اگر انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہے تو کوشش کے باوجود شمار نہیں کر سکتا۔ انسان کے اپنے اندر اور اس کے گردوپیش میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطا کردہ بے شمار نعمتیں موجود ہیں۔ دھڑکتا ہوا دل، سوچنے والا دماغ، د یکھنے والی آنکھ، پکڑنے والا ہاتھ اور چلنے والے قدم‘ یہ تمام کی تمام اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتیں ہیں۔ ان نعمتوں کی قدر اس شخص سے پوچھنی چاہیے جو ان سے محروم ہے۔ اسی طرح جب ہم اپنے گردوپیش میں غور کرتے ہیں تو پیار کرنے والی بیوی، محبت کرنے والی اولاد، شفقت کرنے والے والدین، اچھا روزگار، اپنی سواری‘ یہ سب اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کی نعمتیں ہیں۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطا کردہ یہ نعمتیں ہمیشہ اس کے پاس رہیں لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی مرتبہ انسان اچانک یا بتدریج ان نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ عام طور پر زوالِ نعمت کا تجزیہ مادی حوالے سے کیا جاتا ہے جبکہ اس زوال کے بہت سے روحانی اسباب بھی ہوتے ہیں۔ انسان چونکہ کوتاہ بین ہے اس لیے بالعموم وہ روحانی وجوہ پر غور نہیں کرتا۔ قرآن مجید کے مطالعے سے نعمتوں کے زوال اور چھن جانے کے اسباب واضح ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر7 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بے شک میں تمہیں زیادہ دوں گا۔ اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے‘‘۔ اسی طرح سورہ نساء کی آیت نمبر147 میں ارشاد ہوا کہ ''اللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزاری اور ایمان پر رہو‘ اللہ تبارک و تعالیٰ بہت زیادہ قدر کرنے والا اور بہت زیادہ جاننے والا ہے‘‘۔
قرآن مجید کی سورہ نحل کی آیت نمبر112 میں ایک بستی کا ذکر کیا گیا‘ جس کے پاس امن اور رزق کی نعمت تھی لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکر ی کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان سے رزق کی نعمت کو چھین کر ان پر بھوک اور امن کی نعمت کو چھین کر ان پر خوف کو مسلط کر دیا۔ قرآن مجید کی سورہ قلم میں ان لڑکوں کا ذکر ہے جن کا باپ بہت سخی اور غریب پرورآدمی تھا۔ اس کی موت کے بعد اس کی اولاد نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنی پیداوار کو اپنے باپ کی طرح خرچ نہیں کریں گے ہم اپنے وسائل کو اس طرح خرچ نہیں کریں گے اور اپنے مال اور زراعت کو غریبوں اور مساکین سے بچا کر رکھیں گے؛ چنانچہ جب باغ کی کٹائی کا وقت آیا تو وہ صبح سویرے اپنے باغ کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب وہ اپنے باغ کی جگہ پر پہنچے تو انہیں محسوس ہوا کہ وہ کسی اجنبی جگہ پر آچکے ہیں۔ غور کرنے کے بعد انہیں سمجھ آئی کہ جگہ تو وہی ہے لیکن باغ اجڑ چکا ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر وہ اس حقیقت کو بھانپ گئے کہ ان کا باپ درست راستے پر تھا اور ان کی اس غلط روش کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان سے اپنی نعمت کو چھین لیا ہے۔ قرآن مجید میں مذکور واقعات کے ساتھ ساتھ احادیث مبارکہ سے بھی زوال نعمت کی وجوہ سے متعلق رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ بخاری شریف کی درج ذیل حدیث اس حوالے سے انتہائی سبق آموز ہے:
حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریمﷺ سے سنا، آپﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے، ایک کوڑھی، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کا امتحان لے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا۔ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ مجھ سے لوگ پرہیز کرتے ہیں۔ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہو گیا اور چمڑی بھی اچھی ہو گئی۔ فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم زیادہ پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ اونٹ! یا اس نے گائے کہی، حدیث کی سند کے ایک راوی اسحاق بن عبداللہ کو اس سلسلے میں شک تھا کہ کوڑھی اورگنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ کی خواہش کی تھی اور دوسرے نے گائے کی؛ چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا۔ پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ عمدہ بال اور موجودہ عیب میرا ختم ہو جائے، کیونکہ لوگ اس کی وجہ سے مجھ سے پرہیز کرتے ہیں۔ فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے بجائے عمدہ بال آ گئے۔ فرشتے نے پوچھا، کس طرح کا مال پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ گائے! کہ فرشتے نے اسے حاملہ گائے دے دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا۔ پھر اندھے کے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی روشنی دے دے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔ فرشتے نے ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے واپس دے دی۔ پھر پوچھا کہ کس طرح کا مال تم پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ بکریاں! فرشتے نے اسے حاملہ بکری دے دی۔ پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے، یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی، گنجے کی گائے بیل سے اس کی وادی بھر گئی اور اندھے کی بکریوں سے اس کی وادی بھر گئی۔ پھر دوبارہ فرشتہ اپنی اسی پہلی شکل میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین و فقیر آدمی ہوں، سفر کا تمام سامان و اسباب ختم ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں، لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ اور اچھا چمڑا اور مال عطا کیا، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر کو پورا کر سکوں۔ اس نے فرشتے سے کہا کہ میرے ذمہ حقوق اور بہت سے ہیں۔ فرشتے نے کہا، میں تمہیں پہچانتا ہوں، کہا: تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے۔ تم ایک فقیر اور قلاش تھے۔ پھر تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں عطا کیں۔ اس نے کہا کہ یہ ساری دولت تو میرے باپ دادا سے چلی آ رہی ہے۔ اس نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی اور اس نے بھی وہ کوڑھی والا جواب دیا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے، اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا، اپنی پہلی صورت میں آیا اور ایک بکری کا سوال کیا۔ اندھے نے جواب دیا کہ واقعی میں اندھا تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا۔ تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو، اللہ کی قسم جب تم نے خدا کا واسطہ دیا ہے تو جتنا بھی تمہارا جی چاہے لے جاؤ، میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا۔ فرشتے نے کہاکہ تم اپنا مال اپنے پاس رکھو، یہ تو صرف امتحان تھا اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے۔
مذکورہ بالا حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں کے چھن جانے کا سبب اللہ تبارک و تعالیٰ کی ناشکری اور اس کے عطا کردہ مال و وسائل میں اس کے تصرف اور احکامات کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ اگر انسان شکر گزاری کا رویہ اپناتا رہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی نعمتوں کو بڑھاتے رہتے ہیں اور جب وہ ناشکری کے راستے پر نکل پڑتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے اپنی نعمتوں کو چھین لیتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس حقیقت کا ذکر قرآن مجید کی سورہ انفال کی آیت نمبر53 میں یوں فرمایا ''بے شک اللہ ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کر اس کو بدل دے جب تک کہ وہ خود اپنی حالت کو نہ بدل دیں‘‘۔ یعنی جب تک کوئی قوم کفرانِ نعمت کا راستہ اختیار نہیں کرتی اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں کا دروازہ بند نہیں فرماتے۔ گویا کہ لوگ اپنی بد اعمالیوںکے ذریعے اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں اور اُس کی عطا کردہ نعمتوں سے محروم ہو جاتے ہیں؛ چنانچہ فرعون، قارون، ہامان، شداد اور ابولہب جیسے تمام لوگ مادی عروج سے اس لیے محروم ہوئے کہ انہوں نے ناشکری کا راستہ اپنایا۔ اس کے برعکس حضرت یوسفؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمانؑ، جناب طالوت، جناب ذوالقرنین اور خلفائے راشدینؓ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے زندگی کی آخری سعتوں تک بلندی اور سرفرازی اس لیے عطا فرمائی کہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی شکر گزاری کے راستے پر رہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں کا چھن جانا یقینا بہت بڑے المیے کی بات ہوتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں کے دوام اور تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں اس طرز عمل کو اپنانا چاہیے‘ جس کا ذکر کتاب و سنت میں کیا گیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!