رابطہ عالم اسلامی ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ہے جو 1962ء میں سعودی عرب میں قائم کی گئی۔ اس تنظیم نے نہ صرف سعودی عرب میں دین سے وابسطہ لوگوں کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے، بلکہ عالم اسلام میں بسنے والے سینکڑوں نمایاں افراد کی شخصیت سازی میں بھی موثر کردار ادا کیا۔ اس تنظیم کا ہیڈ کوارٹر اُم القریٰ یعنی مکہ مکرمہ میں ہے۔ ابتدائی طور پر اس کی فنڈنگ سعودی حکومت نے ہی کی، بعد ازاں اس کی فنڈز بڑھتے بڑھتے 1980ء تک 13ملین ڈالر تک جا پہنچے۔
اس تنظیم کی نشر و اشاعت میں سعودی عرب کے ممتاز ماہر تعلیم عبداللہ عبدالمحسن الترکی نے جو جامعۃ الامام کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں، نمایاںکردار ادا کیا۔ بنیادی طور پر اس تنظیم کا مقصد دنیا بھر میں مساجد کی ترویج اور تحفظ کے لیے کردار ادا کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تنظیم دکھی مسلمانوں کی مالی معاونت، بالخصوص قدرتی آفات کے دوران ان کی بحالی کے لیے موثر کردار ادا کرتی ہے۔ اس تنظیم نے دنیا بھر میں قرآن مجید کی نشر و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ دہشت گردی، انتشار اور فساد کے خاتمے کے لیے بھی نمایاں کردار ادا کرتی رہتی ہے۔ اس نے فکری اور مذہبی اعتبار سے مختلف نظریات رکھنے والے لوگوں کے درمیان مذاکرات کی اہمیت کو خصوصی طور پر اجاگر کیا ہے۔ اس تنظیم کا مقصد شریعت کی تفہیم کو عام کرنا ہے، لیکن اس مقصد کے لئے یہ تنظیم دباؤ اور سازش کے طرز عمل کو اختیار نہ کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ یہ تنظیم اسلامی شعائر اور مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے بھی ہمہ وقت کوشاں رہتی ہے۔ اس تنظیم نے موسم حج میں بین الاقوامی سطح کے علماء اور دانشوروں کے اکٹھ میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور تنظیم کے پلیٹ فارم سے ہر سال حج کے موسم میں دنیا بھر سے نمایاں مذہبی شخصیات کو جمع کرکے ان کو مذاکرات کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ تنظیم، اسلامی موضوعات پر چھوٹے چھوٹے کتابچے اور ہینڈ بلز کی نشر و اشاعت بھی کرتی رہتی ہے۔ یہ تنظیم ''مساجد کے پیغام‘‘ کے عنوان سے ایک جریدہ وقفے وقفے سے شائع کرتی رہتی ہے۔ اس تنظیم نے جنرل اسلامک کانفرنس کے عنوان سے مختلف سالوں میں بہت سی بین الاقوامی کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔ 1962ئ، 1965، 1987ء اور 2002ء میں اہم عصری موضوعات پر نمایاں کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا۔ 1974ء میں رابطہ عالم اسلامی نے ختم نبوت کا انکار کرنے والے گروہوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے کر ان کی مقدس مقامات میں داخلے پر پابندی لگانے جیسے انقلابی کام بھی سر انجام دیا۔ 2015ء میں شیخ عبداللہ عبدالمحسن الترکی نے دنیا بھر میں قیام امن کے لیے دہشت گردی کو خلاف دین قرار دیتے ہوئے دہشت گردوں کی تعلیمات اور کارروائیوں کو قرآن وسنت کے خلاف قرار دیا۔ اس تنظیم کے نمایاں سربراہ کی حیثیت سے عبداللہ الترکی پاکستان بھی تشریف لا چکے ہیں۔20 جنوری کو اس تنظیم کے جنرل سیکرٹری محمد بن عبدالکریم العیسٰی پاکستان تشریف لائے تو اس موقع پر ان کے اعزاز میں سعودی سفارتخانے نے ایک پر وقار تقریب کا انعقاد کیا۔ اس تقریب میں پاکستان کی تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کے نمایاں قائدین شریک ہوئے۔ مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان کے قائدین کی اس تقریب میں شمولیت کے ساتھ تقریب میں عربی رنگ کے ساتھ ساتھ قومی رنگ بھی پیدا ہو گیا۔ اس تقریب میں شرکائے مجلس کے لیے مقامی ہوٹل میں پر وقار ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری نے مہمانوں سے گاہے بگاہے ان کی نشستوں پر جا کر ملاقات کی۔ جب آپ میری نشست پر تشریف لائے تو آپ نے والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر ؒکے حوالے سے اپنی محبت اور جذبات کا بڑی گرمجوشی سے اظہار کیا۔ تقریب پاکستان اور سعودی عرب کے خوشگوار تعلقات کو مزید بڑھانے کے لیے ممدو معاون ثابت ہوئی۔ اس تقریب کے دوران میرے ذہن کی سکرین پر پاک سعودی تعلقات اور سعودی عرب کی طرف سے کیے جانے والے ماضی کے بہت سے سفر بھی چلنا شروع ہو گئے۔
عالم عرب میں سعودی عرب غیر معمولی اہمیت اور حیثیت کا حامل ہے۔ حرمین شریفین کی نسبت سے امت مسلمہ کی اس خطے کے ساتھ غیر معمولی روحانی اور نظریاتی وابستگی ہے۔ سعودی عرب نے ہر مسلمان ملک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہترین سطح پر استوار رکھا، بالخصوص پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات ہر دور میں غیر معمولی رہے ہیں۔ شاہ فیصل مرحوم پاکستان اور اہل پاکستان سے بہت محبت کرتے تھے۔ ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کے بھائیوں نے بھی ان کی روایات کو برقرار رکھا۔ پاکستان کی تاریخ میں جتنے بھی اقتصادی یا سیاسی بحران آئے، ان کے حل کے لئے سعودی حکومت اور پاکستان میں موجود سعودی سفیروں نے نمایاں کردار اد ا کیا۔ شمالی علاقہ جات بالاکوٹ اور گلیات کے علاقوں میں آنے والے ہولناک زلزلے کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی بے گھر ہو گئے تھے۔ ان کی بحالی کے لئے سعودی عرب نے غیرمعمولی کردار ادا کیا اور کروڑوں ریا ل کے منصوبہ جات کے ذریعے گھروں کی آباد کاری اور متاثرین کے خور و نوش، رہائش، ادویات اور لباس سے متعلقہ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پاکستان میں موجود سعودی سفیر نے نمایاں کردار ادا کیا۔
پاکستان نے واجپائی کے دور میں بھارت کے دباؤ سے نکلنے کے لئے ایٹمی دھماکے کئے جن کے بعد پاکستان کو زبردست اقتصادی دباؤ کا سامنا تھا، ان ایام میں سعودی عرب نے پاکستان کا غیر معمولی دوست ہونے کا ثبوت دیا اور کئی ماہ تک ہزاروں بیرل مفت تیل فراہم کر کے پاکستان کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے لئے نمایاں کردار ادا کیا۔ سعودی عرب نے حالیہ دور حکومت میں بھی پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے کروڑوں ڈالر کی خطیر رقم پاکستان کو ہدیۃً دی، جس کے نتیجے میں پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کو غیر معمولی سہارا ملا اور پاکستان کے روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں واضح طور پر بہتر ہو گئی۔ سیاسی اعتبار سے پاکستان میںجب کبھی ڈیڈ لاک پیدا ہوا سعودی عرب کے نمائندگان نے اسے ختم کرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں۔ قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کی کشمکش کے دوران ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہو چکا تھا، سعودی عرب کے پاکستان میں متعین سفیر نے حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان رابطوں کو بہتر بنا نے کے لئے پل کا کردار ادا کیا اور پاکستان کو سیاسی اعتبار سے مستحکم کرنے کے لئے جس حد تک ممکن تھا کردارادا کیا۔ اسی طرح پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان جب سیاسی کشمکش کا آغاز ہوا تو میاںصاحب کو جیل کا سامنا کرنا پڑا۔ میاں صاحب کو جیل سے نکلوا کر بیرون ملک منتقل کرنے کے لئے سعودی عرب نے اپنا کردار ادا کیا۔
پاکستان کے ہزاروں طلبہ نے سعودی عرب کی یونیورسٹیوں سے اعلی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد سعودی عرب رہ کر یا پاکستان میں واپس آ کر دینی تعلیم اور دعوت دین کا فریضہ احسن طریقے سے انجام دیا۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ، جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ اور جامعۃ الامام ریاض میں پاکستانی طلبہ تعلیم حاصل کرتے رہے اور موجودہ دور میں بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد روزگا ر کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم ہے اور وہاں سے زرمبادلہ اپنے ملک بھجوا کر ملک کی معیشت کو بہتر بنانے میں اپنا کردار اد اکر رہی ہے ۔
سعودی عرب کے سفروں کے دوران میں نے محسوس کیا کہ سعودی عرب کئی اعتبار سے ایک مثالی ریاست ہے جس میں جرم و سزا، پولیس، تعلیم اور صحت کی معیاری سہولیات موجود ہیں۔ سعودی عرب میں قتل وغارت گری، منشیات، جسم فروشی اور گداگری کے واقعات دور دور تک نظر نہیں آتے جو مضبوط حکومتی ڈھانچے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سعودی عرب میں پولیس کے محکمے سے وابستہ ایک عام اہلکارکا رعب و دبدبہ وہاں موجود بڑے سے بڑے با اثر شخص کو مرعوب کئے رکھتا ہے، جس کے نتیجے میں ہر شخص قانون کا احترام کرنے پر آمادہ رہتا ہے۔
مسلمانوں کی اکثریت سعودی عرب کا سفر حج اور عمرے کی نیت سے کرتی ہے۔ ان سفروں کے دوران بآسانی اس حقیقت کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ سعودی حکومت نے حج وعمرہ کرنے والوں کے لئے بہترین سہولیات فراہم کر رکھی ہیں۔ مختلف ممالک کے لاکھوں افراد مکہ اور مدینہ میں جمع ہوتے ہیں، لیکن کسی شخص کو بھی اپنی جان، مال اور عزت کے حوالے سے کسی قسم کا خطرہ اور اندیشہ لاحق نہیں ہوتا۔ میں نے ماضی کے سفروں کے دوران اس بات کو محسوس کیا۔ ہر آنے والے دن حرمین شریفین کی توسیع اور انتظامات کو بہتر بنانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ حرمین شریفین کی خدمت کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ اشاعت کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے اور ہر مسلمان کو اپنی قومی زبان میں با ترجمہ قرآن بآسانی میسر آجاتا ہے۔ یہ کار خیر ہر اعتبار سے قابل تحسین ہے۔ گزشتہ رمضان المبارک میں مجھے سعودی عرب کا سرکاری مہمان بننے کا موقع ملا۔ میں نے اسلام کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے اعلیٰ حکام کے دلوں میں بھی پاکستان کے بارے میں بہترین احساسات اور جذبات کو موجزن دیکھا۔ سعودی عرب کے سفروں کے دوران وہاں کا مثالی امن و امان اور بہترین اقتصادی صورتحال کو دیکھ کر لبوں پر بے اختیار یہ دعا آجاتی ہے کہ اے کاش اللہ تبارک وتعالیٰ پاکستان میں بھی اس قسم کا بے مثال امن و امان قائم کردے اور اس کی معیشت کو بھی مستحکم کر دے اور پاک سعودی دوستی کو ہمیشہ برقرار رکھے۔ آمین!