قوموں کی زندگی میں قیام امن اور معاشی خوشحالی غیر معمولی اہمیت کی حامل چیزیں ہیں۔ جس معاشرے میں امن کی نعمت اور رزق کی فراوانی ہو وہ ایک مثالی معاشرہ قرار پاتا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر126 میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بقا کے لیے کی جانے والی دعا کا ذکر کیاکہ ''جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا: اے پروردگار! تو اس جگہ کو امن والا شہر بنا اور یہاں کے باشندوںکو جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں پھلوں کی روزیاں دے‘‘۔ گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نگاہوں میں بھی امن اور رزق غیر معمولی اہمیت کے حامل تھے۔ تاہم جب ان دو نعمتوں کا باہم موازنہ کیا جائے تو یہ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ معاشی بدحالی کے مقابلے میں بدامنی زیادہ بڑا المیہ ہے۔ ہمارا ملک ایک عرصے سے بدامنی کا شکار ہے اور اس میں وقفے وقفے سے دہشت گردی کے المناک واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ عسکری ادارے اور حکومتیں ان واقعات پر قابو پانے کے لیے پرعزم رہتی ہیں‘ اس باوجود کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد اس قسم کے واقعات دوبارہ رونما ہو جاتے ہیں۔
ہمارا ملک ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور ہم اپنے معاملات چلانے کے لیے قرآن و سنت کی تعلیمات اور اس کے بعد عوام کی رائے سے استفادہ کرتے ہیں۔ قرآن مجید کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ قرآن مجید نے ایک انسان کی جان کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر32 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ بے شک جو شخص کسی نفس کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد کرنے والا ہو قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے جن جرائم پر موت کی سزا مقرر کی‘ ان میں سے ایک جرم قتل ناحق بھی ہے۔ قرآن مجید کی سورہ بقرہ کی آیت نمبر178 میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو؛ تم پر مقتولوں کا قصاص لینا لازم کر دیا گیا ہے۔ آزاد آزاد کے بدلے، غلام غلام کے بدلے اور عورت عورت کے بدلے (قتل کی) جائے گی‘‘۔ یعنی اگر آزاد قتل کرے تو آزاد کو قتل کیا جائے، غلام قتل کرے تو غلام کو قتل کیا جائے اور اگر عورت قتل کرے تو عورت کو قتل کیا جائے گا۔ اسلام نے قانون قصاص کو اس لیے متعارف کرایا کہ اس قانون کے نفاذ سے معاشرے میں ناحق قتل و غارت گری اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اسلام کی ان تعلیمات کے ساتھ ساتھ اگر عوامی رائے کی بات کی جائے تو کوئی بھی ذی شعور اور انصاف پسند شخص‘ قطع نظر اس کے کہ اس تعلق کس مکتبہ فکر یا مذہب سے ہے‘ کبھی بھی اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اس کی یا دوسروں کی جان، مال، عزت اور آبرو کو کسی قسم کا خطرہ لاحق ہو۔ گویا کہ اسلام اور عوام کا قیام امن پر اتفاق ہے۔ معاشرے میں جاری دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مختلف لوگ اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں مختلف طرح کی تجاویز پیش کرتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے میں بھی اپنے محدود علم اور مشاہدے کی روشنی میں بعض تدابیر کو پالیسی ساز اداروں اور عوام الناس کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
1۔ صحیح دینی علم کا فروغ: دین اسلام ہر انسان کو زندہ رہنے کا حق دیتا ہے۔ پیغمبر اسلامﷺ نے بھی انسانوں کی جان کے تحفظ کو غیر معمولی اہمیت دی اور قتل و غارت گری کرنے والے اور زمین پر فساد پھیلانے والے افراد کی سختی سے بیخ کنی کی اور ایسے افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے حدود و تعزیرات کا ایک مؤثر نظام قائم کیا۔ چنانچہ جب اسلام کے نظام حدود و تعزیرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو اس میں قتل و غارت گری، چوری، ڈکیتی اور زنا بالجبر کی وارداتوں میں ملوث افراد کے لیے سنگین نوعیت کی سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ ان سزاؤں کے ساتھ ساتھ اسلام اپنے پیروکاروں کو معاشرے میں بسنے والے مختلف نقطہ ہائے نظر کے حامل لوگوں کے بارے میں رواداری، برداشت اور احترام کا بھی درس دیتا ہے۔ قرآن و سنت میں انتقام اور ظلم کی بجائے صبر و تحمل کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اگر معاشرے میں صحیح اسلامی تعلیمات کو عام کر دیا جائے تو معاشرے سے دہشت گردی کا بہت حد تک خاتمہ ہو سکتا ہے۔
2۔ جرم وسزا کا مؤثر نظام: بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں جرم و سزا کا ایک مؤثر نظام موجود نہیں ہے اور بہت سے بااثر اور صاحب حیثیت لوگ قانون کی گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اگر معاشرے میں عدل و انصاف قائم کر دیا جائے تو معاشرے سے بدامنی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے اپنے زمانہ ٔ رسالت میں قیام عدل کے لیے انتہائی اعلیٰ معیار انسانیت کے سامنے رکھے۔ جب بنو مخزوم کی ایک صاحب حیثیت عورت نے چوری کی تو نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ''اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں (محمدﷺ) اس کے ہاتھ کاٹ ڈالوں گا‘‘۔ آپﷺ نے اس موقع پر سابق اقوام پر آنے والے عذابوں کے ایک بڑے سبب کا ذکر کرتے ہوئے یہ بات بھی ارشاد فرمائی کہ جب ان میں سے کوئی کم حیثیت کا آدمی جرم کرتا تو اس کو سزا دی جاتی اور صاحب حیثیت شخص کو چھوڑ دیا جاتا ۔
3۔ فلاحی ریاست کا قیام: قائد اعظم محمد علی جناحؒ، علامہ محمد اقبالؒ، مولانا ظفر علی خانؒ ، مولانا محمد علی جوہر ؒ اور دیگر مسلمان رہنماؤں نے ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کی تھی اور قیام پاکستان کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا۔ ایک فلاحی ریاست عوام کی بنیادی ضروریات کو اپنے ذمے لیتی ہے اور ان کے رزق، رہائش اور علاج معالجے جیسی بنیادی ضروریات خود فراہم کرنے کی جستجو کرتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سطح غربت سے نیچے رہنے والے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ایسے لوگوں کو ریاست سے بدگمان کرنا چنداں مشکل نہیں ہوتا۔ تخریبی ذہن کے لوگ ایسے افراد کو ریاست سے باآسانی بدگمان کر سکتے ہیں۔ کوئی بے قرار، مفلوک الحال اور مایوس شخص معمولی مادی مفادات کے لیے ایسے اقدام کر سکتا ہے جن کے نتیجے میں ملک و ملت کو سنگین نوعیت کے خطرات لاحق ہو جائیں۔ اگر مملکت خداداد کو صحیح معنوں میں ایک فلاحی ریاست میں تبدیل کر دیا جائے اور ہر شخص کو اچھا روزگار فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے تو بہت حد تک معاشرے میں دہشت گردی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
4۔ شہریوں کے حقوق اور عزت میں مساوات: ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام مکاتب فکر، مذاہب اور نقطہ ہائے نظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یکساں عزت اور احترام دے۔ بسا اوقات شک کی بنیاد پر کسی شخص کو حراست میں لے لیا جاتا ہے اور بے گناہ ثابت ہونے پر اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس قسم کے رویّوں سے محب وطن اور امن پسند انسانوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ کئی مرتبہ ریاست سے بدگمان ہو جاتے ہیں۔ فقط تشویش، بے بنیاد الزام یا افواہ کی بنیاد پر کسی شخص کو حراست میں لینا کسی بھی طور پر مناسب نہیں۔ جب تک ٹھوس شواہد اور تسلی بخش ثبوت نہ ہوں اس وقت تک کسی شخص کو حراست میں نہیں لینا چاہیے اور حقوق شہریت کے تناظر میں ہر شخص کو خود پر لگنے والے الزامات کا دفاع کرنے کا پورا پورا موقع ملنا چاہیے۔ اگر ملزم کو اس قسم کی سہولت نہ دی جائے تو بہت سے بے گناہ لوگ محبوس رہنے کے بعد ریاست سے بدظن ہو جاتے ہیں۔ اس بدگمانی اور نفسیاتی الجھاؤ کے تدارک کے لیے بھی ریاست کو منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
5۔ طبقاتی کشمکش اور نظام تعلیم کی حوصلہ شکنی: ہمارے معاشرے میں طبقاتی کشمکش موجود ہے۔ امیر غریب سے اور غریب امیر سے بدگمان ہے۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں مختلف طرح کے نظام تعلیم بھی موجود ہیں اور ایک نظام سے تعلیم حاصل کرنے والا شخص دوسرے شخص کے بارے میں بدگمان نظر آتا ہے۔ طبقاتی کشمکش اور طبقاتی نظام تعلیم کی شدت سے حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے درمیان موجود خلیج کو ختم کرنے کے لیے اسلامیات کو عصری اداروں میں اور انگریزی اور حساب جیسے بنیادی علوم کو دینی اداروں میں متعارف کرانا چاہیے۔ اگر ملک کے پالیسی ساز ادارے ان تجاویز پر ٹھنڈے دل سے غور و خوض کریں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں تو معاشرے میں جاری دہشت گردی میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے ملک کو امن و سکون کا گہوارہ بنائے۔ آمین ثم آمین