"AIZ" (space) message & send to 7575

دہریت

ہر دور کے انسانوں کی غالب اکثریت اللہ تبارک وتعالیٰ پر ایمان رکھنے والے لوگوں پر مشتمل رہی ہے۔ لیکن مختلف ادوار میں انسانوں کی ایک انتہائی قلیل تعداد اللہ رب العزت کا انکار بھی کرتی رہی ہے۔ دہریت اپنے کمزور دلائل کی وجہ سے کبھی بھی انسانوں میں مقبول نہیں ہو سکی۔ دہریت کی بنیاد عقل پرستی اور اباحیت پسندی ہے۔ دہریے ہر اس چیز کا انکار کرنا شروع کر دیتے ہیں جس کو ان کی عقل قبول نہیں کرتی۔ اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے اور ہر معاملے میں اپنی من مانی کرنے کے لیے دہریے اللہ تعالیٰ او راس کی نازل کردہ شریعت و احکامات کا انکار کرنے پرمصر رہتے ہیں۔ بعض دہریے اپنے دلائل کو عقل اور مشاہدے کی روشنی میں آگے بڑھاتے ہیں جب کہ ان میں سے بعض دہریے متشددانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اخلاقیات ،ادب اورآداب کی تمام حدود کو پھلانگ جاتے ہیں۔ ایسے دہریوں کا ایک انتہائی بھیانک اور مکروہ روپ اللہ تبارک وتعالیٰ اوراس کے پیغمبرانِ برحق کی بالعموم اور حضرت رسول اللہﷺ کی ذات اقدس اور تعلیمات کی بالخصوص اہانت کا ارتکاب کرنا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے پھیلاؤ سے جہاں انسانوں کو بہت سے فوائد حاصل ہوئے‘ وہیں پر دہریوں کو بھی اپنے نظریات اور افکار کی نشرواشاعت کا موقع میسر آیا ہے۔ مغربی معاشروں میں دہریوں کو حریت فکر اور مادر پدر آزادی کے علمبردار عناصر کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ 
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی دہریت کے علمبردار اپنے غلط اور توہین آمیز نظریات پھیلانے میں مشغول ہیں اور اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا کوتواتر سے استعمال کر رہے ہیں۔ اللہ تبارک اور نبی برحق ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرنے والے ان دہریوں کو لگام دینا جہاں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے وہیں پر علمائے حق کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ گستاخی کا ارتکاب کرنے والے ان دہریوں کی بے ادبی کا منہ توڑ جواب دینے کے جواب کے ساتھ ساتھ ان کے بے بنیاد دلائل کا علمی انداز میں بھی تجزیہ اور رد کیا جائے تاکہ سادہ لوح لوگوں کے دل و دماغ میں دہریے جو اشکال پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کا ازالہ علمی پیرائے میں بھی کیا جا سکے۔ دہریوں کے پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات کے ازالے کے لیے میں بھی اپنی چند گزارشات قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
انسان ایک عرصے سے اس زمین پرآباد ہے اور انسانوں نے صنعت و حرفت ،سائنس ، ٹیکنالوجی ،ادب اور فنون لطیفہ کے حوالے سے خاطر خواہ ترقی کی ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان اپنی اس تمام تر ترقی کے باوجود تخلیقی اعتبار سے انتہائی بے بس نظر آتا ہے اور تاحال کسی بھی جاندار چیز کو بنانے پر قادر نہیں ہو سکا۔ ذہانت ، فطانت ،علم ، تجربے اور مشاہدے کی نعمتوں سے مالا مال انسان اپنی تمام تر صلاحیتوں ،توانائیوں، وسائل اور حساس ترین آلات اور لیباٹریوں کے قیام باوجود ایک زندہ خلیہ بنانے پر بھی قادر نہیں تو اس بات کا تصور کیونکر کیا جا سکتا ہے کہ کائنات از خود بن گئی ہو۔ کائنات میں نظر آنے والی رنگا رنگ اور قسم ہا قسم کی مخلوقات یقینا از خود نہیں بنیں بلکہ یہ کسی حکیم و دانا خالق کی صناعی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
کائنات کے خودکار ہونے اور ازخود بننے کا تصور رکھنے والے دہریے اس حقیقت کا تجزیہ کرنے سے سے قاصر ہیں کہ ازخود بننے والے نظام میں کبھی بھی اس درجے کی تنظیم نہیں ہو سکتی کہ جس درجے کی تنظیم کائنات میں موجود ہے۔ ایک چھوٹے سے دس مرلے یا کنال کے گھر کو بنانے اور اس میں موجود انسانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نقشہ نویس ،ٹھیکے دار ، مستریوں اور مزدورں کو اشتراک عمل کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ گھر کے بن جانے کے بعد گھر کے مکینوں کو وقتاً فوقتاً اس کو قائم اوردائم رکھنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو استعما ل کرنا پڑتا ہے جب ہم کائنات کو دیکھتے ہیں تو نظام کائنات میں غیر معمولی تنظیم نظرآتی ہے۔ سورج عرصۂ دراز سے انسانوں کو حرارت اور روشنی پہنچا رہا اور چاند ایک عرصے سے گھٹتے اور بڑھتے ہوئے انسانوں کو وقت کے گزرنے کا احساس دلا رہا ہے۔ سورج ہمیشہ اپنے وقت پرنکلتا اور چاند ہمیشہ اپنے وقت پر رخصت ہوتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر دنیا ازخودبنی ہوتی تو اس میں وقت بتانے والا اورحرارت اور توانائی فراہم کرنے والا اتنا منظم نظام نظر نہ آتا۔
انسان کو اپنی معیشت کو چلانے اور اپنے کاروبار کو انجام دینے کے لیے روشنی کی ضرورت اور آرام اور تخلیے میں جانے کے لیے اندھیرے کی ضرورت تھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کائنات میں رات اور دن بنا کر انسان کی ان ضروریات کو پورا کیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کائنات میں انسانوں کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کرنے کا جو منظم نظام ہے وہ از خود معرض وجود میں آیا ہے یا اس کو کسی خالق نے بنایا ہے۔ دہریے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کا اس لیے بھی انکار کرتے ہیں کہ وہ نظر نہیں آتا ۔دہریوں کی یہ سوچ بھی انتہائی بے بنیاد ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہوا نظر نہ آنے کے باوجود اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے اور ہوا کے گرم اورسرد تھپیڑے انسانوں کو ہوا کی آمد کا پتہ دیتے ہیں۔اور اس سے آگے بڑھ کر یہ کہ ہوا ہی کے اندر موجود لطیف گیسیں طبعی اعتبار سے اپنے ہونے کا احساس نہیں دلاتیں لیکن سائنس اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ ہوامیں بہت سی لطیف گیسیں موجود ہیں جن میں سے آکسیجن کو ہمارے پھیپھڑے کشید کرتے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو باہر نکالتے ہیں ۔ہوا نظر نہ آنے کے باوجود محسو س کی جا سکتی ہیںلیکن ہوا میں موجود گیسیں اس قدرلطیف ہیں کہ ان کو ہمارے حواس محسوس نہیں کر سکتے۔ لیکن ہماری حسیات کی کمزوری کی وجہ سے ان گیسوں کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ سائنسی علم ان کے ہونے کا یقین دلاتا ہے تو ہم فوراً سے پہلے اس حقیقت کو قبول کر لیتے ہیں۔ اسی طرح سائنس نے ہمیں یہ بھی بتلایا کہ انسانی آنکھ جامنی رنگ سے کم تراور سرخ رنگ سے بالا تر رنگوں کو دیکھنے سے قاصر ہے۔ اسی طرح جب آواز کی رفتار حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو ایسی آواز کو الٹرا سونک کہا جاتا ہے ۔ الٹرا سونک لہروں کو انسانی کان سننے سے قاصر رہتے ہیں لیکن سائنسی علم کی بنیاد پر ہم ان تمام حقائق کو تسلیم کرتے ہیں ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ بظاہر آنکھوں سے اوجھل ہیں لیکن جس طریقے سے انہوں اپنی مخلوق کی ضروریات کو پورا کیا اور ان کی ہر ضرورت کی تکمیل کے لیے اسباب کو فراہم کیا وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہونے کا یقین دلا رہے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 164میں اس امر کا اعلان فرمایا کہ ''بے شک آسمانوں زمین کی پیدائش، رات دن کا ہیر پھیر، کشتیوں کا انسانوں کے لیے نفع لیے ہوئے سمندروں میں چلنا، آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو آباد کرنا اور اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا اورہواؤں کے رخ بدلنا اور بادل جو آسمان اور زمین کے مابین مسخر ہیں ان میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ ‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 190 میں اس امر کا اعلان کیا کہ ''آسمان اور زمین کی پیدائش میں ، رات اور دن کے ہیر پھیر میں یقینا عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ ‘‘ عقل والے ان نشانیوں کو دیکھنے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات سے بے نیاز نہیں ہوتے بلکہ آیت نمبر191 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے کردار کا ذکر کیا ''جو اللہ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اوراپنی کروٹوں پر کرتے ہیں اور آسمان وزمین کی پیدائش میں غور وفکر کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اے پروردگار تو نے ہمیں بے فائدہ نہیںبنایا تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے۔‘‘ دہریوں کا تصور انسانوں کو خالق اور آخرت کی فکر سے بے نیاز کرتا جب کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہونے کا یقین اور تصور انسانوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے جھکنے اور آخرت کی تیاری کے لیے آمادہ وتیار کرتا ہے۔ دہریوں کی فکر انسانوں کے لیے زہر قاتل اور بے لگام نفس پرستی کی وجہ سے تباہی اور ہلاکت پر منتج ہونے والی ہے جب کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت انسانوں کو دنیاوی اور اخروی فلاح اور بلندی سے ہمکنار کرتی اور با حیا اور با اخلاق بناتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر ایمان انسان کے دل اور اس کی روح کے سکون کا سبب جب کہ اس کی ذات پر ایمان نہ رکھنا انسانوں کو بے چینی اور بد حواسی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر ایمان کسی حادثے کی صورت میں انسان میں مصیبت کا مقابلہ کرنے کی قوت پیدا کرتا ہے جب کہ اس کی ذات پر ایمان نہ ہونے کی صورت میں انسان تنہائی کا شکار ہو کر حادثے کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتبارک وتعالیٰ ہمیں دہریوں کی فکر سے بچ کر اپنی ذات پر پختہ ایمان رکھنے کی توفیق دے ۔آمین۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں