ہر دور کے انسانوں کی بڑی تعداد کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہر جائز اور ناجائز راستہ اختیار کرنے پر تیار رہتے ہیں اور اپنی تشنہ تمناؤں کی تکمیل کے لیے درست اور غلط کی تفریق کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہوتے۔ انسانوں کی گمراہی اور بے راہ روی میں جہاں ان کی خواہشات اور تمنائیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں وہیں پر انسانوں کی بد راہی کے اسباب میں ان کی ضد ،جہالت اور آباؤ اجداد کی اندھی تقلید بھی ہیں۔ انسانوں نے انبیاء اور مصلحین کی سچی دعوت کو کئی مرتبہ اپنی خواہشات کی پیروی کی وجہ سے قبول نہ کیا اور کئی مرتبہ ضد ، تعصب اور آباؤ اجداد کے طرز عمل کی وجہ سے وہ سیدھے راستے کو اختیار کرنے پر آمادہ وتیار نہ ہوئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کے اچھے اور برے اعمال کا بدلہ دینے کے لیے یوم جزا کو مقرر کیا ہے لیکن جب انسانوں کا کوئی گروہ حدود سے تجاوز کرتے ہوئے نافرمانی اور معصیت پر اصرار کرتا ہے توکئی مرتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ دنیا میں بھی اس کو اس کی بدعملی کی سزا دیتے ہیں اور دنیا میں اس کے برے اعمال کی سزا ملنے کے بعد آخرت میں بھی ان کو اپنے اعمال کے حوالے سے جوابدہ ہونا پڑے گا۔
قرآن مجید اور انبیاء علیہم السلام کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جن اقوام نے ابنیاء علیہم السلام کے پیغام اور دعوت کو اپنے ذاتی مفادات ، تعصب، انا، ہٹ دھرمی اور آباؤ اجدادکے چلن کی وجہ سے قبول نہ کیا اور ابنیاء علیہم السلام کی مخالفت میں تمام حدود قیود سے تجاوز کر گئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا میں بھی ان کو اپنے عذاب کا نشانہ بنایا۔ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کے درمیان 950 برس تک رہے اور ان کو مسلسل اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے رہے۔ قوم کے لوگوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی سچی دعوت کو قبول نہ کیا اور ان کو اذیتوں اور تکالیف کا نشانہ بنایا۔بالآخر ان کو اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے ایک خوفناک طوفان کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر نافرمان اور سرکش طوفان کی زد میں آگیا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے ساتھ شرک کرنے اور بتوں کی پوجا کرنے والے لوگ صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ اسی طرح قوم عاد کے لوگ بھی مسلسل حضرت ہود علیہ السلام کی مخالفت کرتے رہے اور کسی بھی طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی واحدانیت کو قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہ ہوئے۔ وہ اس غلط سوچ میں مبتلا تھے کہ وہ کائنات میں سب سے زیادہ طاقتور ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی سرکشی کی وجہ سے ان پر اپنی ایک نظر نہ آنے والی مخلوق ہوا کو مسلط کر دیا۔ ہوا نے ان کو یوں اکھیڑ کے پرے پھینکا جیسے کھجور کے کٹے ہوئے تنے ہوں۔ قوم عاد کے علاوہ قوم ثمود کے لوگ بھی سرکشی اور بغاوت پر آمادہ وتیار رہے۔اتمام حجت کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے بن باپ اور بن ماں کے پیدا ہونے والی ایک اونٹنی اور اس کے بچے کو ان کے سامنے رکھا۔ بجائے اس کے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی اتنی بڑی نشانی کو دیکھ کر اپنے طرز عمل کی اصلاح کرتے وہ صالح علیہ السلام کی مخالفت پرکمر بستہ رہے ۔وہ تواتر کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید سے انحراف کرتے رہے اور ان ظالموں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے بطور نشانی ملنے والی اونٹنی کو بھی شہید کر دیا۔ نتیجتاً اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ان پر ایک چنگھاڑ کو مسلط کیا گیا جس کی وجہ سے وہ تباہ برباد ہو گئے۔ قوم لوط کے لوگ جنسی بے راہ روی کا شکار تھے اور عورتوں کی بجائے مردوں کی طرف مائل تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام ان کی اصلاح کے لیے مسلسل کوشاں رہے اور ان کو سیدھے راستے کی طرف آنے اور اپنے کردار کی اصلاح کرنے کی رغبت دلاتے رہے لیکن وہ کسی بھی طور پر اپنی اصلاح پر آمادہ نہ ہوئے۔ حتیٰ کہ عذاب کے لیے بھیجے جانے والے فرشتوں کے بارے میں بھی انہوں نے برے ارادے کا اظہار کیا۔ اس موقع پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر عذاب الیم کو مسلط کیا اور بے راہ روبستی کو تہہ وبالا کر دیا۔ آسمان سے برسنے والے پتھروں کے ذریعے ان کے جسموں کو کچل دیا گیا۔ قوم شعیب کے لوگ مالی بے اعتدالی کا شکا رتھے اور اس کے ساتھ ساتھ دین اور دنیا کی تفریق پر یقین رکھتے تھے ۔ ان کا یہ گمان تھا کہ نماز کو عقائد اور کاروباری معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔وہ حضرت شعیب علیہ السلام کو یہ بات کہا کرتے تھے کہ کیا آپ کی نماز اس بات کا حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے آبا ء کے معبودوں کو چھوڑ دیں یا اپنے اموال میں اپنی مرضی نہ کرسکیں۔ وہ کم ماپتے ،کم تولتے اور کاروباری منافع کے لیے ہر جائز وناجائز راستے کو اختیار کرتے۔ حضرت شعیب علیہ السلام ان کی اصلاح کے لیے ان کو متواتر اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہدایات کو سناتے رہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی اصلاح پر آمادہ وتیار نہ ہوئے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو بھی اسی طرح تباہ وبرباد کر دیا جس طرح قوم ثمود کے لوگ ہلاک ہوئے۔
اللہ تبارک نے قرآن مجید میں ان اقوام کے ساتھ ساتھ فرعون اور اس کے ہمنواؤں کا بھی ذکر کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والے مختلف عذاب کبھی طوفان ، کبھی قحط سالی ، کبھی ٹڈیوں ، کبھی جوؤں اور کبھی خون کی بارشوں کی شکل میں وقفے وقفے سے نازل ہوتے رہے۔ لیکن یہ لوگ ان عذابوں کو آتا دیکھ کر وقتی طور پرتو اپنی اصلاح کا ارادہ کرتے لیکن جب اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے عذاب کو ٹال دیتے تو یہ لوگ دوبارہ سرکشی اور نافرمانی کے راستوں کو اختیار کر لیتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے ذریعے ان اقوام کے احوال ہمیں بتلا کر ہماری توجہ اس سمت مبذول کروائی ہے کہ اگرچہ اعمال کے حوالے سے صحیح اور حقیقی جوابدہی تو کل قیامت کے روز ہوگی لیکن اگر انسان حد اعتدال سے تجاوز کرتے ہوئے پیہم اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی میں مبتلا رہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اس کا دنیا میں بھی احتساب کر سکتے ہیں۔ گو کہ اُمت مسلمہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیب حضرت محمد ﷺ کی دعا کی وجہ سے اجتماعی ہلاکت کا نشانہ نہیں بنے گی مگر جزوی حیثیت سے ان کو بھی مختلف قسم کی سختیوں اور عذابوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چنانچہ وقفے وقفے سے مختلف علاقوں میں وبائیں، قدرتی آفات اور دیگر مشکلات آتی رہتی ہیں۔ نفسیاتی امراض، روحانی تشنگی، احساس محرومی، مایوسی اور بدحالی بھی کئی مرتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب ہی کی علامتیں ہوتی ہیں۔ قرآن مجیدمیں جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے مختلف اقوام پر آنے والے عذابوں کاذکر کیا وہیں پر اس بات کا بھی ذکر کیا جو بھی مصیبت انسانوں کو پہنچتی ہے وہ ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اگر یہ مصیبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آزمائش نہ ہو تویہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضگی کی مظہر بھی ہو سکتی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے عذابوں سے بچنے کے لیے قرآن کریم میں مختلف تدابیر بھی بتلائی ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب سے بچ سکتا ہے۔ ان میں سے پہلی اہم بات اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر توبہ کرنا ہے۔ جوشخص توبہ کرتا ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا گناہ گار کیوں نہ ہو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف کر دیتے ہیں اور گناہوں کی وجہ سے آنے والی تنگی اور تشنگی کو بھی دور کر دیتے ہیں۔ اسی طرح پرہیزگاری کو اختیار کرنے والے اور گناہوں سے اجتناب کرنے والے لوگ بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے تنگیوں سے باہر نکل جاتے ہیں۔ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناشکری کرنے کی وجہ سے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب آتے ہیں جب لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان پر اپنی نعمتوں کو بڑھا دیتے ہیں۔ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ایسے لوگوں پر اپنا عذاب نازل نہیں کرتے جو شکر گزاری اور ایمان کے راستے پر ہوں۔ قرآن مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کی آخری کتاب ہے اس کے ساتھ تمسک اختیار کرنے کی وجہ سے بھی انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت اور فضل کے حصول میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اگرچہ انسان کو حتمی طور پر دنیاوی زندگی کے بارے آخرت والے دن جوابدہ ہونا پڑے گا لیکن دنیا میں آنے والی ابتلائیں اور تکالیف درحقیقت یا تو انسان کو اللہ تبار ک وتعالیٰ کی طرف سے بطور سزا ملتی ہیں یا انسان کی توجہ کو سیدھے راستے کی طرف مبذول کرواتی ہیں۔ انسان کئی مرتبہ ان تنبیہات کو نظر انداز کرکے اپنے مصائب میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب سے بچ کر دنیا میں امن وامان والی زندگی گزارنے کے لیے انسان کو تقویٰ ، شکرگزاری، توبہ اور قرآن مجید کے ساتھ تمسک کے راستے کو اختیار کرنا چاہیے ۔ اگر انسان اس راستے کو اختیار کر لے تو وہ جہاں دنیا میں سکون والی اور طیب زندگی گزار سکتا ہے وہیںپر وہ آخرت کی سربلندی اور سرخروئی کے حصول میں بھی کامیاب ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دنیا میں اپنے عذابوں سے محفوظ فرمائے اور ان اعمال ِ قبیحہ سے بچائے جو عذاب کا سبب ہوں۔ آمین