجالس میں بیٹھنے کی کوشش بھی کرنا چاہیے۔ اچھی صحبت سے انسان کو کئی مرتبہ اتنا فائدہ پہنچتا ہے کہ مطالعے کی کثرت بھی اس کا متبادل نہیں بن سکتی۔ کئی لوگ مختلف علوم میں تخصص رکھتے ہیں اور انہوں نے ان علوم کے متعلق بہت سی اہم کتب کا مطالعہ کیا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تجربے اور مشاہدے کی بدولت بھی ان کے علم میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہوتا ہے۔ ان اہلِ علم کی صحبت میں بیٹھنے کی وجہ سے انسان کو زیادہ مشقت کیے بغیر ہی بہت سا علم حاصل ہو جاتا ہے۔ ماضی میں ہمارے شہر لاہور میں مختلف علمی اور سماجی شخصیات گزری ہیں‘ جن کی مجالس میں بیٹھ کر لوگ اپنے علم اور آگاہی میں اضافہ کیا کرتے تھے۔ لیکن اب اس طرح کی مجالس نایاب ہو چکی ہیں؛ تاہم بعض ایسی شخصیات دستیاب ہیں‘ جو عوام سے رابطے میں رہتی ہیں۔ ایسے لوگوں کی مجالس میں جانا، ان سے استفادہ کرنا یقینا علم میں اضافے کا باعث ہے؛ چنانچہ انسان کو علم میں اضافے کے لیے تعطیلات میں بھی یہ کام انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
5۔ دکھی انسانیت کی خدمت: انسان سرمایے اور وقت کا صحیح استعمال کرکے دکھی انسانیت کے کام بھی آ سکتا ہے۔ ہمارے گردوپیش میں جسمانی اور ذہنی مریض بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ہسپتال، دماغی امراض کے مراکز اور منشیات کی علاج گاہوں میں پڑے انسان ہماری توجہ کے طلب گار ہیں۔ عام طور پر طلبہ کے پاس وسائل کی قلت ہوتی ہے اور وہ قلیل وسائل کے ساتھ ایسے لوگوں کی مالی معاونت نہیں کر سکتے لیکن ان کی بیمار پرسی کرنے اور ان کو دلاسا اور تسلی دینے سے بھی ان کے دکھ درد میں کمی ہو سکتی ہے۔ انسان جب ذہنی امراض کی علاج گاہوں، ہسپتالوں، منشیات کے علاج کے مراکز یا اولڈ ہاؤسز میں جاتا ہے تو اس کو انسانیت کے دکھ درد کا اندازہ ہوتا ہے‘ اور اس کے دل میں نرمی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اور وقت آنے پر وہ اپنے وسائل اور توانائیوں کو دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے صرف کرنے پر بھی آمادہ ہو جاتا ہے ۔
6۔ والدین کی خدمت: والدین کی خدمت کرنا یقینا دنیا اور آخرت کی بھلائیاں سمیٹنے کا ذریعہ ہے۔ کئی مرتبہ پیشہ ورانہ اور تعلیمی مصروفیت کے دوران ہم اپنے والدین کی کماحقہ خدمت نہیں کر پاتے۔ تعطیلات کا بہترین مصرف یہ بھی ہے کہ اپنے والدین کی خدمت کی جائے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ گھریلو کاموں میں ان کا ہاتھ بٹایا جائے۔ اس کے نتیجے میں والدین کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور ان کی دعائیں دنیا اور آخرت کی کامیابیاں سمیٹنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔
7۔ جسمانی نشوونما: تعطیلات کے دوران انسان اپنے جسم اور صحت پر بھی توجہ دے سکتا ہے اور ورزش اور میدانی کھیلوں کے ذریعے اپنے جسم کی نشوونما کو بہتر بنا سکتا ہے۔
اگر انسان تعطیلات کے دوران مندرجہ بالا امور پر غور کرے اور ترجیحات کا تعین کرنے کے بعد ان تمام کاموں کو وقت دینے کی کوشش کرے تو تعطیلات کے بعد اس کی زندگی میں نمایاں تبدیلی آسکتی ہے اور وہ ملک و قوم کی خدمت کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو بہترین انداز میں اپنا فارغ وقت گزارنے کی توفیق دے تاکہ وہ ملک و ملت کا سرمایہ بن سکیں۔ آمین!