اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو صفت کلام سے متصف کیا اور اس کو زبان کی نعمت عطا فرمائی۔ بہت سے لوگوں نے اس نعمت کو پانے کے بعد اس کا درست استعمال کرکے اس کا حق ادا کر دیا، لیکن انسانوں کی ایک کثیر تعداد نے اس کا منفی استعمال کرکے اس نعمت کو اپنے لیے بہت بڑی زحمت بنا لیا۔ زبان انسان کی دنیا وآخرت کی بھلائیوں کو سمیٹنے کا ذریعہ بھی ہے اور اسی زبان کے ذریعے انسان اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ و برباد بھی کر بیٹھتا ہے۔ زبان کے درست استعمال کے ذریعے جہاںانسان کو احترام، عزت، بزرگی اور وقار حاصل ہوتا ہے، اسی کے منفی استعمال سے انسان کو ذلت، رسوائی، پریشانی اور ہزیمت سہنا پڑتی ہے۔ انسانوں کو زبان کے مثبت اور منفی استعمال سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے‘ اس کا درست استعمال کرنا چاہیے اور اس کے منفی استعمال سے بچنا چاہیے تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ کلام اور گفتگو کی صلاحیت کے ذریعے دنیاوی اور اخروی فوائدکو سمیٹا جا سکے۔
جب ہم زبان کے منفی استعمال پر غور کرتے ہیں تو بہت سے نکات سامنے آتے ہیں، جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ بداعتقادی: دنیا میں انسان کی ناعاقبت اندیشی اور غلط افعال میں سے سب سے بڑا ظلم اور غلطی شرک کا ارتکاب ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ غیروں کو شریک بنانا سب سے بڑا گناہ ہے اور ایسے الفاظ اپنی زبان سے ادا کرنا جن میں کسی کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے برابر بنایا جائے،کسی اعتبار سے قابل قبول نہیں۔ شرکیہ الفاظ کے ساتھ ساتھ ایسے الفاظ بھی زبان سے نہیں نکالنے چاہیئں جن میںاللہ تبارک وتعالیٰ کی گستاخی اور بے ادبی کا احتمال ہو۔ بد اعتقادی سے اجتناب میں یہ بات بھی شامل ہے کہ زبان کا درست اور صحیح استعمال کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کے انبیاء اور رُسُل اللہ کا ادب کیا جائے اور ان ہستیوں کے بارے میں بھی نامناسب اور بے ادبی پر مشتمل باتوں سے بچا جائے۔
2۔ ناشکری: زبان کے ضمن میں اس کا ایک بڑا منفی استعمال نا شکری کرنا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بے پناہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ پکڑنے والا ہاتھ، چلنے والا قدم، سوچنے والا دماغ، دھڑکتا ہوا دل، دیکھنے والی آنکھ، سننے والے کان، محبت پیار جیسے بے پایاں جذبات و احساسات اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں ہیں۔ ان عظیم نعمتوں کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناشکری کرنا یقیناً ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ابراہیم کی آیت نمبر7 میں اعلان فرمایا: ''اگر تم شکرکرو گے تو بے شک میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم نے ناشکری کی تو یقیناً میرا عذاب شدید ہے‘‘۔
3۔ غیبت: زبان کے استعمال میں ایک بڑا منفی استعمال کسی مسلمان بھائی کی غیبت کرنا ہے۔ سورہ حجرات کی آیت نمبر 12کے مطابق اپنے بھائی کی غیبت کرنا اس طرح ہے جس طرح کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ لیکن انسانوں کی بڑی تعداد اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کی غیبت میں مصروف رہتی ہے اور اس کے ہلاکت خیز نتائج پر بالکل بھی غور نہیںکرتی۔
4۔ بہتان طرازی: جس طرح غیبت ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے وہیں پر اس سے کہیں بڑھ کر کسی پر جھوٹا بہتان لگانا قابل مذمت عمل ہے۔ بہتان ترازی کرتے ہوئے کسی کی کردار کشی کرنا اور اس پر بدکرداری کا الزام لگانا اس قدر بڑا گناہ ہے کہ اسلام میں اس گناہ کی سزا قذف (یعنی 80کوڑے )مقر ر کی گئی ہے۔
5۔ گالی: زبان کے منفی استعمال میں کسی دوسرے کو گالی دینا بھی شامل ہے۔ حدیث پاک کے مطابق مسلمان کو گالی دینا فسق ہے۔ انسان کو دوسرے انسانوں کو گالی دینے سے ہر صورت احترازکرنا چاہیے۔
6۔استہزاء اور غلط القاب: گالی کی قبیل میں سے ایک اور غلط کام کسی دوسرے کا استہزاء کرنا یا اس کو غلط القاب دینا ہے۔ انسان کو دوسرے انسانوں کا ادب واحترام کرنا چاہیے اور ان کی توہین اور استہزاء سے گریز کرنا چاہیے۔ سورہ حجرات کی آیت نمبر 8 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمان مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کا استہزاء کرنے اور غلط القاب سے پکارنے سے منع کیا ہے اور یہ بات بتلائی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ جن کا تم استہزاء کر رہے ہو وہ تم سے بہتر ہوں۔
7۔ بلا تحقیق بات کرنا: انسانوں کی ایک بڑی تعداد کی ہر دور میں یہ کمزوری رہی ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان کے بارے میں سنی سنائی بات کو آگے بڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حجرات کی آیت نمبر 6 میں ارشاد فرمایا: ''اے مسلمانوں! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ تم نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اُٹھاؤ‘‘۔ ہمارے معاشرے میں انتشار اور فساد کی بہت بڑی وجہ افواہ سازی بھی ہے۔ ہمیں اس طرح کے افعال سے ہر صورت احتراز کرنا چاہیے۔
8۔ فحاشی اور عریانی کا پھیلاؤ: زبان کے منفی استعمال میں فحاشی اورعریانی کا پھیلاؤ بھی شامل ہے۔ فحش گوئی اور فحاشی کی نشرواشاعت کسی بھی مسلمان کے شان شان نہیں۔ سورہ نور کی آیت نمبر 19 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مندرہتے ہیں ان کے لیے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے‘‘۔
زبان کے منفی استعمال کے ساتھ ساتھ اس کے مثبت استعمال بھی بہت ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ذکر الٰہی: زبان سے انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کا کثرت سے ذکر کر کے اللہ تبارک وتعالیٰ کو راضی کر سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 152میں ارشاد فرماتے ہیں ''تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا‘‘۔
2۔نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنا: زبان سے ذکر الٰہی کے ساتھ ساتھ انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیب علیہ السلام پر بھی درود بھیج سکتا ہے۔ جو شخص ایک مرتبہ آپ ﷺکی ذات پر درود بھیجتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ دس مرتبہ اس پر درود بھیجتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کثرت سے درودبھیجنے والوں کے دکھ درد دور کر دیتے اور ان کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔
3۔دعوت وتبلیغ: زبان سے انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت بھی دے سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حم سجدہ کی آیت نمبر 33 میں ارشاد فرمایا: ''اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں‘‘۔
4۔ اچھی نصیحت اور مثبت بات: کسی کو اچھی بات کہنا اور ایک دوسرے سے مثبت انداز میں گفتگو کرنے کی بھی اسلام نے بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی ہے۔ جو شخص اپنی زبان کا مثبت استعمال کرتے ہوئے معروف طریقے سے بات کرتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے شخص کی تعریف کرتے ہوئے سورہ بقرہ کی آیت نمبر263 میں ارشاد فرمایا: ''نرم بات کہنا اور معاف کر دینا اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد ایذا رسانی ہو۔
5۔ صحیح مشورہ: زبان کے مثبت استعمال میں کسی دوسرے کو صحیح مشورہ دینا بھی شامل ہے۔ بعض لوگ مشورہ دیتے ہوئے بخل سے کام لیتے ہیں۔ یہ بات کسی بھی اعتبار سے مناسب نہیں۔ مشورہ امانت ہوتا ہے اور جب کوئی شخص مشورہ طلب کرے تو اس کو پورے خلوص اورسنجیدگی کے ساتھ مشورہ دینا چاہیے اور اس کے لیے اسی بات کو پسند کرنا چاہیے جو انسان اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے۔
6۔ لوگوںکے دلوں کو آپس میں جوڑنا: لوگوں کے دلوںکو آپس میں جوڑنا اور ان کے درمیان سے حسد اور کینے کو دورکرنا بھی انتہائی مثبت عمل ہے۔ بہت سے لوگ اپنی زبان کے ذریعے اجڑے ہوئے گھروںکو آباد کردیتے ہیں، ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ لیتے اور بچھڑے ہوئے دوستوں کو ملا لیتے ہیں۔ یہ لوگ ہر اعتبار سے قابل تحسین ہیں اور زبان کی نعمت کا حق ادا کر نے والے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ تکاثرکی آخری آیت میں اس بات کا ذکر کیا: ''پھر اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو کلام سے متصف کیا اور اس عظیم نعمت کے حوالے سے قیامت کے دن ہماری پوچھ ہوگی۔ دنیا میں زبان جہاں پر انسان کی عزت، عظمت اور وقار کا باعث بن جاتی ہے وہیں پر اس زبان کے درست استعمال سے جنت کے دروازے بھی کھل سکتے ہیں۔ اس دنیا میں زبان کے غلط استعمال سے جہاں پر انسان کی شخصیت اور عزت مجروح ہوتی ہے وہیں پر اس کے منفی استعمال سے قیامت کے دن انسان کو ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں زبان کا درست اور صحیح استعمال کرنے کی توفیق دے۔ آمین ۔