اللہ تبارک وتعالیٰ نے موت و حیات کا نظام اس لیے خلق فرمایا کہ اس سے انسانوں کی آزمائش مقصود تھی۔ سورہ ملک کی پہلی دو آیات میں ارشاد ہوا: ''بہت بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور جو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے اور وہ غالب اور بخشنے والا ہے۔‘‘ اللہ نے انسانوں کی آزمائش کی دو حالتوں سے دو چار کیا۔ یا تو اسے کشادگی، صحت اور اثرورسوخ عطا کیا یا اس کو مصیبت، مشکلات، غم اور غربت کی کیفیت میں مبتلا کیا۔ ہر انسان کی زندگی میں مختلف ایام آتے ہیں، کبھی انسان کشادگی کی حالت میں ہوتا ہے،کبھی تنگی کی زندگی بسر کرتا ہے۔ اسی طرح وہ کبھی صحت مند ہوتا ہے اور کبھی بیماریاں اس کے تعاقب میں ہوتی ہیں۔ مشکلات اور مصیبتوں کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی میں راحت اور خوشیاں بھی آتی ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ان دونوں حالات میںانسانوں کے طرز عمل کا جائزہ لیتے اور دیکھتے ہیں کہ صحیح معنوں میں تابعداری اور فرمانبرداری کا راستہ اختیار کرنے والا کون ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان دو حالتوں سے متعلق سورہ انبیاء کی آیت 35میں ارشاد فرمایا: ''ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے‘ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو بھلائی برائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری طرف ہی لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے ایسے بااثر لوگوں کا ذکر کیا جن کو اللہ نے زمین میںاقتدار، مال و دولت کی فراوانی اور اثرورسوخ عطا کیا لیکن وہ اللہ کی طرف سے ملنے والی ان نعمتوں پر شکر گزاری کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے نافرمانی کے راستے پر چل نکلے۔ چنانچہ اللہ نے وقتی عروج کے بعد آخرت کے عذاب سے قبل انہیں دنیا ہی میں عبرت کا نشان بنا دیا۔ فرعون کے پاس اقتدار تھا، وہ بنی اسرائیل پر ظلم وستم ڈھا رہاتھا۔ اللہ نے فرعون کو ایک لمبا عرصہ مہلت دیے رکھی لیکن وہ اصلاح کے بجائے بغاوت کے راستے پر مصر رہا۔ حضرت موسیٰ ؑجب اس کے پاس توحید کی دعوت لے کر آئے تو اس نے اللہ کی ذات کا یکسر انکار کر دیا اور بغاوت کی انتہا یہ کہ اپنے آپ کو رب قرار دینے لگا۔ بالآخر اللہ نے گرفت کی اور اس کو عبرت ناک انجام سے دوچارکر دیا۔ اسی طرح ہامان اور شداد بھی ناکام اور نامراد ٹھہرے۔ قارون کو اللہ نے بہت سرمایہ دیا تھا لیکن وہ بھی اللہ کی نافرمانی اور سرکشی کے راستے پر چل نکلا۔ اللہ نے قارون کا واقعہ سورہ قصص کی آیت نمبر76سے 83 میں اس طرح بیان فرمایا: '' قارون، موسٰیؑ کی قوم میں سے تھا پھر وہ ان پر زیادتی کرنے لگا اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دیے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو اٹھانا مشکل ہوتیں، جب اس کی قوم نے کہا کہ اترائو مت کہ اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا اور جو مال تم کو اللہ نے عطا فرمایا ہے اس سے آخرت کی بھلائی طلب کرو اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلائو اور جیسی اللہ نے تم سے بھلائی کی ہے ویسی تم بھی لوگوں سے بھلائی کرو اور ملک میں طالب فساد نہ ہو کیونکہ اللہ فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ وہ بولا کہ یہ مال مجھے میرے ہنر کے سبب ملا ہے، کیا اس کو معلوم نہیں تھا کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی امتیں جو اس سے قوت میں بڑھ کر اور جمعیت میں بیشتر تھیں ہلاک کر ڈالی تھیں اور گنہگاروں سے ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھا جائے گا تو ایک روز قارون بڑی آرائش اور ٹھاٹھ سے اپنی قوم کے سامنے نکلا جو لوگ دنیا کی زندگی کے طالب تھے کہنے لگے کہ جیسا مال و متاع قارون کو ملا ہے کاش ایسا ہی ہمیں بھی ملے۔ وہ تو بڑے نصیب والا ہے اور جن لوگوں کو علم دیا گیا تھا وہ کہنے لگے کہ تم پر افسوس! مومنوں اور نیکوکاروں کے لئے جو ثواب اللہ کے ہاں تیار ہے وہ کہیں بہتر ہے اور وہ صرف صبر کرنے والوں ہی کو ملے گا۔ پس ہم نے قارون کو اور اس کی حویلی کو زمین میں دھنسا دیا۔ تو اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہو سکی اور نہ وہ بدلہ لے سکا۔اور وہ لوگ جو کل اس کے رتبے کی تمنا کرتے تھے صبح کو کہنے لگے ہائے شامت! اللہ ہی تو اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ اگر اللہ ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا۔ ہائے خرابی! کافر کامیاب نہیں ہوتے۔وہ جو آخرت کا گھر ہے ہم نے اسے ان لوگوں کے لئے تیار کر رکھا ہے جو ملک میں ظلم اور فساد کا ارادہ نہیں رکھتے اور انجام نیک تو پرہیزگاروں ہی کا ہے۔‘‘
اسی طرح ابو لہب بھی بااثر قریشی سردار اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا لیکن حق شناس ہونے کی بجائے وہ آپﷺ کی مخالفت پر آمادہ رہا۔ اپنے مال، وجاہت اور سرداری کی وجہ سے اس نے اسلام قبول نہ کیا تو اللہ نے قیامت تک لیے اس کو راندۂ درگاہ بنادیا اور قرآن مجید کی ایک مستقل سورت اس کی مذمت میں نازل فرمائی۔ اس کے بالمقابل اللہ نے قرآن مجید میںبہت سے ایسے حکمرانوں کا ذکر کیا جنہوں نے اللہ کی نافرمانی کی بجائے اس کی تابعداری کا راستہ اختیار کیا۔ اللہ نے رہتی دنیا تک ان کی شخصیات اور داستانوں کو بقا عطا فرمادی۔ حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمانؑ اور حضرت یوسف ؑاس اعتبار سے مثالی شخصیات ہیں کہ اللہ نے ان کو نبوت کے ساتھ ساتھ زمین پر اقتدار بھی عطا فرمایا۔ان تمام انبیاء نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی سربلندی اور عوام کی فلاح وبہبود کے لیے بے مثال کردار ادا کیا۔ اللہ نے ان کے کردار کو امر کر دیا۔ جناب طالوت اور ذوالقرنین نے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی فرمانبرداری کا راستہ اختیار کیا تو ان کے واقعات کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پاک کلام کا حصہ بنادیا۔ خلفاء راشدین کو بھی عزت اور وقار اس لیے حاصل ہوا کہ انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی بجائے اس کی تابعداری کا راستہ اختیار کیا۔
اللہ انسانوں کو نعمت عطا فرما کر آزماتے ہیں اور بہت سے انسانوں کو دکھوں اور تکالیف کے ذریعے بھی آزماتے ہیں۔ دکھ اور کرب کے دوران صبر کرنے والے اللہ کے فضل اور رحمت کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔اللہ نے قرآن مجید میں ایسی کامیاب ہستیوں کا ذکر کیا جنہوں نے دکھ اور کرب میں اس کی بندگی کا راستہ نہ چھوڑا۔ حضرت یونس ؑ نے جب مچھلی کے پیٹ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کو پکارا تو اللہ نے ان کے غموں کو ختم کر دیا۔ حضرت ایوبؑ نے تکلیف دہ بیماری کے دوران اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت طلب کی تو اللہ نے ان پر فضل وکرم کا نزول فرما کر ان کی صحت بحال کردی اور جو مال ودولت اور اہل وعیال ان سے لیے گئے تھے وہ بھی پلٹا دیے اور اتنے ہی اور بھی ان کو عطا فرما دیے۔حضرت یوسف علیہ السلام نے زندگی میں کئی نشیب وفراز دیکھے لیکن وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی مدد کے طلبگار رہے۔آپ نے صبرواستقامت کا راستہ نہ چھوڑا، چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا ہی میںآپ کو عروج عطا فرما دیا۔
حابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت بلالؓ، حضرت سمیہؓ، حضرت زنیرہ ؓاور دیگر بہت سی شخصیات نے آزمائشوں پر صبر واستقامت کا راستہ اختیار کیا اور اللہ کے فضل کے مستحق بن گئے۔ اس کے بالمقابل وہ لوگ جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی تکالیف پر بے چینی، بے قراری اور ناشکری کا راستہ اختیار کرتے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایک کنارے پر عبادت کرتے ہیں ایسے لوگ اس کی ناراضگی اور غضب کے حقدار بن جاتے ہیں۔ اللہ سورہ حج کی آیت نمبر 11میں فرماتے ہیں: ''اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو ایک کنارے پر (کھڑے) ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اگر کوئی نفع مل گیاتو اس کے سبب مطمئن ہوجاتے ہیںاور اگر کوئی آفت آ پڑے تو منہ کے بل لوٹ جاتے ہیں۔ انہوں نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی، یہی تو صاف نقصان ہے۔‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ عنکبوت کی آیت نمبر10 میں ان لوگوں کاذکر کیا جو ہمیشہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے خیر اور نفع کے طلبگار رہتے ہیں اور اس کی طرف سے آنے والی آزمائشوں کو برداشت کرنے پرتیار نہیں ہوتے۔اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو زبانی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے لیکن جب اللہ کی راہ میں کوئی مشکل آن پڑتی ہے تو لوگوں کی ایذا دہی کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب کی طرح بنا لیتے ہیں، ہاں اگر اللہ کی مدد آئے تو پکار اُٹھتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھی ہیں، کیا دنیا جہاں کے سینوں میں جو کچھ ہے اسے اللہ تعالیٰ جانتا نہیں ہے۔‘‘
چنانچہ انسان کو تکلیف کے دوران صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اللہ کا فضل اور عطا آئے تو شکریے اور فرمانبرداری کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ جو شخص عروج و زوال کے دوارن یہ طرز عمل اختیار کرتا ہے وہ اللہ کے فضل و رحمت کا مستحق بن جاتا ہے اور جو اس سے انحراف کرتا ہے وہ ناکام اور نامراد ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین