ملی یکجہتی کونسل ملک کی دینی جماعتوں کا نمائندہ فورم ہے جس نے ملک میں فرقہ وارانہ اختلافات کے خاتمے کے لیے نمایاں کردار ادا کیا ‘اور معاشرے میں امن وامان کو برقرار رکھنے کے لیے ایک موثر ضابطہ اخلاق مرتب کیا۔ ملی یکجہتی کونسل کے ضابطہ ٔ اخلاق کے مطابق کسی بھی شخص کو اکابرین امت کے خلاف ہرزہ سرائی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، امہات المومنین، اہل بیت عظام ؓاور خلفائے راشدینؓ کا احترام تمام مکاتب فکر کے علماء کے نزدیک مسلّم ہے اور اگر کوئی شخص بھی ان کی تکفیر کرتا ہے تو ایسا شخص کفر کا ارتکاب کرتا ہے جب کہ صحابہ کرامؓ ، امہات المومنین ؓ،اہل بیت عظامؓ اور خلفائے راشدین ؓکی تنقیص کرنا حرام ہے۔ اس ضابطۂ اخلاق پر شیعہ اورسنی مکاتب فکر کے نمایاں علماء نے دستخط کرکے پوری امت کو مقدسات امت کے احترام پر جمع کیا۔ ملی یکجہتی کونسل ملک میں رونما ہونے والے اہم واقعات اور بدلتے ہوئے حالات پر بھی گہری نظر رکھتی ہے اور مذہبی اعتبار سے ان معاملات کا تجزیہ کرنے کے بعد اپنی متفقہ رائے کو میڈیا اور عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس گاہے گاہے ہوتے رہتے ہیں ۔ملی یکجہتی کونسل کی سپریم کونسل کا اہم اجلاس 9 مارچ کو ہوا۔ اجلاس میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق، جماعۃ الدعوۃ کے نائب امیر حافظ عبدالرحمن مکی ، تنظیم اسلامی کے رہنما حافظ عاکف سعید، جنرل حمید گل کے صاحبزادہ عبداللہ گل ‘جمعیت علمائے پاکستان کے امیر ابوالخیر زبیر ، پاکستان عوامی تحریک کے خرم نواز گنڈہ پور اور اسلامی تحریک کے مولاناساجد علی نقوی سمیت ملک کی بہت سی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ میں بھی حسب سابق اس اجلاس میں شریک تھا ۔اجلاس میں تین اہم امور زیر بحث رہے۔
1۔ دہشت گردی کا مسئلہ: تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام نے دہشت گردی کی مشترکہ طور پر بھر پور مذمت کی اور اس سلسلے میں کی جانے والی ہر کوشش کو خوش آمدید کہا تاہم اس حوالے سے کچھ تجاویز بھی پیش کی گئیںکہ اپریشن کی سمت بالکل واضح ہونی چاہیے اور اس کا مقصد ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ آپریشن کے نتیجے میں کسی مخصوص مکتبہ ٔ فکر یا مذہبی سوچ کو ہدف نہیں بنانا چاہیے۔ اسی طرح آپریشن کے نتیجے میں یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ کسی مخصوص قومیت کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ پختونوں کے حوالے سے سنی جانے والی اطلاعات اور خبروں پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اور ساتھ ہی اس بات کا بھی مطالبہ کیا گیا کہ اپریشن کو پوری قوت سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے استعمال کیا جائے اور جو شخص بھی دہشت گرد ی میں ملوث ہو اس کا تعلق خواہ کسی بھی مکتبہ فکر یا سیاسی جماعت سے ہو ‘ اثرورسوخ اور وابستگی سے بالاتر ہو کر اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ عسکری اداروں، دینی جماعتوں اور حکومت کے اشتراک عمل سے اس قسم کے آپریشن اپنے منطقی انجام تک پہنچائے جا سکتے ہیں۔ اگر پوری قوم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متفق ہو جائے تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا ملک ہمیشہ کے لیے دہشت گردی سے پاک اور صاف ہو جائے گا۔
2۔ حافظ سعید صاحب کی گرفتاری کا مسئلہ: حافظ سعید صاحب دفاع پاکستان کونسل اور ملی یکجہتی کونسل کے نمایاں رہنما اور جماعۃ الدعوۃ کے امیر ہیں ۔انہوں نے آزادی کشمیر کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے ہمیشہ اخلاقی ، عوامی اور سیاسی سطح پر بھر پور جدوجہد کی ہے۔ حافظ سعید کو صرف پاکستان میں احترام کی نگاہ سے نہیںبلکہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے قائدین اور کارکنان بھی انتہائی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حافظ سعید صاحب کی انسانیت کی خدمت کی سرگرمیاں بھی ہمہ وقت جاری وساری رہتی ہیں۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے ماضی میں سیلاب اور زلزلہ زدہ انسانیت کی بحالی میں کلیدی کردار اداکیا۔ ملک کے بڑے ہسپتالوں کے ایمرجنسی اور حادثات کے شعبہ جات میں مریضوں کو منتقل کرنے اور ان کو علاج ومعالجہ کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے بھی جماعۃ الدعوۃ کی فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ حافظ صاحب پر ماضی میں بھی مختلف طرح کے الزامات عائد کیے گئے لیکن اعلیٰ عدالتوں نے ان کو تمام الزامات سے بری کر دیا۔ حافظ سعید صاحب کو ایک مرتبہ پھر نظر بند کیا جا چکا ہے۔ ان پر تاحال کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ ملی یکجہتی کونسل نے مطالبہ کیا کہ اپنے ہی ملک کے ایسے شہری کو جو اسلام اور پاکستان کا محب اور ملک وملت کا بہی خواہ ہو اس کو کسی بھی طور پر قید وبند میں رکھنا مناسب نہیں ‘ چنانچہ انہیں فی الفور رہا کیا جائے۔
3۔ حرمت رسولﷺ کا مسئلہ: ان دونوں نکات کے ساتھ ساتھ ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس میں حرمت رسولﷺ کے مسئلے پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی اور اس حوالے سے ملی یکجہتی کونسل کے تمام قائدین نے اپنے اپنے خطبات میں بلاگرز کیس پر حکومت کی بے حسی کی بھرپور طریقے سے مذمت کی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے کردار کو بھر پور انداز میں سراہا گیا اور اس امرپر اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا گیا کہ وہ کام جو حکومت کو کرنا چاہیے تھاوہ کام جسٹس شوکت صدیقی نے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ازخود نوٹس لیکرکر دیا۔ نبی کریمﷺ کی حرمت کا مسئلہ آئینی اور قانونی طور پر طے شدہ ہے۔ جسٹس شوکت صدیقی صاحب نے اس مسئلے کو ازسرنو اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ انہوں اپنے بیانات میں یہ بات وضاحت سے کہی ہے کہ وہ لوگ دہشت گرد ہیں جو نبی کریمﷺ کی شان اقدس میںگستاخیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگو ں کو پکڑنا اور کیفر کردار تک پہنچانا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ اس کیس کے حوالے سے جو تازہ ترین رپورٹ سامنے آئی ہے وہ درج ذیل ہے:
کائنات کی مقدس ترین شخصیات کی بدترین گستاخی کے خلاف پیر کو ہونے والی سماعت کے بعد جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے چار صفحات پر مشتمل حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا ہے کہ حکومتی مشینری کو اعلیٰ سطح پر اس معاملے کی حساسیت کا ادراک ہو چکا ہے اور تمام متعلقہ اداروں کو اس حوالے سے ہدایات جاری کر دی گئی ہیں ۔ تمام خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی سوشل میڈیا پرکائنات کی مقدس ترین شخصیات کی گستاخی میں ملوث اصل ملزمان اور ان کے سہولت کاروں کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے نے تحقیقات میں ہونے والی پیش رفت سے عدالت کو آگاہ کیا ہے۔ وفاقی سیکرٹری اطلاعات نے عدالت میں ایک لیٹر جمع کروایا جو انہوں الیکٹرانک میڈیا کو نظریہ پاکستان، اسلام اور اخلاقی اقدار کی پابندی کرنے کے لیے لکھا ہے۔ وفاقی سیکرٹری آئی ٹی نے بھی عدالتی احکامات پر عمل درآمد کروانے کے حوالے سے رپورٹ عدالت میں جمع کروائی ہے۔ چیئرمین پی ٹی اے نے بھی عدالت میں رپورٹ دی ہے کہ کئی ایسے پیجز کو بلاک کر دیا گیا ہے جن پرگستاخانہ مہم چلائی جا رہی تھی۔ سوشل میڈیا میں گستاخانہ مواد کی روک تھام کے لیے متعلقہ سوشل میڈیا کے حکام سے بھی بات کی جا رہی ہے۔ عدالت نے آئی جی پولیس اسلام آباد سے پوچھا ہے کہ پولیس نے سوشل میڈیا میں گستاخی کے خلاف جنوری 2017 میں موصول ہونے والی درخواست پر ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی ۔ اس پر آئی جی نے کنفرم کیا کہ جنوری میں اندراج مقدمہ کے لیے درخواست تھانہ آئی 9میں موصول ہوئی تھی مگر ایف آئی آر درج نہ کرنے کی وجہ بتانے کے لیے کچھ وقت درکار ہے۔ عدالت نے اپنے تحریری حکم نامے میں وفاقی سیکرٹری اطلاعات کو ہدایت کی ہے کہ پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں آئین کے آرٹیکل 19 کی تشہیر کی جائے۔ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے نے اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھال لی ہیں۔ لہٰذا ڈی جی ایف آئی اے کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ایف آئی اے میں تحقیقات کی سرپرستی خود ذاتی طور پر کریں اور قانون کے مطابق جلد ازجلد مقصد کے حصول کے لیے سخت ترین کارروائی کریں۔ ڈی جی ایف آئی اے کو یہ بھی ہدایت کی جاتی ہے کہ کچھ عرصہ لاپتہ رہنے کے بعد واپس آنے والے ملزم بلاگرز(سلمان حیدر، احمدوقاص گورایہ، عاصم سعید، احمد رضا، ثمر عباس ) کے متعلق عدالت میں رپورٹ جمع کروائی جائے کہ وہ کن سرگرمیوں میں ملوث رہے اور کیسے پاکستان سے باہر گئے۔ کیس کی مزید سماعت 17 مارچ تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
اس ساری کارروائی کو پڑھنے کے بعد یقینا یہ امر باعث تشویش ہے کہ حکومت کے نوٹس میں یہ چیزیں موجود تھیں لیکن ان پر ایکشن نہیں لیا گیا جو لیا جانا چاہیے تھا۔ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس میں جن باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے حکومت اور پالیسی ساز اداروں کو بھی ان باتوں پر غور کرنا چاہیے اگر مذہبی جماعتیں ، حکومت اور ریاستی ادارے ایک نقطۂ نظر پر متحد ہو جائیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان حقیقی معنوں میں ایک کامیاب اور مثالی ریاست کی حیثیت سے نہ صرف یہ کہ داخلی اعتبار سے اپنے مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے بلکہ امت مسلمہ کی قیادت کافریضہ بھی سرانجام دے سکتا ہے۔