"AIZ" (space) message & send to 7575

مسئلہ کشمیر

اہل کشمیر گزشتہ سات دہائیوں سے اپنے حقوق کے لیے برسرپیکار ہیں۔ آزادی ان کاآئینی، قانونی، مذہبی اور اخلاقی حق ہے، جس سے انہیں ایک عرصہ دراز سے جبراً محروم رکھا گیا ہے۔ حق خود ارادیت کے حوالے سے اقوام عالم ان کے مطالبے کو درست سمجھنے کے باوجوہ چشم پوشی کر رہی ہے۔ کشمیری اس جدوجہد کے حوالے سے ہمیشہ پاکستان اور پاکستانیوں کے تعاون کے منتظر رہتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا یہ المیہ رہا ہے کہ جب تک وہ اپوزیشن میں ہوتی ہیں کشمیریوں کی بڑھ چڑھ کر حمایت کرتی ہیں لیکن برسراقتدار آنے کے بعد اہل کشمیر کو فراموش کر دیا جاتا ہے اور ہندوستان سے دوستی کی پینگیں بڑھائی جاتی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نے بھی اپوزیشن کے ادوار میں ہمیشہ کشمیریوں کی حمایت کی لیکن برسراقتدار آنے کے بعد کشمیریوں کو آزادی دلوانے کے لیے مؤثر حکمت عملی تیار نہیں کی۔ 
ہرسال کی طرح اس بار بھی 5 فروری کو ملک بھر میں ریلیوں، جلسوں اور جلوسوں کا انعقاد کرکے عوامی سطح پر اہل کشمیر سے اظہار یکجہتی کا اظہار کیا جائے گا لیکن حکومت اس سلسلے میں کیا طرز عمل اختیار کرتی ہے، اس حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے قومی سطح پربہت سے مؤثر پروگرام منعقد ہوئے۔25 جنوری کو رابطہ عالم اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کے اعزاز میں مسلم کانفرنس کے معروف رہنما اور کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار عتیق نے پرتپاک ظہرانے کا اہتمام کیا۔ اس موقع سردار عتیق، صدر آزاد کشمیر مسعود خان اور رابطہ عالم اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے اہل کشمیر سے کھل کر وابستگی کا اظہار کیا۔ کشمیر کے مقدمے کے مختلف پہلوؤںکو نہایت احسن انداز میں دینی اور ملی رہنماؤں اور میڈیا کے سامنے رکھا۔ رابطہ عالم اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے بھی اہل کشمیر کے ساتھ عالم اسلام کی ہمدردیوں، محبت اور یکجہتی کا نہایت احسن انداز میں اظہار کیا۔ 26 جنوری کو جماعۃ الدعوۃ کے امیر پروفیسر حافظ سعید نے اسلام آباد میں پروقار تقریب کا انعقاد کیا جس میں ملک کی تمام نمایاں دینی اور سیاسی شخصیات نے شرکت کی۔ جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق، مسلم کانفرنس کے رہنما سردار عتیق اوردیگر نمایاں رہنماؤں کے ساتھ ساتھ مجھے بھی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ تمام رہنماؤں نے کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکومت کو اس سلسلے میں زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے کشمیر کی بھر پور سیاسی اور اخلاقی معاونت کرنی چاہیے تاکہ مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب مثبت پیش رفت ہو سکے۔ پروفیسر حافظ محمد سعید نے 2017ء کو اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کا سال قرار دینے کا اعلان کیا جس کی تائید تقریب میں موجود تمام نمایاں رہنماؤں نے کی اور اس حوالے سے ریلیوں، جلسوںاور جلوسوں کے انعقاد کا اعلان کیا۔ 
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ جب بھی قوم کسی نکتے پر متفق ہوتی ہے تو حکومتوں کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا پڑتی ہے۔ اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام اور دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق نے تمام رہنماؤں کی مشاورت سے ایک مشترکہ اعلامیہ پیش کیا جو مستقبل میں آزادی ٔکشمیر کی جدوجہد کے حوالے سے سنگ میل کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔ اس اعلامیہ کے اہم نکات یہ ہیں: 
1۔ قومی مجلس مشاورت میں شامل دفاع پاکستان کونسل سمیت تمام سیاسی مذہبی وکشمیری جماعتیں تحریک آزادی جموں کشمیر کی طرف سے 2017ء کو کشمیر کے نام کرنے اور 26 جنوری سے 5 فروری تک عشرہ کشمیر منانے کا خیر مقدم کرتی ہیں اور اس امر کا اعلان کیا جاتا ہے کہ کراچی سے پشاور تک ہونے والے جلسوں، کانفرنسوں، کشمیرکارواں اور ریلیوں میں بھرپور شرکت کی جائے گی۔ 
2۔ 27 سے 31 جنوری تک تمام بڑے شہروں میں ضلعی سطح پر آل پارٹیز کانفرنسوں کا انعقاد کیا جائے گا، جن میں ہر ضلع کی مقامی قیادت اور مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی تمام نمایاںشخصیات شریک ہوںگی۔ 
3۔ یکم اور 2 فروری کو ملک بھر میں کسان کشمیر کارواں ہوں گے۔ اسی طرح وکلا، تاجروں، سول سوسائٹی اور صحافیوں کی طرف سے کشمیر ریلیاں نکالی جائیں گی۔ جمعہ 3 فروری کو علمائے کرام، کشمیر میں بھارتی مظالم کو خطبات جمعہ کا موضوع بنائیںگے اور بعد نماز جمعہ مقامی علمائے کرام کی قیادت میں احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔ 
4۔ 4 فروری کو پاکستان بھر میں طلبا کی بڑی کشمیر ریلیاں نکالی جائیں گی اور تعلیمی اداروں میں کشمیر کے حوالے سے زبردست مہم چلائی جائے گی۔
5۔ 5 فروری کو لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں بڑے کشمیر کارواں اور جلسے ہوں گے جبکہ چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے اہم شہروں اور دیگر علاقوں میں بھی تحصیل سطح پر ریلیوں، کانفرنسوں اور سیمینارزکا انعقاد کیا جائے گا۔
6۔ کشمیری برستی گولیوں میں پاکستانی پرچم اُٹھائے ہوئے ہیں، اس لیے قومی مجلس مشاورت میں شریک قائدین کی طرف سے متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں بھی ہم اپنے جماعتی تشخص کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک گیر سطح پر ہونے والے پروگراموں میں صرف پاکستانی پرچم لہرائیںگے تاکہ کشمیریوں سے بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا جا سکے۔ 
7۔ جموں کشمیر میں بھارت سرکار کی طرف سے مسلم آبادی کا تناسب بگاڑنے، علیحدہ پنڈت و فوجی کالونیاں اور اقتصادی زون بنانے جیسی سازشوں کی ہر سطح پر مذمت کی جائے گی۔ حکومت پاکستان، بھارت کی طرف سے غیر کشمیریوں کو کشمیر میں مستقل آباد کرنے، ڈومی سائل سرٹیفکیٹس جاری کرنے جیسے اقدامات کے خلاف تمام بین الاقوامی فورم پر آواز بلند کرے اور اس مقدمے کو عالمی عدالت انصاف میں لے جائے۔
8۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت قائدین سمیت ہزاروں کشمیریوں کو جیلوں میں ڈالنے، مسلسل کرفیو اور بیلٹ گنوں سے معصوم نوجونوان کی بینائی چھیننے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان فریڈم فوٹیلا طرز پر کشمیریوں کو راشن،ادوایات اور آنکھوں کے ماہر ڈاکٹرز بجوانے کے عملی اقدامات کرے۔ 
9۔ کشمیر پالیسی کو کنفیوژن سے پاک کرکے واضح اور دو ٹوک بنایا جائے اور قائد اعظـم کے اس فرمان کہ ''کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ کو قومی موقف قرار دیا جائے۔ کشمیر کی اصل قیادت کو اعتماد میں لیا جائے اور گرفتار کشمیریوں کو فی الفور رہائی کے لیے مضبوط آواز بلند کی جائے۔
10۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر آزادی کشمیر کی جدوجہد کو دہشت گردی قرار دینے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے آئینی جدوجہد قرار دیا جائے۔ آزاد کشمیرکو تحریک آزادی کا بیس کیمپ بنایا جائے۔ ہم تمام کشمیری قائدین، وکلا، مساجد و سنگباز کمیٹیوں اور نظر بندوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ 
11۔ نریندر مودی کی طرف سے پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکیاں سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ حکومت پاکستان دنیا بھر میں اپنے سفارتخانوں کو متحرک اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ معاہدوں کی خلاف ورزی پر مبنی انڈیا کے گھناؤنے کردار کو بے نقاب کرے۔ 
12۔ وزیر اعظم نواز شریف کی اگر یو این او میںبات نہیں سنی جاتی تو انہیں مسئلہ کشمیر حل کروانے کے لیے اپنی کابینہ کے ساتھ اقوام متحدہ میں احتجاج کرنا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر پر اسلام آباد میں او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے۔ سی پیک منصوبہ میں آزاد کشمیر کو بھی شامل کیا جائے۔ 
13۔ بھارتی حکومت کشمیری شہداء کے اہل خانہ کو 5 لاکھ اور گھر کے ایک فرد کو نوکری دینے کے پیشکش کر رہی ہے۔ کشمیری قوم سوال کرتی ہے کہ جس پاکستان کے لیے یہ شہید ہوئے اور انہیں پاکستانی پرچموں میں دفن کیا گیا‘ پاکستانی حکومت ان کے لیے کیا کر رہی ہے؟
14۔ اجلاس، گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے فیصلے کو تقسیمِ کشمیر کی سازش قرار دیتا ہے۔ حکومت پاکستان کو ایسے غیر ذمہ دارانہ اقدامات سے باز رہنا چاہیے۔ 
کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے ساتھ ساتھ اس موقع پر قومی قائدین نے متفقہ طور پر بیان دیا کہ اسلام، سلامتی اور امن کا دین ہے۔ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اسلامی دہشت گردی کا لفظ استعمال کرنا نا قابل برداشت ہے۔ مسلم حکمران دین اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کے لیے مشترکہ پالیسیاں ترتیب دیں اور واضح پیغام دیا جائے کہ اسلام اور شعائر اسلامی کی توہین کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اگر حکومت پاکستان قومی قائدین کی تجاویز سے صحیح طریقے سے استفادہ کرے اور ان پر خلوص سے عمل پیرا ہو جائے تو وہ دن دور نہیں جب کشمیر بھارت کے ظلم وستم سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا اور آزادیٔ کشمیر کا خواب حقیقت کا روپ دھار لے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں