دنیا میں اس شخص کو کامیاب قرار دیا جا تاہے جو اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرتا ہے۔دیکھنے میں آیا ہے کہ معاشروں میں عام طور پر حقوق کے حوالے سے آواز اُٹھائی جاتی ہے لیکن بہت کم لوگ اپنے فرائض کا احساس کرتے ہیں۔ اگر کسی بھی معاشرے میں بسنے والے تمام لوگ اپنی ذمہ داریوں اورفرائض کو احسن طریقے سے انجام دینا شروع کر دیں تو انہیں خودبخود ان کے حقوق حاصل ہوسکتے ہیں۔ایک اسلامی فلاحی ریاست کی بنیادی ذمہ داریاں کیا ہوسکتی ہیںاور اس کے صلے میں اس کو کس قسم کے حقوق ملنے چاہئیں؟ اس اہم بحث کے حوالے سے میں اپنی چندگزارشات کو قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اس سلسلے میں میں پہلے ریاست کی ذمہ داریوں اور اس کے بعد شہریوں کی ذمہ داریوں کو قارئین کے گوش گزار کروں گاایک اسلامی فلاحی ریاست کی ذمہ داریاں درج ذیل ہیں:
1۔ نظام صلوٰۃ کا قیام: اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں سے پہلی اہم ذمہ داری لوگوں کے لیے نماز کی سہولت اور جگہ کو فراہم کرنا ہے۔ ہمارے ملک میںبڑے پیمانے پر مسجدیں موجود ہیں ۔ گو کہ اس حوالے سے ریاست نے اپنا کردار کما حقہ ادا نہیں کیا لیکن یہ ذمہ داری عوام نے اپنے طور پر ادا کر دی ہے اور پاکستان میں نماز کو قائم کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔
2۔ نظام زکوٰۃ اور بیت المال کا قیام: ریاست کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک بڑی ذمہ داری نظام ِ زکوٰۃ کو قائم کرنا اور اس حوالے سے ایک منظم بیت المال بنانا ہے۔ بیت المال میں ملک بھر سے صدقات، عشر اور زکوٰۃ کو جمع کیا جاتا ہے اور اسی مال کو بعدازاں عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ زکوٰۃ کو جمع کرنا اور عوام تک اس کی ترسیل کو یقینی بنانا ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن اس حوالے سے ہمارے معاشرے میں زکوٰۃ کی جمع اور اس کی ترسیل کا کوئی منظم نظام موجود نہیںہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک منظم بیت المال کے قیام کے لیے کوشش کرنی چاہیے تاکہ جہاں زکوٰۃ کا فریضہ احسن طریقے سے ادا ہو سکے وہیں پر عوام کی فلاح وبہبود کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔
3۔ بنیادی سہولیات کی فراہمی : ایک اسلامی فلاحی ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہوا کرتی ہے کہ وہ لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرے۔ بنیادی سہولیات میں چارطرح کی سہولیات شامل ہیں۔ 1۔ خوراک2۔رہائش 3۔علاج معالجہ4۔ تعلیم
جو ریاست ان بنیادی سہولیات کو عوام کو فراہم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اس کو یقینی طور پر ایک مثالی ریاست قرار دیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں ٹیکس کے جمع کرنے کا مقصد عوام کو یہ بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہے۔ بہت سے مغربی ممالک اپنے شہریوں کو یہ تمام سہولیات ان کے گھروں میں فراہم کر رہے ہیں اور کئی ممالک میں لوگوں کو بوقت ضرورت اوسط درجے کی رہائش بھی فراہم کی جاتی ہے۔ پاکستان میں ان بنیادی سہولیات سے محروم یعنی سطح غربت سے نیچے رہنے والے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ یہ لوگ ساری زندگی دو وقت کی روٹی ، سادہ لباس، اوسط درجے کی رہائش اور علاج معالجے کی سہولیات کے حصول کے لیے ہی کوشاں رہتے ہیں۔
سرزمین پاکستان میں سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کا مناسب انتظام موجود ہے اور سرکاری سکولوں میں اوسط درجے کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ لیکن ہسپتال، طبی مراکز اور تعلیمی اداروں کی تعداد حوصلہ افزا نہیں ہے ۔ بہت سے علاقوں میں لوگ علاج ومعالجے کی سہولت اور تعلیم سے مطلقاً محروم ہیں۔ پاکستان میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے دستخط کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد نظریاتی اعتبار سے بالکل بنجر ہوتی ہے اور وہ اپنے قائد یا رہنما کے درست چناؤ کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اسی وجہ سے وہ اپنے ووٹ کو بھی صحیح طریقے سے استعمال کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔جہاں تک تعلق ہے خوراک اور رہائش کے انتظام کا تو اس اعتبار سے پاکستان کا ریکارڈ حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کو سعودی عرب اور برطانیہ کے ماڈل پر غور کرنا چاہیے اور بے گھر اور مفلوک الحال لوگوں کے لیے اوسط درجے کی رہائش اور خوراک کا انتظام کرنا چاہیے۔
4۔تحفظ: ایک ریاست کی ذمہ داری جہاں پر بنیادی سہولیات کو فراہم کرنا ہوتا ہے وہیں پر ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے ۔شہریوں کی جان، مال اور عزت کا تحفظ کرنا یہ ریاست کی اہم ذمہ داری ہے۔ جو ریاست اپنے شہریوں کے جان، مال اور عزت کا تحفظ نہیں کرسکتی اسے مثالی ریاست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی بڑی تعداد کو پاکستان میں رہتے ہوئے اپنی جان، مال اور عزت کے بارے میں فکر لاحق رہتی ہے۔ پاکستان میںبسنے والے بااثر، جاگیر دار، سرمایہ دار اور بعض نا عاقبت اندیش افسران اپنے اختیارات اور اثرورسوخ کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے غریب اور مفلوک الحال لوگوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں بالعموم لوگ تھانے سے خوفزدہ رہتے ہیںاور تھانے کو عدل کی بجائے ظلم کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ایک امیر شخص جس کے پاس مال ہے اس کے مال اور جان کے تحفظ کو یقینی بنانا اور ایک غریب شخص جو مال سے محروم ہے کم ازکم اس کی عزت اور جان کے تحفظ کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
اگر ملک میںہونے والے سٹریٹ کرائم اور دیگر جرائم کے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو یہ بات یقینا لمحہ ٔ فکریہ کی حیثیت رکھتی ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ آئے دن چوری، ڈکیتی اورآبروریزی کی وارداتوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ ایک ریاست کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔ جو ریاست اپنی مذہبی ،اخلاقی اور آئینی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرتی رہتی ہے اس کے بعد اس کو بجا طور حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں سے بھی حقوق کا مطالبہ کرے۔ ریاست کے بنیادی حقوق جو اس کے ہر شہری کو ادا کرنے چاہئیں مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ قانون کااحترام: ریاست میںبسنے والے ہر شہری کو ریاست کے قوانین کا احترام کرنا چاہیے اور ان کو کسی بھی طور پر پامال نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بات عام طور پر دیکھنے میں آئی ہے کہ لوگ ٹریفک سگنلز اور سڑکوں پر چلتے ہوئے اشاروں کا احترام کرنے پر بھی آمادہ وتیار نہیں ہوتے اور چھوٹے چھوٹے قوانین کی پامالی کو انہوں نے اپنا چلن بنایا ہوتا ہے ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ جس شخص کے پاس تھوڑا ساسرمایہ، اثرورسوخ یا تعلیم آ جاتی ہے وہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ اس رویے کی وجہ سے ریاست کے اثر ونفوذ میں کمی واقع ہوتی ہے۔ پاکستان میں بسنے والے شہریوں کو مثالی شہری کا ثبوت دیتے ہوئے قانون کا احترام کرنا چاہیے۔
2۔ وفاداری: ریاست میں بسنے والے ہر شہری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی دھرتی کے ساتھ محبت اور دھرتی کے دشمنوں کے ساتھ نفرت کرے۔ کئی لوگ ذاتی مفادات کے لیے ریاست سے بے وفائی کے مرتکب ہوناشروع ہو جاتے ہیں ۔ ایسے لوگ ہر اعتبار سے قابل مذمت ہیں اور انہیں کسی بھی طور پر ایک اچھا شہری قرار نہیں دیا جا سکتا۔
3۔ ریاست کی ترقی اور استحکام کے لیے کوشش کرنا : ریاست میں بسنے والے شہریوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست کی ترقی کے لیے کوشاں رہیں اور اس کی معیشت کے استحکام کے لیے ہر شخص کو اپنا فرض اور ذمہ داری ادا کرنا چاہیے اور ایسی پالیسی کو اختیار کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں ریاست کی ترقی اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔
4۔دفاع: ریاست میں بسنے والے ہر شہری کو ملک کے دفاع کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگرچہ ملک کے دفاع کی بنیادی ذمہ داری عسکری اداروں پر عائد کی جاتی ہے لیکن یہ ذمہ داری صرف عسکری اداروں کی نہیں بلکہ ملک میں بسنے والے ہر شہری کو اپنی ریاست کے دفاع کے ہمہ وقت کوشاں رہناچاہیے اور اس کی سلامتی کو لاحق ہونے والے خطرات سے نبردآزما ہونے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر ریاست اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے اور ریاست میں بسنے والے شہری بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں تو یقینا پاکستان مثالی ریاست کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ریاست اور شہریوں کو مل جل کر پاکستان کی خدمت کرنے اور اس کی ترقی کے لیے کوشاں رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین