محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو محب کے دل میں محبوب کے لیے غیر معمولی وابستگی پیدا کر دیتا ہے۔ اس جذبے کی وجہ سے محب ہمیشہ محبوب کی خوشی اور کامیابی کے لیے سر گرم رہتا ہے اور اس کو پہنچنے والی کسی بھی تکلیف اور پریشانی کی وجہ سے خود محب کا دل بھی پریشانی اور غم کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جس نے صرف یہ کہ عقائد، عبادات ،معاملات اور دیگر معاشرتی امور میں انسانوں کی رہنمائی کی بلکہ جذبات اور احساسات کے حوالے سے بھی انسانوں کو سیدھے راستے کی طرف گامزن کیا۔ ایک سچا مسلمان ان تمام تعلق داروں سے محبت اور پیار کرتا ہے جن کے ساتھ اللہ اور رسول اللہ ﷺ نے محبت کرنے کی اجازت دی ہے۔ نبی کریمﷺ نے اپنے امتیوں کو اپنے والدین ، رشتہ داروں،دوست احباب اور ہمسایوں کے ساتھ خلوص اور پیار سے رہنے کی تلقین کی اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے صنفی محبت کا بھی ایک رخ متعین کیا کہ کسی بھی انسان کو اپنا دل لگانے کے لیے اپنی شریک زندگی کے ساتھ محبت اور پیار کر نا چاہیے اور زندگی کے نشیب وفراز اور اتار اور چڑھاؤ کے دوران اپنے اہل خانہ کے کام آنے کی کوشش کرنی چاہیے اور کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔
جہاں اسلام نے محبت کے جائز رخ کو متعین کیا وہاں پر اس کے ناجائز پہلوؤں کی بھی نشاندہی کی چنانچہ قرآن وسنت کے مطابق کسی بھی شخص کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ وہ کسی غیر محرم عورت کے ساتھ محبت کرے یا اس کے ساتھ ایسے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرے جو مذہب اور اخلاقیات کے اعتبار سے نا پسندیدہ ہوں۔ میڈیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ مغربی تمدن اور کلچر کے ساتھ وابستگی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پہلے لوگ یورپ اور مغرب کے تمدن سے اس وقت آگاہ ہوتے تھے جب وہ خود مغرب اور یورپ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے تھے لیکن میڈیاکے پھیلاؤ اور یورپ سے درآمد شدہ فلموں اور ڈراموں کی وجہ سے مغرب کے ثقافتی اور تہذیبی اثرات ہمارے معاشرے پر بھی مرتب ہوئے ۔ یورپ کے ساتھ ساتھ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کے ڈراموں اور فلموں نے بھی جدید نسل کے اذہان پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ بطور مسلمان جو تہذیب اور ثقافت ہمیں قرآن وسنت سے حاصل ہوئی تھی اس کو چھوڑ کر ہم نے فرنگیوں اور ہندوؤں کی تہذیب اور ثقافت کو اپنانا شروع کر دیا ہے۔
14 فروری کو دنیا بھر میں ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے اور اس موقع اپنے محبوبوں اور شناساؤں کے ساتھ محبت کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ یہ اظہار محبت بالعموم ان لوگوں کے درمیان ہوتا ہے جن کا آپس میں کوئی ازدواجی تعلق یا محرم رشتہ نہیں ہوتا۔ اس قسم کے تہوار رفتہ رفتہ ہمارے معاشروں میں بھی داخل ہو چکے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہماری جدید نسل کے ذہن میں بھی غیر محرموں سے شناسائی اور محبت کرنے کے رجحانات پیدا ہوئے ہیں جن کے نتیجہ میں بے راہ روی اور بدکرداری کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ بلوغت کے بعد جس حدتک ممکن ہو جلد از جلد لڑکے اور لڑکی کی شادی کی جائے لیکن یہ المیہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کم عمری کی شادی کے حوالے سے بھی آئے دن منفی پراپیگنڈ ا کیا جاتا ہے اور اس کو عورت کا استحصال قرار دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مغرب زدہ مفکرین اور این جی اوز کا دوہرا معیار ہے کہ وہ ناجائز محبت اور شناسائی کی تو حوصلہ افزائی کرتی ہیں لیکن نکاح اور شادیوں پر پابندیاں اور قدغن عائد کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتی ہیں۔ اگر ہمارے معاشرے میں شریعت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور قرآن وسنت کی تعلیمات کو صحیح معنوں میں اپنانے کی کوشش کی جائے تو معاشرے میں خود بخود ناجائز محبتوں اور بے راہ روی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اسلام میں جس طرح نکاح کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے اسی طرح زناکاری اور بدکرداری کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ زنا کرنا تو بڑی دور کی بات ہے قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے زنا کے قریب جانے سے بھی منع کیا ہے۔ بدکرداری کے نتیجے میں معاشرے اخلاقی گراوٹ، فساد اور انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں اور لوگ تہذیب، ثقافت اور انسانی اقدار کو فراموش کرکے حیوانی زندگی گزارنے کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ اسلام میں زنا اور بدکرداری کی روک تھام کے لیے جو اہم تدابیر بتلائی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
1۔ پردہ: اسلام میں بالغ مسلمان عورت کو پردہ کرنے کاحکم دیا ہے اور وہ اپنی زینت اور بناؤ سنگھار کا اظہار اپنے شوہر اور محرم رشتہ داروں کے علاوہ کسی اور کے سامنے نہیں کر سکتی۔ اگر معاشرے میں پردے کا التزام کیا جائے تو بے راہ روی اور بدکرداری پر باآسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔ جن معاشروں میں پردہ موجود نہیں وہاں پر بدکرداری کی شرح انتہائی زیادہ ہے۔ بھارت اور یورپی معاشروں میں بدکرداری کے واقعات معمول بن چکے ہیں ان واقعات کی انسداد کے لیے اسلام کی پردے سے متعلق تعلیمات پر عمل پیرا ہونا انتہائی ضروری ہے۔
2۔ غض بصر: قرآن مجید میں عورت کے پردے کے ساتھ ساتھ مسلمان مردوں اور عورتوں کو اپنی نگاہوں کو جھکا کر رکھنے کا حکم دیا گیا ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب انسان اپنی نگاہوں کو آوارہ چھوڑتا ہے تو اس کے دل اور دماغ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ غض بصرکے احکامات عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کے لیے بھی انتہائی ضروری ہیں۔ اس حکم پر عمل پیرا ہو کر معاشرے میں موجود بے راہ روی اور بدکرداری پر باآسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔
3۔مخلوط مجالس کی حوصلہ شکنی: اختلاط عورتوں اور مردوں کی فطرت کو مسخ کرتا اور ان کی طبیعتوں میں بگاڑ کو پیدا کرتا ہے۔ مخلوط مجالس کی وجہ سے معاشرے میں بدکرداری کے رجحانات فروغ پاتے ہیں۔ مردوں اور عورتوں کے تعلیمی ادارے اور ملازمت کے مواقع اگر جداگانہ ہوں تو ان کے آپس میں آزادنہ میل جول کے امکانات کم ہوجائیں گے جس کے نتیجے میں معاشرے میں برائی اور بدکرداری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
4۔ نکاح: اسلام میں زنا کی روک تھام کے لیے نکاح کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے اگر معاشرے میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو جلد ازجلد نکاح کے بندھن میںباندھ دیا جائے تو اس سے بھی معاشرے میں صنفی بگاڑ پر قابوپایا جا سکتا ہے۔ اسلام میں نکاح کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ صنفی بدامنی کی روک تھام کے لیے تعدد ازدواج کی بھی حوصلہ افزائی گئی ہے۔ تاکہ وہ لوگ جوایک سے زائد عورتوں سے رفاقت کے طلب گار ہوں وہ بے راہ روی اور بدکرداری کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے نکاح کے ذریعے اس مقصد کی تکمیل کرلیں۔
5۔ شرعی حدود: اسلام نے بدکرداری کی روک تھام کے لیے اپنے ماننے والوں کو شرعی حدود کا نظام بھی دیا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی کنوارہ لڑکا یا لڑکی برائی کا ارتکاب کرتے ہیں تو قرآن مجید کی سورہ نور کے مطابق ان کو سو کوڑے لگنے چاہیئں ۔اگر شادی شدہ مرد اور عورت برائی کا ارتکاب کرتے ہیں تو حدیث پاک کے مطابق انہیں سنگسار کرنا چاہیے۔
ان احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ کی آیت نمبر 19میں اس امر کا اعلان فرمایا کہ ''بے شک وہ لوگ جوپسند کرتے ہیں کہ اہل ایمان میں فحاشی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ ‘‘ یہ وعید ان تمام لوگوں کے لیے ہے جو مسلمان معاشرے میں اخلاقیات، شرم وحیا اور اسلامی اقدار کا جنازہ نکالنا چاہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے ان لوگوں کو جو ویلنٹائن ڈے جیسے تہواروں کی حمایت کرتے ہیں ٹھنڈے دل سے غور وخوض کرنا چاہیے کہ کیا وہ محبت کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں یا بدکرداری کے فروغ میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ اسلام جائز محبت سے نہیں روکتا بلکہ دین حق والدین، بہن بھائیوں، بیوی بچوں اور اپنے گردوپیش میں رہنے والوں سے خوشگوار تعلق استوار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺکی محبت کو بھی ایمان کی تکمیل کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔ اگر ہم اسلام کی افاقی تعلیمات پر عمل کر لیں تو ہمارا معاشرہ ایک طاہر اور مطہر سماج کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور معاشرے سے صنفی بدامنی اور بے راہ روی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔