"AIZ" (space) message & send to 7575

اعمال کی قبولیت

اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ملک کی پہلی دو آیات میں ارشاد فرمایا ''بہت بابرکت ہے وہ ذات، جس کے ہاتھ بادشاہی ہے اور جو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے احسن عمل کون کرتا ہے۔‘‘ گویا کہ نظام ہستی کے بنانے کا مقصدانسانوں کے اعمال کو جانچنا تھا۔ سورہ عصر میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمانے کی قسم کھانے کے بعد اس بات کا ذکر کیا کہ بے شک انسان خسارے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور ایک دوسرے کو حق اورصبر کی تلقین کرتے رہے۔ گویا کہ انسانوں کوگھاٹے سے بچنے کے لیے اچھے اعمال کو بجالانا چاہیے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایمان اور عمل صالح کے بہت سے اچھے نتائج انسان کو دنیاوی اور اخروی زندگی میں حاصل ہوں گے ۔ دنیاوی زندگی میں حاصل ہونے والے فوائد میں حیات طیبہ، زمین پر تمکن ، دلوں کی سکینت اور نفس اور روح کی راحت شامل ہے۔ جب کہ اخروی کامیابیوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی جنت کے حصول کے ساتھ ساتھ اس کی رضا اور اس کا دیدار بھی شامل ہے۔ ایمان کے بعد عمل صالح کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ لیکن اس حقیقت پر غور کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ کس عمل کو صالح اور احسن عمل کہا جا سکے۔اس حوالے سے کتاب وسنت میں واضح رہنمائی موجودہے۔دواہم امور جن پر عمل پیرا ہو کر انسان کے اعمال قبولیت سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ درج ذیل ہیں:
1۔ اخلاص اور حسن نیت: قرآن وسنت میں اخلاص اورحسن نیت کے حوالے سے بہت زیادہ توجہ دلائی گئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے منافقوں کا ذکر کرتے ہوئے سورہ نساء کی آیت 145 میں ارشاد فرمایا''بے شک منافق جہنم کے سب سے نیچے کے طبقے میںجائیں گے ناممکن ہے کہ تو ان کا کوئی مددگار پالے ۔ ‘‘ لیکن آگے چل کر اللہ تبارک وتعالیٰ اعلان فرماتے ہیں ''مگر جو توبہ کرلیںاور اصلاح کرلیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کو مضبوطی سے تھام لیں اور اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر لیںتو یہ لوگ مومنین کے ساتھ ہوں گے اور اللہ تبارک وتعالیٰ مومنوں کو اجر عظیم عطا فرمائے گا۔‘‘ اسی طرح سورہ زمرکی آیت 2 اور3 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں اسی کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے ‘ خبردار دین خالص اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔‘‘ احادیث طیبہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اعمال بظاہر کتنے ہی خوشنما کیوں نہ ہوں اگر ان میں خلوص نہیں ہو گا تو اعمال قبولیت کے درجے تک نہیںـ پہنچ سکیں گے۔ چنانچہ ایک حدیث طیبہ میں ایک قاری یا عالم کا ذکر ہے اسی طرح ایک مجاہد اور سخی کا بھی ذکر ہے ان لوگوں نے اچھے اعمال دکھلاوے کے لیے کیے ہوں گے ‘گو کہ لوگ ان کو نیک اور صالح ہی سمجھتے ہوں گے لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کی نیت سے بخوبی آگاہ ہیں اور دلوں کے بھیدوں کو جاننے والے ہیں وہ قیامت کے دن ان ریاکاروں کو کامیاب اور کامران کرنے کی بجائے ناکام اور نامراد کر دیں گے۔ ان سے جب ان کے اعمال کے بارے میں سوال کیا جائے گا تو قاری اور عالم اپنی علمی خدمات کا جب کہ مجاہد اپنے جہاد اور سخی اپنی سخاوت کا ذکر کرے گا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس موقع پر انہیں کہیں گے تم نے یہ کام شہرت اور دکھلاوے کے لیے کیے پس تم جو چاہتے تھے تمہیں کہا گیا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو جنت میں داخل کرنے کی بجائے جہنم کے دہکتے ہوئے شعلوں میں اتار دے گا۔ اس کے بالمقابل سورہ بقرہ کی آیت 110اور سورہ مزمل کی آیت 20 میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں ''اور جو کوئی بھی خیر کا کام تم آگے بھیجو گے اس کو اللہ کے پاس موجود پاؤ گے ۔گویا کہ اگر خیر کا کوئی بھی کام چھوٹا ہو یا بڑا ہو اگر خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو تو وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے پاس درج ہو جائے گا۔ اس کے بالمقابل عمل کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اگر اس میں نیت درست نہ ہو تو وہ عمل انسان کی تباہی اور بربادی پر منتج ہو گا۔ ایک حدیث پاک میں نبی کریمﷺ نے تین طرح کے گھوڑوں کا ذکر کیا ایک گھوڑا وہ ہے جو انسان نے فخر ، غرور اور دکھلاوے کے لیے رکھا ہوتا ہے اس گھوڑے کا چلنا، پھرنا ، پانی پینا، چارہ کھانا، حتیٰ کہ اس کا فاضل مادہ بھی انسان کے بائیں پلڑے میں ڈال دیا جائے گا۔ اس کے بالمقابل ایک گھوڑا اجر والا ہے یہ گھوڑا وہ ہے جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں چلایا جائے گا ۔اس گھوڑے کے چلنے، پھرنے ، کھانے پینے اور حتیٰ کہ اس کے فاضل مادے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مالک کے لیے حسنات کو رکھا ہے۔ تیسرے گھوڑا پردے والا ہے جس کو انسان اپنی ضرورت کے لیے استعمال کرتا ہے یہ گھوڑا گو انسان کے لیے اجر کا باعث نہ بھی ہو انسان کی تباہی پر منتج نہیں ہوگا۔ اعمال کی قبولیت کے لیے اپنی نیت کی اصلاح کرنا انتہائی ضروری ہے۔ حدیث پاک میں جہاں پر یہ بات آئی ہے کہ بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے وہاں پر اس بات کا بھی ذکر موجود ہے کہ جس کی ہجرت اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ہے ‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کے پاس اس کی ہجرت اسی طرح درج ہو گی۔ اس کے بالمقابل جس نے کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے وطن کو خیر آباد کہا وہ بظاہر مہاجرین فی سبیل اللہ کے ہمراہ کیوں نہ ہو لیکن اس کے ساتھ معاملہ اس کی نیت کے مطابق کیا جائے گا ۔ 
2۔ نبی کریمﷺ کا اسوہ: اصلاح نیت کے ساتھ ساتھ اسوہ رسولﷺ بھی اعمال کی قبولیت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت 21میںارشاد فرمایا ''یقینا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ (کی زندگی )میںبہترین نمونہ ہے۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت 80 میں ارشاد وفرمایا ''جس نے رسولﷺ کی اطاعت کی گویا کہ اس نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت کی ہے۔ ‘‘اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت 31 میں ارشاد فرمایا ''کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔‘‘ نبی کریم ﷺ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے کائنات کے آخری، الہامی اور ناطق وحی رہنما ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی شخص پر بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحی نہیں آئے گی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانی زندگی کے جملہ امور میں آپﷺ کی ذات کو ہمارے لیے حجت اور رہنما بنا دیا ہے۔ نبی کریمﷺ کے عمل کے ساتھ جس کا عمل ہم آہنگ ہو گا اس کا عمل بارگاہ الٰہی میں مقبول ہو گا اورجس کا عمل نبی کریمﷺ کے عمل کے مطابق نہیں ہوگا اس کے عمل کو رد کر دیا جائے گا۔ چنانچہ جب ہم ارکان اسلام پر نگاہ ڈالتے ہیں تو یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہمیں ان کی بجا آوری میں اپنی من مانی کرنے کی بجائے نبی کریمﷺ کے اسوہ کو اختیار کرنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص حسن نیت کے ساتھ نماز کی ادائیگی کرتے ہوئے ایک رکعت میں ایک رکوع کی بجائے دو رکوع ادا کرے اور دو سجدوں کی بجائے چار سجدے کرے تو ایسے شخص کی نماز قبول ہونے کی بجائے رد کر دی جائے گی ۔ اسی طرح کوئی شخص طواف کرتے ہوئے بیت اللہ شریف کے چار چکروں کی بجائے نو یا گیارہ چکر لگائے تو ایسے شخص کے طواف کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی شخص سعی کرتے ہوئے سات کی بجائے پانچ یا نو چکر لگا ئے تو اسکے عمل کو بھی مسترد کر دیا جائے گا۔ یہی معاملہ روزوں کا بھی ہے روزوں میں انسانوں کو سحری سے لے کر افطاری تک اپنی بھوک، پیاس اور جبلی خواہشات کو دبانا پڑتا ہے۔ اگر کوئی شخص ثواب کی نیت سے روزے کو طول دیتے ہوئے افطاری کے وقت کوعشاء تک لے جائے تو ایسے شخص کا روزہ اس کے لیے باعث اجر ہونے کی بجائے باعث وبال بن جائے گا۔
نبی کریم ﷺ کا طرز عمل ہمارے لیے ایک کسوٹی کی حیثیت رکھتا ہے ہمیں اپنے اعمال کی قبولیت کے لیے آپﷺ کی ذات سے ہمہ وقت رہنمائی حاصل کرتے رہنا چاہیے۔ جو شخص آپﷺ کی ذات سے رہنما ئی کا طلب گار ہوگا اور آپﷺ کے اسوہ پر چلنے کی کوشش کرے گا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے اعمال کو قبول ومنظور فرمائیں گے۔ اس کے بالمقابل حسن نیت رکھنے کے باوجود جس کا عمل عملِ رسولﷺ سے ہم آہنگ نہیں ہو گا اس کے اعمال قبول نہیں کیے جائیں گے۔ قرآن مجید میں نبی کریمﷺ کی مخالفت کرنے والوں کے لیے کڑی وعید سناتے ہوئے سورہ نور کی آیت 63 میں ارشاد فرمایا گیا ''پس ان لوگوں کو ڈر جانا چاہیے جو نبی کریمﷺ کے امر کی مخالفت کرتے ہیں کہ وہ فتنے کا نشانہ بنیں یا ان کو دردناک عذاب دیا جائے گا۔ ‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت 65میں ارشاد فرمایا '' اور تمہارے رب کی قسم ہے لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس کے اختلافات میں آپ ﷺ کو حاکم نہ مان لیںپھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔‘‘ اعمال کی قبولیت ہی سے انسان دنیا و آخرت کی بلندی سے ہمکنار ہو سکتا ہے اور اعمال میں پائی جانے والی کجی اور تشنگی کی وجہ سے دنیا وآخرت کی ذلت ورسوائی انسان کا مقدر بن جائے گی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں خلوص نیت کے ساتھ اسوہ رسولﷺ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہمارے اعمال قبولیت کے درجے سے ہمکنار ہو سکیں۔ آمین

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں