مسلمانوں نے ایک ہزار سے زائد برس تک برصغیر پر حکومت کی۔ محمد بن قاسم کی برصغیر میں آمد سے لے کر مغلیہ سلطنت کے عروج تک مسلمان اس کے سیاسی افق پر چھائے رہے۔ مسلمانوں کے دور اقتدار میں بحیثیت مجموعی اقلیتوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا گیا۔ اس امر کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ طویل عرصہ حکومت کرنے کے باوجود بھی برصغیر میں ہندوؤں کی اکثریت رہی۔ مسلمان حکمرانوں نے رعایا کی فلاح و بہبود کے بہترین منصوبے تیار کیے۔ مسلمان حکمران بھی ابتدائی طور پر بااصول، اللہ سے ڈرنے والے اور باکردار تھے۔ لیکن بعد کے ادوار میں وہ بتدریج دین سے دور اور بعض اخلاقی کمزوریوںکا شکا ہوتے گئے۔چنانچہ 1857ء میں مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمے میں جہاں انگریزوں کی چالبازی اور ہندوؤں کی مکاری کا نمایاں کردار تھا وہاں مسلمانوں کی دین سے دوری اور بے عملی نے بھی ان کے سیاسی زوال میں کلیدی کردار ادا کیا۔
مسلمانوں کو زوال کی پستیوں سے نکالنے اور انگریز کے بڑھتے ہوئے اثرکا مقابلہ کرنے کے لیے برصغیر کے طول وعرض میں بہت سی تحریکیں اٹھیں۔ مسلمانوں کو منظم کرنے کے لیے بہت سے رہنماؤں نے اپنی بساط کے مطابق تگ ودو کی۔ سلطان ٹیپو شہیدؒ، نواب سراج الدولہؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، سید احمد شہیدؒ نے مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی جان تک قربان کر دی۔ تاہم انگریزوں کی عسکری قوت کے سامنے ان کی تدابیر کامیاب نہ ہوسکیـں تو نظریاتی اور فکری محاذ پر بہت سے قائدین نے مسلمانوں کی بیداری کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ ابتدائی طور پر مسلمان آل انڈیا کانگریس کے پلیٹ فارم پر ہندوؤں کے ساتھ مل کر آزادی کے حصول کے لیے کوششیں کرتے رہے‘ لیکن بعد ازاں جب یہ بات واضح ہو گئی کہ مسلمان ہندوئوں کے ساتھ مل کر آزادی کے لیے کما حقہ جدوجہد نہیں کر سکتے تو برصغیر کے سمجھدار مسلمانوں رہنماؤں نے انگریزوں کی غلامی اور ہندوئوں کی بالادستی سے آزادی کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ قائم کی۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے 1906ء میں اپنے قیام سے لے کر 1947ء تک انگریزوں کے استبداد اور ہندوؤں کی مکاری کا احسن طریقے سے مقابلہ کیا۔ مسلمان قائدین اور عمائدین تجربے اور مشاہدے سے اس نتیجے پر پہنچے کہ انہیں مسلمان اکثریت کے علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ آزاد ریاست حاصل کرنا ہو گی۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بنگال کے ساتھ ساتھ کشمیر میں بھی مسلمانوں کی اکثریت تھی۔
یہ ایک بدیہی امر تھا کہ مسلمان اکثریت کے علاقوں پر مشتمل جو آزاد ریاست بنے گی اس میں کشمیر بھی شامل ہو گا۔ لیکن ایک سازش کے تحت اہل کشمیر کو ان کی آزادی سے محروم کر کے جبراً بھارت کا حصہ بنا دیا گیا۔ کشمیر کے مسلمان مذہبی، قانونی، اخلاقی اور جمہوری اعتبار سے پاکستان کا حصہ بننا چاہتے تھے۔ اقوام عالم نے مسئلہ کشمیر پر کشمیری عوام کی آراء کو دیکھتے ہوئے حق خود ارادیت پر اتفاق کیا، لیکن عرصہ دراز گزر جانے کے باوجود بھی کشمیری اپنے اس بنیادی حق سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں اس حوالے سے قرار داد بھی پاس ہوئی لیکن بھارت حیلے بہانے، مکاری اور ٹال مٹول کے ذریعے اس قرار داد پر عمل پیرا ہونے سے انکار کرتا رہا۔ تنازع کے طول پکڑنے کی وجہ سے معاملے میں سیاسی اعتبار سے الجھاؤ اور پیچیدگیاں پیدا ہوتی رہیں، لیکن اہل کشمیر نے بھارت کے غاصبانہ قبضے کو کسی بھی طور پر قبول نہ کیا، ہر دور میں آزادی کے حصول کے لیے برسر پیکار رہے اور تحریک آزادی مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔
کشمیر ی عوام نے اپنی آزادی کے لیے جو قربانیاں دیں وہ تاریخی اعتبار سے بے مثال ہیں۔ سینکڑوں بوڑھوں کی داڑھیاں لہو میں تر بتر ہو چکیں، ماؤں اور بہنوں کی عزتیں پامال ہو چکیں، نوجوان کو شہید کیا جا چکا، کشمیری اکابرین اور رہنما زبان بندی،گرفتاریوں اور مقدمات کا نشانہ بنتے رہتے ہیں، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کشمیری عوام اقوام عالم اور امت مسلمہ کی جس توجہ کے مستحق ہیں تاحال ان کو وہ توجہ حاصل نہیں ہو سکی۔ اقوام عالم کو مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے حوالے سے انسانی بنیادوں پر ان کی تائید کرنی اور انسانی حقوق کی پامالی پرصدائے احتجاج بلندکرنی چاہیے۔ مغربی اقوام اس سلسلے میں دوہرا معیار اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے سیاسی تنازعات کے حل کے لیے مؤثر کردار ادا کرنے کی بجائے ان کی آوازوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مشرقی تیمور اور سوڈان میں اٹھنے والی تحریکوں کی حمایت اس لیے کی گئی کہ وہ مسیحی تحریکیں تھیں۔ برطانیہ نے گلاسگوکے علیحدگی پسند رہنماؤں کے مطالبے پر باقاعدہ استصواب رائے ہوا لیکن کشمیر، فلسطین، برما اور بنگلہ دیش میں ہونے والے مظالم کو فقط عصبیت کی بنیاد پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اقوام عالم ‘ بالخصوص اُمت مسلمہ کو مسئلہ کشمیر پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ عرب وعجم میں موجود بہت سے مسلمان ممالک کو انسانی بنیادوں کے ساتھ ساتھ مذہبی بنیادوں پر اہل کشمیر کا ساتھ دینا چاہیے۔ لیکن علاقائی اور سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے اُمت مسلمہ بحیثیت مجموعی تاحال مسئلہ کشمیر پر مضبوط اور ٹھوس لائحہ عمل کو نہیں اپنا سکی۔ تاہم اس سلسلے میں ایک اچھی پیش رفت یہ ہوئی کہ گزشتہ دنوں رابطہ عالم اسلامی کے اعلیٰ عہدیداران پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو ان کے اعزاز میں آزادکشمیر کے سیاسی رہنماؤں نے پروقار استقبالیے کا اہتمام کیا۔ استقبالیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے رابطہ عالم اسلامی کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری نے اہل کشمیر کے ساتھ بھر پور یکجہتی کا اظہار کیا اور یقین دہانی کرائی کہ رابطہ عالم اسلامی اور او آئی سی کی سطح پر اس معاملے کو بھر پور طریقے سے اُٹھایا جائے گا۔ ان کے خطاب کے بعد توقع کی جا سکتی ہے کہ آئندہ آنے والے سالوں میں کشمیر پر امت مسلمہ کا مشترکہ موقف سامنے آ سکے گا۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے جس کے ساتھ اہل کشمیر کا رشتہ انسانی اور مذہبی کے ساتھ ساتھ قومی بنیادوں پر بھی ہے۔ اہل کشمیر نے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے بے بہا قربانیاں دیں اور اس مقصد کے لیے توانائیاں صرف کی ہیں۔ پاکستان کے سیاسی رہنماؤں میں سے قاضی حسین احمد مرحوم نے 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا جو فیصلہ کیا اس سے آزادی ٔ کشمیر کو عوامی سطح پر بہت تقویت ملی۔ حال ہی میں حافظ محمد سعید نے 2017ء کو یکجہتی کشمیر کے سال پر گزارنے کا اعلان کیا تو اہل کشمیر نے اس کو انتہائی خوش آئند قرار دیا اور آزادی کشمیرکے لیے جستجو کرنے والے لوگوں میں اُمید، حوصلے اور توانائی کی نئی لہر دوڑ گئی۔ بدنصیبی سے پاکستان کی حکومتوں نے اہل کشمیر اور پاکستان کے عوام کی امنگوں کے مطابق کشمیرکاز کو آگے نہیں بڑھایا۔ لیکن کشمیر ی عوام اس صورتحال پر مایوس نہیں ہیں اور وہ اپنے طور پر آزادی کی کوششوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی قربانیوں سے گریز نہیں کریں گے‘ وہ اپنی جدوجہد ہمت، حوصلے، ولولے اور توانائی کے ساتھ جاری وساری رکھیں گے۔ برہان وانی کی شہادت سے تحریک آزادی کشمیر کو جو نئی توانائی حاصل ہوئی ہے، انشاء اللہ وہ پوری توانائی کے ساتھ جاری رہے گی۔
حقیقی بات یہ ہے کہ جب کوئی قوم کسی بھی مقصد کے لیے یکسو ہو کر میدان عمل میں برسر پیکار ہوتی ہے تو اس کو جلد یا بدیر اقوام عالم کی تائید بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ اگر عزم اور ارادے میں پختگی ہو تو خوابوں کو حقیقت کا روپ دھارنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ اہل کشمیر کی آزادی کو جبراً غصب کرنے کے لیے بھارت خواہ کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کر لے وہ دن دور نہیں جب کشمیر آزاد ہو گا اور پاکستان کا حصہ بن جائے گا۔ ان شاء اللہ