قرآن مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتاب ہے جس نے عقائد ، عبادات اور معاملات کے حوالے سے انسانوں کی کامل رہنمائی کی۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید نے جنگ، امن، معیشت اورسیاست کے حوالے سے بھی انسانوں کو ان امور سے روشناس کروایا جو ان کے لیے دنیا اور آخرت کی کامیابی کا باعث بن سکتے ہیں۔قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ایک مثالی حکمران میں کس قسم کے اوصاف ہونے چاہئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت 245 سے 247 میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے ایک نبی کا ذکر کیا کہ جن کے پاس اس کی قوم کے لوگ ایک بادشاہ کے طلب گار بن کر آئے کہ جس کے ہمراہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں جہاد کر سکیں۔ ان کے پیغمبر نے کہا کہ ممکن ہے کہ جہاد فرض ہو جانے کے بعد تم جہاد نہ کرو۔ انہوں نے کہا کہ بھلا ہم اللہ کے راستے میں جہاد کیوں نہ کریں گے ہم تو اپنے گھروں سے نکالے گئے اور بچوں سے دور کر دئیے گئے ہیں۔ پھر جب ان پر جہاد فرض ہوا تو سوائے تھوڑے سے لوگوں کے سب پھر گئے۔ بنی اسرائیل کے نبی نے کہا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا دیا ہے۔ بنی اسرائیل کے لوگ انتخاب کے حوالے سے بہت حیران ہوئے اور یہ بات کہنے لگے کہ بھلااس کی ہم پر حکومت کیسے ہو سکتی ہے اس سے بہت زیادہ حق دار بادشاہ کے تو ہم ہیں۔ اور کہنے لگے کہ طالوت کو تو مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی تو ان کے نبی نے ان کو کہا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو تم پر برگزیدہ کر دیا ہے اور اس کو علم اور طاقت کی برتری بھی عطا فرمائی ہے۔ حضرت طالوت کے انتخاب کے حوالے سے قرآن مجید کا یہ واقعہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ حکمران کو صاحب علم اور صاحب طاقت ہونا چاہیے گو اس کے پاس مال کی فراوانی نہ بھی ہو۔
خلفائے راشدین ؓ بھی تاریخ کے مثالی حکمران ثابت ہوئے ۔ان کے پاس بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے علم اور طاقت کی دولت موجود تھی۔ علم کے ذریعے وہ معاملات کو صحیح طور پر سمجھتے اور طاقت کے ذریعے معاملات کا حل کرتے اور قانون کو احسن طریقے سے نافذ کرتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ص کی آیت 26میں حضرت داؤد علیہ السلام کو مخاطب ہو کر کہاکہ ''اے داؤد !ہم نے آپ کو زمین پر خلیفہ بنایا پس آپ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں اوراپنی خواہش کی پیروی نہ کریں۔‘‘
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حاکم وقت کو خواہش کی پیروی کرنے کی بجائے حق پرست ہونا چاہیے۔ جن حکمرانوں میں علم اور طاقت کے ساتھ حق پرستی کا جوہر موجود ہو وہ مثالی حکمران ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے مدمقابل جو علمی اعتبار سے کمزور ہوں اور قوت نافذہ کی صلاحیت سے محروم ہوں ، اسی طرح اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والے ہوں ایسے حکمران اپنی رعایا کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنے کی بجائے ان کے لیے نقصان کا سبب بن جاتے ہیں۔ قرآن مجید کے مطالعے سے اس بات کو بھی جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ مثالی حکمران کس انداز میں حکومت کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حج کی آیت 41میں اس امر کا اعلان فرمایا '' یہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین پر انہیں تمکن دیںتو یہ نمازوں کو قائم کرتے ہیں‘ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں‘ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔ ‘‘
قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان انبیاء کی طرز حکمرانی کے متعلق بھی واقعات کو نقل کیا جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے نبوت کے ساتھ ساتھ حکومت سے بھی نوازا گیا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالے سے اس بات کا ذکر کیا کہ جب وہ مصر کے وزیر خزانہ بنے تو انہوں نے خزانے کی تنظیم کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو وقف کیا اور پیداوار کو ضائع نہ ہونے دیااور متوقع قحط کی پہلے ہی سے تیاری کیے رکھی۔ چنانچہ جب ایک عالمگیر قحط نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو حضرت یوسف علیہ السلام کی تدبیر کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ مصر کے لوگ اپنے معاملات کو احسن طریقے سے چلاتے رہے بلکہ دور دراز سے آنے والے لوگوں کی معیشت کو بھی مصر کے وزیر خزانہ کی تدبیر کی وجہ سے فائدہ حاصل ہوتا رہا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرز حکمرانی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی حکومت کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کے لیے وقف کیے رکھا اور جہاں کہیں بھی انہیں خلاف دین کوئی بات نظر آئی انہوں نے اس کے خلاف بھر پور انداز میں جدوجہد کی ۔ حکمران ہونے کے ساتھ ساتھ آپ تبلیغ اور دین کی نشرواشاعت کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے آپ کی خدمات میں سے ایک اہم واقعہ ملکہ ٔ سبا کے قبول اسلام کا ہے۔ ملکہ سباء سورج کی پوجا کرنے والی تھی، حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو عقلی دلائل کے ذریعے اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیا۔ قرآن عظیم نے اس کے قبول اسلام کا واقعہ یوں ذکر کیا کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو اپنے محل کے ایک ایسے حصے میں آنے کی دعوت دی جہاں پر شیشہ کا بنا ہوا فرش تھا ملکہ سبا نے اس کو پانی سمجھ کر کپڑے کو اپنی پنڈلی سے اُٹھایا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے ارشاد فرمایا یہ تو شیشے سے منڈھی ہوئی عمارت ہے جس پر ملکہ ٔسبا اس کو بات کو بھانپ گئیں جس طرح وہ شیشے اور پانی میں فرق کرنے سے قاصر رہی ہیںاسی طرح وہ سورج کی روشنی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے نور کے درمیان امتیاز کرنے میں بھی کامیاب نہ ہو سکیں ۔ انہوں نے اس موقع پر کہا کہ'' اے میرے پروردگار ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی مطیع اور فرمابنردار بنتی ہوںـ۔ ـ‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ذوالقرنین کا بھی ذکر کیا ۔ حضرت ذوالقرنین نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی زمین پر بہت سے سفر کیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرمانبرداروں کے ساتھ نرمی اور نافرمانوں کے ساتھ سختی کا معاملہ کیا۔ حضرت ذوالقرنین کے سفروں میں سے ایک اہم سفر اس قوم کی طرف ہے جس کو یاجوج اور ماجوج نے تنگ کر رکھا تھا ۔ آپ نے یاجوج اور ماجوج کے فساد اور شر سے بچانے کے لیے بہترین تدبیر کی۔ حضرت ذوالقرنین نے قوم کے لوگوں کو کہاکہ تم مجھے لوہے کی چادریں لا دو۔یہاں تک کہ ان چادروں کے ذریعے جب ان دونوں پہاڑوں کے درمیان دیوار برابر کر دی گئی کہ جن کے عقب سے یاجوج اور ماجوج حملہ آور ہوتے تھے۔ تو آپ نے حکم دیا کہ آگ تیز جلاؤ حتی کہ ان چادروں کو بھی بالکل آگ کی طرح کر دیاگیا تو فرمایا اس پر پگھلا ہو اتانبا ڈال دو ۔ آپ کی اس تدبیر کی وجہ سے قوم کے لوگ یاجوج اورماجوج کے فتنے سے محفوظ ہوگئے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو بھی اقتدار عطا فرمایا۔آپ ﷺنے اپنے دورِ اقتدار میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی حاکمیت کے ساتھ ساتھ عوام کی فلاح وبہبود کے لیے بھی بہترین منصوبوں کو تیار کیا۔ اللہ کی بندگی کے لیے نماز اور لوگوں کی فلاح و بہبود کی خاطر زکوٰۃ،عُشراور صدقات کے نظام کوقائم کیا۔ آپﷺ نے اپنی حکومت کو عدل اور انصاف کی بنیاد پر آگے بڑھایا۔ چنانچہ جب بنو مخزوم کی ایک صاحب حیثیت عورت نے چوری کی تو نبی کریمﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس موقع پر اس عورت کی سفارش کے لیے آئے تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔ نبی کریمﷺ نے اس موقع پر سابقہ امتوں کی تباہی کے ایک بڑے سبب کا ذکر کیا کہ جب ان میں سے کوئی صاحب اثر جرم کرتا تو اس کو چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی کم حیثیت والا انسان جرم کرتا تو اس کو کڑی سزا دی جاتی۔
قرآن عظیم کے واقعات اور سیرت نبی ﷺسے اس بات کا سبق حاصل ہوتا ہے کہ مثالی حکمران کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی حاکمیت ، عوام کی فلاح وبہبود اور نظام عدل کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ جو حکمران یہ ذمہ داریاں ادا کرتا ہے وہ ایک مثالی حکمران قرار پا سکتا ہے۔ خلفائے راشدین کی بنیادی خوبی یہی ہے کہ انہوں نے قرآن مجید میں مذکور حکمرانوں کے اوصاف کو بھی اپنی ذات میں جگہ دی اور نبی کریم ﷺکی سیرت مطہرہ اور آپﷺ کے کردار سے بھی مکمل استفادہ کیا اور دنیا میں مثالی حکمران بن کر اپنا وقت گزارا۔ دور حاضر میں پاکستان کے حکمرانوں کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ان پر مختلف طرح کی کرپشن اور نا انصافی کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔ کرپشن اور ناانصافی سے پاک حکومتیں تبھی حاصل ہو سکتی ہیں جب ہم ایسے لوگوں کو اپنا قائد اور رہنما بنائیں گے جو علم اور طاقت کی دولت سے بہرہ ور ہوںگے اور جو لوگ فقط سرمائے اور سرمایہ کاری کے بل بوتے پر برسر اقتدار آتے ہوں اور ہم ایسے لوگوں کو اپنا رہنما اور حاکم تسلیم کرنے پر آمادہ وتیار رہتے ہوں تو ہم کبھی بھی بدعنوانی اور نا انصافی کے چنگل سے نجات حاصل نہیں کر سکتے۔