ہر انسان اچھی زندگی گزارنے کا متمنی ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ بات عام دیکھنے میں آئی ہے کہ انسان زندگی کے مختلف ادوار میں وقفے وقفے سے مصیبتوں اور مختلف قسم کی پریشانیوں اور بیماریوں کی زد میں رہتا ہے۔ انسان عام طور پر مصیبتوں اور بیماریوںکا تجزیہ اپنے علم ، عقل اور تجربات کی روشنی میں کرتا ہے اور تکالیف اور پریشانیوں کے اسباب کو بالعموم مادی اعتبار ہی سے جانچتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ انسان کی بہت سی مصیبتوں ، پریشانیوں اور بیماریوں کی وجوہ مادی ہوتی ہیں اور انسان کسی نہ کسی پریشانی اور بیماری میں اپنی غفلت اور لاپروائی کی وجہ سے بھی مبتلا ہو جاتا ہے۔ انسانوں کی بیماریوں کی وجوہ میں ماحولیاتی آلودگی، ناقص غذا اور گرد و پیش کا ماحول کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ فضائی آلودگی، ناقص غذا یا بسیار خوری اور گرد و نواح کے مضر، تکلیف دہ اور پریشان کن ماحول کے نتیجے میں انسان مختلف قسم کی جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بیماریوں اور مصیبتوں کی وجوہ صرف طبعی نہیں ہوتیں بلکہ بہت سی غیر طبعی وجوہ کی بنا پر بھی انسان مصائب اور تکالیف کے شکنجے میں آجاتا ہے۔ تکالیف، پریشانیوں اور بیماریوں کی بعض اہم وجوہ جن کی مادی اعتبار سے توجیہ نہیں کی جا سکتی درجہ ذیل ہیں:
1۔ گناہ: انسان کئی مرتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی اور حضرت رسول اللہ ﷺ کے راستے سے انحراف کرکے اپنے لیے مصیبتوں کو دعوت دیتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی
کمائی ہے‘‘۔ اسی طرح سورہ روم کی آیت نمبر41 میں ارشاد ہوا: ''خشکی اور تری میں لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا اس لیے کہ ان کے بعض اعمال کا پھل اللہ انہیں چکھا دے ممکن ہے کہ وہ باز آ جائیں‘‘۔ ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے مختلف طرح کی بیماریوں اور مصائب کی دلدل میں دھنستا چلا جا تا ہے۔ ان بیماریوں اور پریشانیوں سے نکلنے کے لیے مادی تدبیریں کما حقہ کردار ادا نہیں کر پاتیں اور انسان طویل مدت تک ان پریشانیوں اور تکالیف کو سہتا رہتا ہے۔ اگر انسان اپنی مصیبتوں کا صحیح تجزیہ کرے اور اپنے ماضی کے لمحات پر غور و فکر کرکے اپنی زندگی سے ان اعمال کو نکال دے جو اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کا سبب ہوں تو انسان کے مصائب اور تکالیف بہت جلد دور ہو سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ زمرکی آیت نمبر53 میں ارشاد فرمایا: ''اے میرے بندو! جو اپنی جانوں پر زیادتی کر چکے ہو تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہوجاؤ، بے شک اللہ تعالیٰ سب گناہوںکو معاف کر دیتے ہیں، واقعی وہ بڑی بخشش اور بڑی رحمت والے ہیں‘‘۔ اس آیت اور دیگر بہت سی آیات اور احادیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ گناہوں سے توبہ کرنے کی صورت میں انسان کی تکالیف دور ہو جاتی ہیں اور انسان پر امن زندگی کی طرف لوٹ آتا ہے۔
2۔ آزمائش: کئی مرتبہ انسان گناہ گار نہیں ہوتا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی تابعداری کے راستے پر چل رہا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ پریشانی، تکالیف اور بیماریوں کی زد میں آ جاتا ہے۔ یہ بیماریاں اور تکالیف کی اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 155میں ارشاد فرمایا: ''اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہیں ضرور آزمائیں گے کچھ خوف ، بھوک، مالوں،جانوں اور پھلوں کے نقصان سے‘‘۔ آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے انسان کو صبر اور دعا کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ دعا انسان کو عام حالات میں بھی کرنی چاہیے اور خصوصیت سے نماز کے ذریعے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی مدد کو طلب کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری کا ذکر کیا جنہوںنے اپنی بیماری کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور بیماری کی طوالت کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ سے بیماری سے
رہائی کے لیے دعا مانگی ۔ سورہ انبیاء کی آیت نمبر83 اور 84 میں حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: '' ایوب (علیہ السلام) کی اس حالت کو یاد کرو جب کہ اس نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ بے شک مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔ تو ہم نے اس کی سن لی اور جو دکھ انہیں تھا اسے دور کر دیا اور اس کو اہل وعیال عطا فرمائے بلکہ ان کے ساتھ ویسے ہی اور بھی، اپنی خاص مہربانی سے تاکہ سچے بندوں کے لیے نصیحت ہو‘‘۔ حضرت ایوب علیہ السلام کے واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ صبر اور دعا کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کی تکالیف کو دور فرما کر ان کو امن وعافیت والی زندگی عطا فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کی دعا کو قبول فرماتے ہوئے ان کی تکلیف کو دورکر دیا اور ان کو پر امن اور عافیت والی زندگی عطا فرما دی۔
3۔ شیطانی اثرات: کئی مرتبہ انسان کی جسمانی اور نفسیاتی صحت کی خرابی کی مادی وجوہ معلوم نہیں ہو رہی ہوتیں اور طبی لیباٹریوں اور معالجین بھی اس بیماری کا علاج کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں شیطانی اثرات کے امکانات پر بھی غور وغوض کرنا چاہیے۔ شیطانی اثرات کئی مرتبہ انسان کی زندگی کو مفلوج کر دیتے اوراس کو خبطی بنا دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 275 میں سود کھانے والے لوگوں کی مثال بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے شخص کی مانند ہیںکہ جس کو شیطان نے چھو کر خبطی کر دیا ہو۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کے لمس سے انسان خبطی ہو جاتاہے۔ شیطانی اثرات کے نتیجے میں آنی والی پریشانیوں او رذہنی الجھاؤ سے نکلنے کے لیے انسان کو آیۃ الکرسی، معوذتین اور سورہ بقرہ کی تلاوت کرتے رہنا چاہیے۔
4۔ جادو: جادو بھی شیطانی اثرات ہی کی ایک قسم ہے، لیکن اس میں انسان کو قصداً کسی دشمنی اور حسد کی وجہ سے شیطانی عملیات کے شکنجے میں کسنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جادوگروں نے دین دشمنی کی وجہ سے ابنیاء علیہم السلام پر بھی جادو کا وار کرنے کی کوشش کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر جادو کا وار کرنے کی کوشش کی گئی۔ نبی کریمﷺ نے معوذتین کی تلاوت جب ان دھاگوں کی گرہوں پر کی جن پر جادو پڑھ کر پھونکا گیا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جادو کے اثرات کو باطل کر دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں پر بھی اگر جادو کا وار کیا جائے تو ان کو سورہ بقرہ، آیۃ الکرسی اورمعوذتین پڑھ کر تلاوت کرنی چاہیے تاکہ جادو کے اثرات کا تدارک کیا جا سکے۔
5۔نظر بد: کئی مرتبہ انسان صحت اور عافیت والی مثالی زندگی گزار رہا ہوتا ہے لیکن کسی حاسد کی نظر بد کی وجہ سے آناً فاناً کسی مصیبت یا بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ شیطانی اثرات اور جادو کی طرح نظر بد بھی ایک حقیقت ہے اور اس کا تدارک کرنے کے لیے بھی انسان کو قرآن وسنت میں موجود اذکار کا ورد کرنا چاہیے۔ نظر بد کا مقابلہ کرنے کے لیے معوذتین کے ساتھ ساتھ ''اعوذ بکلمات اللہ من شر ما خلق‘‘ کا بھی بکثرت ورد کرنا چاہیے۔ جو شخص معوذات کا کثرت سے ورد کرتا ہے اللہ کے فضل سے نظر بد کے اثرات سے بچ جاتا ہے۔
غیر مرئی اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے انسان کو بکثرت ذکر اللہ کے ساتھ ساتھ صدقہ وخیرات بھی کرتے رہنا چاہیے۔ صدقہ وخیرات کی برکات سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسان تکالیف کو دور کر دیتے ہیں۔ انسان کو مصیبتوں اور بیماریوں کو رفع کرنے کے لیے علاج معالجے ہ اور مادی تدابیر کے ساتھ ان مصیبتوں کی غیر مادی وجوہ پر غوروغوض کرنا اور ان کے تدارک کے لیے درست تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے معاشرے میں موجود تمام بیماروں کو شفاء اور تمام مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبتوں کو رفع فرمائے۔ آمین