کامیاب اور عظیم لوگوں کے اوصاف میں سے ایک بڑا وصف جدوجہد کرنا ہے۔ کامیاب اور بڑے لوگ اپنے وقت کی قدروقیمت کو پہچانتے ہوئے اپنے زندگی کے لمحات کو کبھی ضائع نہیں کرتے۔ جو لوگ اپنی زندگی کے قیمتی ایام اور لمحات کو ضائع کر دیتے ہیں وقت بھی انہیں ہمیشہ کے لیے فراموش کر دیتا ہے۔ اس کے بالمقابل جو لوگ اس کی اہمیت اور قدروقیمت کو پہچانتے ہیں تاریخ ہمیشہ کے لیے ایسے عظیم لوگوں کو اپنے دامن میں محفوظ کر لیتی ہے ۔قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید اور اس کے نازل کردہ نظام کے ابلاغ کے لیے اپنی تمام تر توانائیوں اور صلاحیتوں کو استعمال کیا اور اعدائے دین اور اپنی اقوام کی مخالفت کے باوجود بھی اپنے عظیم مقاصد کی تکمیل کے لیے مسلسل جدوجہد میں مشغول رہے۔ اس حوالے سے بہت سی ابتلائیں ،آزمائشیں ، تکالیف، مخالفتیں اور مشقتیں جھیلنا پڑیںلیکن ان جلیل القدر انبیاء نے ان تمام تکالیف کو خندۂ پیشانی سے برداشت کیا اور بغیر کسی لڑکھڑاہٹ کے اپنے مشن پر سختی سے کاربند رہے۔
حضرت نوح علیہ السلام 950برس تک اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے رہے۔سورہ نوح کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انہو ں نے صبح وشام اپنی قوم کے لوگوں کواللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دی۔ قوم کے لوگ انہیں دیوانہ اور مجنوں کہتے رہے اور ان کی دعوت کو سن کر اپنے کانوں میں انگلیوں کو ٹھونس لیا کرتے تھے ۔ لیکن حضرت نوح ؑعزم اور استقامت کی چٹان بنے رہے اور950 برس تک تمام تکالیف اورمشقتوںکے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید اور پیغام کی نشرواشاعت میں مصروف رہے۔ اولوالعزم رسل اللہ میں سے حضرت ابراہیم ؑکی سیرت وکردار بھی میں ایک مثالی حیثیت کی حامل ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے ا للہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے لیے نمرود کی جلتی ہوئی چتا میں کودنا گوارا کر لیا۔ آپ ؑنے دعوت حق کے لیے بستی والوں کی مخالفت کو مول لے لیا اور اپنے والد کے ساتھ جدائی کو اختیار کر لیا ، اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکام کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی شریک زندگی حضرت ہاجرہ ؑکو ننھے بیٹے اسماعیل کی ہمراہی میں وادیٔ بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا ، اسماعیل ؑجب چلنے پھرنے اور دوڑنے کے قابل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کوخواب دکھلایاکہ آپ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکے گلے پرچھری چلا رہے ہیں ۔ آپ ؑنے جب حضرت اسماعیل ؑسے مشورہ کیا تو حضرت اسماعیل ؑنے عرض کی اے بابا! آپ کو جس بات کا حکم دیا جارہا ہے آپ اس پر عمل کر گزریے ‘ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔ حضرت ابراہیم ؑنے حضرت اسماعیل ؑکو پیشانی کے بل لٹایا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑکو پکار کر یہ بات کہی کہ آپ نے اپنے خواب کو سچا کر دکھا یا ہے ۔ حضرت ابراہیم ؑنے توحید کے ابلاغ کے لیے اپنی پوری زندگی کو وقف کیے رکھا اور اس حوالے سے زندگی کے اتار اور چڑھاؤ آپ کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ بن سکے۔
حضرت ابراہیم ؑ کی طرح حضرت موسیٰ ؑنے بھی مثالی کردار کا مظاہرہ کیا ۔ حاکم وقت فرعون کی رعونت ، قارون کاسرمایہ ، شداد کی جاگیر اور ہامان کا منصب آپ کے راستے میں رکاوٹ نہ بن سکا۔ حضرت موسیٰؑ ان طاقتور اور اثرورسوخ والے لوگوں کے رعب اور ہیبت سے لمحہ بھر کے لیے بھی مرعوب نہ ہوئے ۔آپ ؑ پوری زندگی اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید پر سختی سے کاربند رہے اور توحید کے ابلاغ اور دعوت دین کا فریضہ پوری شدومد سے انجام دیتے رہے۔ یہ تمام بااثر لوگ حضرت موسیٰ ؑکی دعوت سے منحرف رہے۔ حضرت موسیٰ ؑکی دعوت پر لبیک کہنے کی وجہ سے بنی اسرائیل کے لوگوں کو بھی فرعونیوں کے ظلم وتشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ فرعون کا ظلم بڑھتے بڑھتے یہاں تک جا پہنچا کہ اس نے اپنی بیوی حضرت آسیہ پر بھی زندگی کو تنگ کر دیا‘ یہاں تک کہ ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان تمام حالات کے دوران حضرت موسیٰ ؑپیہم جدوجہد میں مصروف رہے اور اپنی زندگی کا کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے۔
حضرت رسول اللہ ﷺ عزم، ہمت اور استقلال کی ایک آہنی دیوار ثابت ہوئے۔ آپﷺ نے اپنے کردار سابقہ ابنیاء علیہم السلام کی تاریخ کو بھی روشن فرما دیا۔ مکہ میں تنہا توحید کی دعوت کا آغاز کیا اور مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ کفار مکہ اور روسائے قریش کی مخالفتوں اور شقاوتوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ آپﷺ کے رفقاء پر حلقہ حیات کو تنگ کر دیا گیا، حضرت سمیہ ؓ کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا، حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حرا کی تپتی ہوئی ریت پر ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا گیا، حضرت رسول اللہﷺ خود بھی اعدائے دین کی شقاوتوں کو برداشت فرماتے رہے، آپﷺ کے راستے میں کانٹوں کو بچھایا گیا ، آپﷺ کو ہر طرح کی ایذاء دی گئیں ، آپﷺ کے وجود اطہر پر پتھر برسائے گئے اور طائف کی وادی میں آپ ﷺ کا وجودِا طہر لہو رنگ ہو گیا۔ حضرت جبرئیل امین پہاڑوں کے فرشتے کے ساتھ آئے اور عرض کی کہ اگر آپﷺ حکم کریں تو طائف کی اس وادی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے تو ایسے عالم میں آپﷺ نے جواب دیا اللہ میری قوم کے ہدایت دے یہ مجھے پہچانتے نہیں۔ نبی کریمﷺ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے لیے شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور ہونا گواراکر لیا۔ آپﷺ کو اپنا وطن کو چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ۔ نبی کریمﷺ نے سرزمین مکہ کو خیرباد کہہ کے مدینہ کو اپنا مسکن بنا لیا۔ کفار نے مدینہ طیبہ میں بھی آپﷺ کے ساتھ جارحیت کا مظاہرہ کیا۔ آپﷺ کو ادھیڑ عمر میں تلوار چلانے پر مجبور کیا گیا، آپﷺ نے بدر ، احد، خندق، خیبر، حنین کے معرکوں میں پیرانہ سالی کے عالم میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی سربلندی ، سرزمین مدینہ کے دفاع اور اسلامی ریاست کے پھیلاؤ کے لیے تلوار کو چلا دیا ۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی جہدمسلسل کی ایک لازوال داستان ہے۔ آپﷺ لمحہ بھر کے لیے نہ رکے ‘نہ جھکے اور نہ تھکے اور پوری شدومد سے اپنی منزل کی جانب گامزن رہے۔
حضرات صحابہ کرام ؓجو نبی کریمﷺ کے تلامذہ میں سے ہیں انہوں نے بھی نبی کریمﷺ کے راستے کو نہیں چھوڑا اور اپنے عظیم مشن کی پاسداری کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو صرف کیے رکھا۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓکو اپنے زمانۂ خلافت میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ مانعین زکوٰۃ ، جھوٹے مدعیان نبوت اور مرتدوں نے اسلامی ریاست کو مختلف طرح کے فتنوں سے دوچار کرنے کی کوشش کی ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ استقامت کی چٹان بنے رہے اور پیغمبر زماں حضرت رسول اللہ ﷺ کے مشن پر پوری شدومد سے کاربند رہے۔ آپ ؓ نے جہد مسلسل کے ذریعے ان تمام فتنوں کا قلع قمع کیا ۔ آپؓ نے اللہ تعالیٰ کے دین کو سربلند فرما یااور مدینہ طیبہ کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے عہد خلافت میں جہد مسلسل کے ذریعے اسلامی سلطنت کو دنیا کی عظیم ترین سلطنت بنا دیا۔ آپؓ نے قصرہ کے آتش کدے کو بجھا دیا‘ قیصر کی ہیبت کو مٹا دیا اور مصر کو اسلامی سلطنت کا حصہ بنا دیا۔ حضرت عمر فاروق ؓ رعایا کی خبر گیری کے لیے ہمہ وقت چاک وچوبند رہے۔ آپؓ دن کے وقت امور سلطنت کو انجام دیتے اور رات کے وقت رعایا کی خبر گیری کے لیے پوری سلطنت کا گشت فرمایا کرتے اور رعایا کے غریب، مجبوراور مفلوک الحال طبقے کی خبر گیری کے لیے اپنی تر صلاحیتوں کو وقف کیے رکھتے۔ حضرت صحابہ کرام ؓکے بعد آئمہ دین نے بھی استقامت اور جہد مسلسل کے راستے کو نہیں چھوڑا۔ حضرت امام مالکؒ نے خلیفہ وقت کی مخالفت کو سہہ لیا لیکن سچائی پر ڈٹے رہے ۔ آپؒ کے چہرہ مبارک کو کالا کیا گیا ، گدھے کی پشت پر بٹھایا گیا اور شہر مدینہ میں پھریا گیا۔آپؒ نے الفاط کہے ''جو مجھے جانتا ہے وہ جانتا ہے لیکن جو نہیں جانتا وہ سن لے میں انس کا بیٹا مالک ہوں ـ‘‘ ۔حضر ت امام احمد بن حنبل ؒ نے بھی عزم واستقامت کی نئی تاریخ کو رقم فرما لیا۔ پسِ دیوار زندہ چلے گئے، حلقہ ہائے زنجیر کے اسیر بنے رہے ، اپنے ہاتھوں میں ہتھ کڑی اور پیروں میں بیڑیوں کو ڈلوا لیا لیکن درست موقف سے منحرف نہ ہوئے ۔ حضرت حافظ ابن تیمیہ ؒ نے بھی عمر قید کی سزا کو خندہ پیشانی سے قبول کر لیا۔ لیکن اپنے عظیم مشن کی پاسداری کا فریضہ پوری قوت اور استقامت سے انجام دیتے رہے۔ تاریخ انبیائ، تاریخ خلفائے راشدین اور تاریخ آئمہ ہمیں جہد مسلسل کا سبق دیتی ہے ۔اسی طرح بانی پاکستان حضرت محمد علی جناح ؒنے اپنی قوم کے لوگوں کو ''کام ، کام اور فقط کام‘‘ کی تلقین کی ہے۔
آج المیہ یہ ہے ہمارے نوجوان اپنے وقت اور صلاحیتوں کو ضائع کرتے رہتے ہیں۔ کسی بھی قوم کے زوال کا سبب اس کے نوجوانوں کی توانائیوں اور صلاحیتوں کو ضائع کرنا ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے کھوئے ہوئے عروج کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنے ملک کو ایک مثالی ملک اور اپنی ملت کو ایک طاقتور ترین ملت بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں انبیاء علیہم السلام، خلفائے راشدین اور آئمہ دین کے راستے کو اختیار کرتے ہوئے اپنے افکار، نظریات اور درست راستے کی طرف پیش قدمی کرتے رہنا چاہیے اورا س سلسلے میں کسی بھی لمحے کو ضائع کیے بغیر اپنے عظیم مقاصد کے لیے اپنی توانائیوں کو صرف کرتے رہنا چاہیے ۔اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں درست راستے کی طرف چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔