"AIZ" (space) message & send to 7575

گمراہی کا ایک بڑا سبب

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے۔ دیکھنے والی آنکھ، بولنے والی زبان، پکڑنے والا ہاتھ، چلنے والا قدم، سوچنے والا دماغ، دھڑکتا دل۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظیم نعمتیں ہیں۔ اپنا گھر اور اس میں بسنے والے مکین انسانوں کی دلچسپیوں اور دل کی راحت کا بہت بڑا سبب ہیں۔ خدمت گزار اور ساتھ دینے والی رفیقہ ٔزندگی، پیار اور محبت کرنے والے بیٹے اور بیٹیاں اللہ تعالیٰ کی بے پایاں نعمتیں ہیں۔ بہن ، بھائی اور والدین اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والے عظیم رشتے ہیں۔ لیکن غور وفکر کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان تمام نعمتوں کے مقابلے پر سب سے بڑی نعمت نعمت ِ ہدایت ہے۔ اگر انسان نعمت ہدایت پا لے تو یہ تمام نعمتیں معنی خیز اور بامقصد ہیں اور اگر انسان اس نعمت سے محروم ہو جائے تو یہ تمام نعمتیں بلا مقصد اور بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس سب سے بڑی نعمت کو پانے کے لیے انسانوں کی کثیر تعداد اس انداز میں جد وجہد نہیں کرتی جس طرح اسے کرنی چاہیے۔ انسانوں کی بہت بڑی تعداد کی ترجیحات میں سیدھے راستے کو پانا سرے سے شامل ہی نہیں ہے۔ تاہم سمجھ دار انسانوں کی ایک مختصر تعداد ہر دور میں ایسی رہی ہے جو راہ ہدایت اور صراط مستقیم کوپانے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ یہ لوگ انسانوں میں سے سب سے اعلیٰ اور ممتاز ہیں اس لیے کہ یہ اپنے مقصد زندگی کو پاجاتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے قیمتی اصولوں پر کسی بھی طور پر سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہوتے ہیں۔ ان کی نگاہ دنیا کی عارضی مادی زندگی کی بجائے آخرت کی بہتر اور باقی رہنے والی زندگانی پر ہوتی ہے۔ ہدایت کی قدروقیمت کو پہچان لینے والے یہ لوگ صرف خود ہی صراط مستقیم یا سیدھے راستے پر نہیں چلتے بلکہ اپنے اعزاو اقارب اور اپنے گردوپیش میں رہنے والے لوگوں کو بھی ہدایت کے راستے پر آنے کی دعوت دینے کی اپنی بساط کے مطابق کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ 
بعض لوگ اس نعمت کی قدر کو پہچاننے کے بعد اس حد تک بے تاب ہوجاتے ہیں کہ اپنے وقت کا بیشتر حصہ سیدھے راستے پر چلنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اس راستے کی طرف بلانے میں صرف کر دیتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ خیر اور سیدھے راستے کی دعوت دینے والے لوگوں کی بات پر انسانوں کی کثیر تعداد کان دھرنے اور غوروخوض کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہوتی۔ عام مصلحین کا تو کیا کہنا لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مختلف ادوار میں بڑے جلیل القدر آئمہ کی بات کو بھی مسترد کر دیا بلکہ تاریخ ابنیاء سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ابنیاء علیہم السلام کی صراط مستقیم کی طرف دی جانے والی دعوت کو بھی لوگوں کی کثیرتعداد نے قبول نہیں کیا اور سیدھے راستے کی طرف بلانے والے ان نفوس قدسیہ کوکئی مرتبہ مشکلات اور تکالیف کو جھیلنا پڑا ۔ اعدائے دین نے ابنیاء علیہم السلام کی مخالفت میں کسی بھی قسم کی کسر نہ چھوڑی۔ جب ہم اس بات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ گمراہی کے کیا اسباب ہیں تو اس کی متعدد وجوہات نظر آتی ہیں۔ جن میں انانیت، مفاد پرستی، اپنے سرداروں اور وڈیروں کی بات کو ماننا، اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرنا اور اللہ تبارک وتعالیٰ اور یوم حساب کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہونا شامل ہیں۔ ان تمام وجوہات کے ساتھ ساتھ گمراہی کا ایک بڑاسبب مادی عروج اور چمک دمک سے متاثر ہو جانا بھی ہے۔ انسانوں کی کثیر تعداد اس حقیقت کو پانے سے قاصر رہی ہے کہ مادی عروج اور ظاہری چمک دمک اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید کی علامت نہیں ہوتی بلکہ اس زمین پر رہتے ہوئے کئی مرتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل ایمان کی آزمائش کے لیے ظالموں ، جابروں اور اپنے دین کی مخالفت کرنے والے لوگوں کو بھی مادی عروج دیا۔ اس مادی عروج کے ذریعے جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے مقتدر لوگوں کی آزمائش کی کہ وہ شکر گزاری کے راستے کو اختیار کرتے ہیں یا غرور اور تکبر کے راستے کو۔ وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل ایمان کی بھی آزمائش کی کہ وہ اس مادی عروج سے متاثر ہوتے ہیں یا سیدھے راستے پر چلنے کے لیے آمادہ وتیار رہتے ہیں۔ 
مادی عروج اور چمک دمک سے متاثر ہونے والے لوگ ہر دور میں بڑی تعداد میں رہے ہیں یا تو یہ لوگ مادی عروج اور چمک دمک سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ اس کوپا لینا ہی ان کا مقصد حیات بن گیا ۔ یا یہ لوگ مادی عروج سے اس حدتک مرعوب ہوئے کہ حق پرستی کے راستے سے منحرف ہو گئے۔ مادی عروج کو پانے والے بہت سے گمراہ لوگوں کے انجام کا ذکر کلام حمید میں بڑی شر ح وبسط سے موجود ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن میں فرعون کے ظاہری اور مادی عروج کا ذکر کیا اسی طرح ہامان ،قارون اور ابولہب کے بارے میں بھی قرآن مجید نے واضح طور پربیان کیا کہ یہ تمام کے تمام لوگ مادی عروج کو پا لینے کے بعد بھی جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ قرآن مجید نے مادی عروج سے مرعوب ہونے والے لوگوں کے واقعات میں سے قارون کے واقعہ کو بطور مثال نقل کیااور اس کے بعد اس کے انجام کے بارے میں وضاحت کر کے لوگوں کی کوتاہ بینی کی اصلاح کی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ قصص کی آیت نمبر 76 سے 82 میںقارون کے واقعہ کو بیان فرماتے ہیں کہ ''قارون موسٰی کی قوم میں سے تھا پھر وہ ان پر زیادتی کرنے لگا۔ اور ہم نے اُسے اتنے خزانے دیئے تھے کہ انکی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو اٹھانا مشکل ہوتیں جب اس سے اس کی قوم نے کہا کہ اترایئے مت کہ اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔اور جو مال تم کو اللہ نے عطا فرمایا ہے اس سے آخرت کی بھلائی طلب کیجئے اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلایئے اور جیسی اللہ نے تم سے بھلائی کی ہے ویسی تم بھی لوگوں سے بھلائی کرو۔ اور ملک میں طالب فساد نہ ہو۔ کیونکہ اللہ فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔وہ بولا کہ یہ مال مجھے میرے ہنر کے سبب ملا ہے کیا اس کو معلوم نہیں تھا کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی امتیں جو اس سے قوت میں بڑھ کر اور جمعیت میں بیشتر تھیں ہلاک کر ڈالی تھیں۔ اور گنہگاروں سے ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھا نہیں جائے گا۔تو ایک روز قارون بڑی آرائش اور ٹھاٹھ سے اپنی قوم کے سامنے نکلا۔ جو لوگ دنیا کی زندگی کے طالب تھے کہنے لگے کہ جیسا مال و متاع قارون کو ملا ہے کاش ایسا ہی ہمیں بھی ملے۔ وہ تو بڑے نصیب والا ہے۔اور جن لوگوں کو علم دیا گیا تھا وہ کہنے لگے کہ تم پر افسوس! مومنوں اور نیکوکاروں کے لئے جو ثواب اللہ کے ہاں تیار ہے وہ کہیں بہتر ہے اور وہ صرف صبر کرنے والوں ہی کو ملے گا۔ پس ہم نے قارون کو اور اس کی حویلی کو زمین میں دھنسا دیا۔ تو اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہو سکی۔ اور نہ وہ بدلہ لے سکا۔اور وہ لوگ جو کل اس کے رتبے کی تمنا کرتے تھے صبح کو کہنے لگے ہائے شامت! اللہ ہی تو اپنے بندوں میں سے جسکے لئے چاہتا ہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ اگر اللہ ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا۔ ہائے خرابی! کافر کامیاب نہیں ہوتے۔ ‘‘
قارون کے اس بصیرت افروز واقعہ کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ لہب میں مادی عروج رکھنے والے ابولہب کی حقیقت کو بھی واضح کر دیا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:''ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ خود ہلاک ہو گیا۔نہ تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا اور نہ وہ جو اس نے کمایا۔وہ ضرور بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا۔اور اس کی بیوی بھی جو ایندھن سر پر اٹھائے پھرتی ہے۔اس کے گلے میں مونج کی رسّی ہو گی۔ ‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں فرعون کے انجام کا بھی ذکر کیا کہ کس طرح وہ آخری وقت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب کو دیکھ کراس کے سامنے جھکنے پر آمادہ وتیار ہو گیا لیکن اپنی بدنیتی اور بے عملی کی وجہ سے رحمت اور معافی کا مستحق نہ بن سکا۔ گومادی عروج کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کے لیے یہ واقعات کافی ہیں۔ لیکن انسانوں کی اکثریت وقتی طور پر اس مادی عروج سے اس حد تک مرعوب ہو جاتی ہے کہ مادی عروج کی حقیقت کو پانے سے قاصر ہوجاتی ہے اور سیدھے راستے کی بجائے غلط طریقے سے اس عروج کو حاصل کرنے کے لیے اپنی توانائیوں کو صرف کر نا شروع کر دیتی ہے۔ کاش کہ انسانوں کو یہ بات سمجھ آ جائے کہ اصل کامیابی مادی عروج میں نہیں بلکہ سیدھے راستے پر چلنے میں ہے۔ چاہے اس کے نتیجے میں مادی عروج حاصل ہو یا نہ ہو۔ سیدھے راستے پر چلتے ہوئے گو کہ سیدہ آسیہ، سیدہ سمیہ، سیدہ زنیرہ ،بلال حبشی آئمہ دین اور ان کے قبیل کے لوگوں کو تکلیفوں کو سہنا اور مشکلات کو جھیلنا پڑا لیکن آخرت کی کامیابی اور دنیا کی نیک نامی ان کا مقدر بن گئی۔ اگر کامیابی کی حقیقت انسانوں کی سمجھ میں آجائے تو کوئی شخص بھی سیدھے راستے کو مادی عروج کے بدلے چھوڑنے پر آمادہ وتیار نہ ہو ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو بصیرت عطا فرمائے۔ آمین 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں