"AIZ" (space) message & send to 7575

ناموس رسالتﷺ

اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں جو مقام حضرت انسان کو حاصل ہوا وہ کسی اورکے حصے میں نہیں آیا۔ تخلیق آدم علیہ السلام کے ساتھ ہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو صفت علم سے متصف کر دیا اور فرشتوں کو ان کے سامنے جھکنے کا حکم دیا۔ اولاد آدم دو حصوں میں تقسیم ہوئی، ایک حصے نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت کا راستہ اختیار کیا۔ اس کے بالمقابل ایک بڑی تعداد نے آدم علیہ السلام اور آپ کی اولاد کے ازلی دشمن ابلیس کے راستے کو اختیار کر لیا۔ جن لوگوں نے ابلیس کی پیروی کی وہ شرف انسانیت سے گر گئے، چوپائیوں اور جانوروں سے بھی بدتر ثابت ہوئے۔ جن لوگوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اختیار کی دنیا اور آخرت کی سر بلندی ان کا مقدر بن گئی۔ ایسے لوگ اپنے ایمان اور عمل کے لحاظ سے صلحائ، شہداء اور صدیقین میں شامل ہو گئے۔ ان بلند رتبہ لوگوں سے بھی زیادہ بلند مقام انبیاء علیہم السلام کا مقدر ٹھہرا۔ انبیاء علیہم السلام انسانیت کے حقیقی رہبر و رہنما تھے۔ یہ وہ ہستیاں تھیں جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ کلام کا شرف حاصل ہوا۔ ان انبیاء میں سے بھی بعض ہستیوں کو مقام رسالت عطا ہوا اور ان کو صاحب شریعت بنایا گیا۔ صاحب شریعت رُسُل اللہ میں سے پانچ ایسے تھے جو اپنے عزم و استقامت اور ہمت کی وجہ سے اللہ کے تمام رسولوں سے بلند ہو گئے۔ اولوالعزم رسول یعنی حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور ہمارے رسول اللہﷺ تمام انبیاء علیہم السلام کی جماعت میںسے ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو شرف ہمارے رسول معظمﷺ کو عطا کیا وہ کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آیا۔ 
رسول اللہ ﷺ اولاد آدم میں سب سے زیادہ قدآور انسان ہیں اور آپ ﷺ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کے لیے جس انداز میں اپنی زندگی کو وقف کیے رکھا اس کی مثال پیش کرنا ناممکن ہے۔ حضرت رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سے جہالت کے اندھیرے چھٹ گئے اور لوگوں کو ہدایت کا سراغ ملا۔ نبی کریمﷺ نے بھٹکی ہوئی انسانیت کو درست راستے کی طرف گامزن فرما دیا۔ آپ ﷺ نے جہنم کی وادیوں کی طرف سفر کرنے والے لوگوں کو جنت کی شاہراہ پر چلا دیا۔ نبی کریمﷺ عفت، عصمت، حیائ، امانت، دیانت، جرأت، شجاعت اور سخاوت کے علمبردار بن کر آئے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپﷺ کے کردار اور اسوۂ حسنہ کو انسانیت کے لیے سنگ میل بنا دیا۔ قرآن مجید کے مطابق جوشخص آپﷺ کی اتباع کرے گا وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبتوں کا مستحق ٹھہرے گا۔ نبی کریمﷺ کی اتباع کرنے کے ساتھ ساتھ آپﷺ کے ساتھ والہانہ محبت کرنا اور آپ ﷺکی عزت، وقار، ناموس اور حرمت کا خیال رکھنا اور تحفظ کرنا آپﷺ کے ہر امتی کی ذمہ داری ہے۔ دنیا میں نبی کریمﷺ کے اعلیٰ اخلاق اور بے مثال کردار کی وجہ سے جہاں مسلمان آپﷺ سے والہانہ عقیدت رکھتے ہیں وہاں دیگر مذاہب کے پیروکاروں میں سے انصاف پسند لوگ بھی نبی کریمﷺ کی شان اقدس کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں۔ بہت سے غیر مسلم مفکرین، دانشور اور سیاسی رہنما آپﷺ کی رفعت و عظمت کے قائل ہیں۔ مشہور غیر مسلم مورخ مائیکل ہارٹ نے جب اپنی کتاب 100 تحریر کی تو اس نے نبی کریمﷺ کا نام پہلے نمبر پر درج کیا اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ آپﷺ نے صرف مذہبی معاملات میں انسانیت کی رہنمائی نہیں کی بلکہ سیاست ، ریاست اور دیگر معاملات میں بھی آپﷺبے مثال رہنما ثابت ہوئے۔ 
نبی ﷺ ایک ضابطۂ حیات اور طرز زندگی لے کر آئے جس میں اباحیت پسندی، ہوس پرستی اور نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اپنی من مانیاں کرنے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ نبی کریم ﷺ کے اس طرز زندگی کی وجہ سے بعض نفرت پسند اور متعصب لوگوں نے ہر دور میں نبی کریمﷺ کی ذات اقدس پر بلاجواز اور بلا دلیل تنقید کی اور لوگوں کو آپ ﷺ کی ذات اور دعوت سے دور کرنے کی کوششیں کیں، جن کا علمی اور مدلل جواب دیا جاتا رہا اور محبت رسول ﷺ سے سرشار لوگ اس حوالے سے اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کرتے رہے۔ گزشتہ چند برسوں سے نبی ﷺ کی عفت و عصمت پر پے در پے حملے کرنے کی ناپاک جسارت کی جا رہی ہے۔ کبھی ڈنمارک کے کسی جریدے میں، تو کبھی امریکہ میں کسی بھٹکے ہوئے پادری کے زیر سایہ تربیت پانے والے لوگ اپنے گمراہ رہنما کی ہمراہی میں قرآن مجید اور نبی کریمﷺ کی توہین کا ارتکاب کرنے کی ناپاک کوششیں کرتے ہیں۔ جب بھی ایسا بے ہودہ واقعہ رونما ہوتا ہے، تقریر و تحریر کے ذریعے اس ناپاک جسارت کا جواب دیا جاتا ہے، دنیا بھر کے مسلمان اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اجتماعات، جلسے ، جلوسوں اور ریلیوں کا انعقاد کرتے ہیں۔ گزشتہ چند دن اس اعتبار سے انتہائی افسوس ناک تھے کہ بعض لوگ جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری تھے، انہوں نے ناموس رسالتﷺ پر مجرمانہ حملے کیے اور حکومت پاکستان نے ایسے لوگوں کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہ کی۔ اس معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے میں اور میرے رفقاء نے لارنس روڈ پر اس جمعے کو ایک بہت بڑے اجتماع کا انعقاد کیا جس میں میرے علاوہ میرے دونوں بھائیوں کے ساتھ ساتھ جماعۃ الدعوۃ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور اہل حدیث یوتھ فورس کے سرکردہ رہنماؤں نے خطاب کیا۔ اس موقع پر حرمت رسول ﷺ کی اہمیت اجا گر کرنے کے لیے جو باتیں میں نے سامعین کے سامنے رکھیں ان کو میں قارئین کے سامنے بھی پیش کرنا چاہتا ہوں: 
اس وقت دنیا کے بہت سی اقوام جمہوریت اور آزادیٔ رائے پر یقین رکھتی ہیں اور اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی بھی شخص اپنی پسند کی مذہبی اور سیاسی فکر رکھنے میں آزاد ہے اور اس حوالے سے اسلام کی تعلیمات بھی واضح ہیں کہ دین میں جبر کی گنجائش نہیں اور کسی بھی غیر مسلم کو جبراً دائرہ اسلام میں داخل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جمہوریت اور آزادیٔ اظہار کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انسان مادر پدر آزادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی اداروں اور معزز انسانوں کی پگڑیاں اچھالنا شروع کر دے۔ اہل مغرب نے بھی جمہوریت اور آزادیٔ اظہار پر یقین رکھنے کے باوجود ہتک عزت اور توہین عدالت کے قوانین پر اس لیے اتفاق کیا کہ اگر اس قسم کے قوانین نہ بنائے گئے تو بعض بد اخلاق اور غیر مہذب لوگ ان اداروں اور انسانوں کی حرمت کو پامال کرنے کی کوشش کریں گے۔ اہل مغرب کا یہ طرز عمل اس اعتبار سے درست تھا کہ جمہوریت اور آزادی رائے کے اظہار کا بھی ایک ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے اور اس کے نتیجے میں کسی ادارے اور شریف انسان کی حرمت یا عزت کو مجروح نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن یہ انتہائی دکھ اور تاسف کا مقام ہے کہ مغربی مفکرین اور دانشور عام انسانوں اور اداروں کی حرمت کو تو تسلیم کرتے ہیں لیکن کائنات کے سب سے بڑے انسان جو پوری انسانیت کے محسن اور فخر ہیں، ان کی حرمت کو کھلے دل سے قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہیں ہوتے ۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا ایک انسان یا ادارے کی عزت زیادہ اہم ہے یا ڈیرھ ارب انسانوں کے پیشوا، مقتدیٰ اور محبوب کی عزت و آبرو زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ 
پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے جس میں حضرت رسول کریم ﷺ اور دیگر انبیاء کی ناموس کے لیے قوانین موجود ہیں۔ 295-C کا قانون حضرت رسول اللہﷺ کی ذات اقدس کی حفاظت کے لیے ہے۔ جو شخص بھی آپﷺ کی ذات کی توہین کرے اس پر 295-Cکے تحت مقدمہ درج ہونا چاہیے اور اس کو مقدمے میں مجرم ثابت ہونے کے بعد سزائے موت ملنی چاہیے۔ افسوس کہ اس قانون کے ہوتے ہوئے بھی کئی مرتبہ بعض ناعاقبت اندیش لوگ نبی کریمﷺ کی گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں، لیکن ستم یہ ہے کہ ان پر اس قانون کے تحت مقدمہ درج نہیں کیا جاتا۔ حالیہ دنوں میں جن بلاگرز نے نبی کریم ﷺ کی توہین کا ارتکاب کیا، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے ان کا تعین کرنا اور ان پر مقدمہ قائم کرنا کچھ مشکل نہیں تھا، لیکن اس معاملے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر وقت کے حکمرانوں پر کڑی تنقید کی جائے یا ان کے بارے میں غیر پارلیمانی الفاظ کا استعمال کیے جائیں تو وہ فوراً اپنے دفاع کے لیے سرگرم ہو جاتے ہیں، تو کیا وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی شان اقدس کے تحفظ کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو متحرک نہیں کیا جا رہا۔ اس قسم کے طرز عمل کو اختیار کرنے کی وجہ سے معاشرے میں احساس محرومی اور کشمکش کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں کئی مرتبہ نا خوش گوار واقعات بھی رونما ہو جاتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو اس مسئلے میں غفلت اور بے حسی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اپنی مذہبی، آئینی اور قانونی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں تاکہ ملک میں امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھا جا سکے اور ملک میں کوئی ناخوش گوار واقعہ رونما نہ ہو۔ 
نبی کریمﷺ کی حرمت اور ناموس کامسئلہ آئینی، قانونی اور نفسیاتی تقاضوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے لیکن افسوس کہ ترقی کے خبط میں مبتلا بعض مسلمان دانشور، مغرب زدہ این جی اوز اور حکمران طبقہ کسی مصلحت یا مفاد کی وجہ سے نبی کریم ﷺ کی حرمت کے مسئلے کو نظر انداز کر رہا ہے۔ حکمرانوں کو اپنے طرز عمل پر غور کرنا چاہیے اور دنیا میں قیام امن اور آخرت میں سر خروئی کے لیے نبی کریمﷺ کی ناموس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو آپﷺ کی عزت وناموس کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں