سعودی عرب پاکستان کا دیرینہ دوست ملک ہے۔ پاکستان کے لوگوں کو سرزمین حجاز کی وجہ سے سعودی عرب کے ساتھ ایک خاص نسبت ہے۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی عمرہ اور حج کرنے کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں۔ وہاں پر موجود سہولیات اور انتظامات دیکھ کر ہر شخص سعودی حکومت کی کارکردگی اور نظم و نسق کا قائل ہو جاتا ہے۔ سعودی عرب گو ایک عرب ملک ہے لیکن اسلام کی نسبت سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ بھائی چارے کو انتہائی اہمیت دیتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات ہر دور میں نہایت خوش گوار رہے ہیں۔ شاہ فیصل مرحوم سے لے کر شاہ سلمان بن عبدالعزیر تک‘ ہر دور میں سعودی حکمران پاکستان کے بہی خواہ رہے اور مشکل کی ہر گھڑی میں انہوں نے پاکستان کا بھرپور انداز میں ساتھ دیا۔ قدرتی آفات، حادثات اور جنگوں کے دوران سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی ہے۔ بڑی تعداد میں پاکستانی سعودی عرب میں ملازمت بھی کر رہے ہیں اور وہاں سے زرمبادلہ اپنے ملک بھیج کر اپنے خاندانوں اور ملک کی معیشت کو توانا بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
سعودی عرب پاکستان کی خارجہ اور سیاسی ترجیحات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے اور مسئلہ کشمیر اور دیگر اہم بین الاقوامی معاملات میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بھرپور تائید بھی کرتا ہے۔ چند ماہ قبل جب رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری محمد بن عبدالکریم العیسیٰ پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے پاکستان سے غیر معمولی محبت کا اظہار کیا اور پاک و ہند کے مابین پائے جانے والے اہم تنازعات میں پاکستان کی مکمل حمایت کی۔ سعودی عرب سے پاکستان آنے والے وفود ہمیشہ خوشگوار یادیں چھوڑ کر جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک مرتبہ پھر سعودی
عرب کے دو معزز مہمان پاکستان تشریف لائے۔ سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور صالح بن عبدالعزیز بلند پایہ علمی شخصیت ہیں۔ گزشتہ سال جب مجھے سرکاری دورے پر سعودی عرب جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں پر ان کے ساتھ تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں انہوں نے بہت سے علمی اور فکری موضوعات پر بڑے ہی احسن انداز میں گفتگو کی۔ ان کی گفتگو سے اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہ تھا کہ وہ سعودی عرب کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ علمی اعتبار سے بھی پختہ شخضیت ہیں اور فقہ اسلامی کے نازک اور پچیدہ نکات کو سلجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ میرے ساتھ انہوں نے خصوصی شفقت کا مظاہرہ کیا اور والد گرامی کے لیے خوبصورت جذبات کا اظہار کیا۔ وزیر مذہبی امور نے اس موقع پر پاکستان کے ساتھ بے پناہ محبت کا اظہار کیا۔ حالیہ دنوں میں جب وہ پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے انہیں جذبات کا اعادہ کیا جن کا اظہار انہوں نے دورہ سعودی عرب کے موقع پر کیا تھا۔ وہ اپنی سرکاری اور حکومتی مصروفیات کی وجہ سے زیادہ دیر پاکستان نہ رک سکے اور جلد ہی واپس تشریف لے گئے۔ ان کے ہمراہ سعودی عرب سے آنے والے دوسرے اہم مہمان صالح بن محمد آل طالب امام حرم مکی سے ہیں۔ صالح بن محمد آل طالب آئمہ حرمین میں سے ایک ممتاز شخصیت ہیں‘ جنہیں دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم پر بھی بہت دسترس ہے اور امریکہ سے تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے انگریزی زبان پر بھی عبور رکھتے ہیں۔ 43 سالہ امام انتہائی خوشگوار شخصیت کے مالک ہیں اور ان کا لب و لہجہ اور انداز گفتگو سن کر سامعین ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ صالح بن محمد آل طالب نے اپنے دورے کے دوران مختلف مقامات پر بڑے ہی خوبصورت انداز میں مختصر خطابات فرمائے۔ ان کے خطابات کے مرکزی نکات تین تھے‘ انہی نکات کے گرد ان کی گفتگو گھومتی رہی۔ وہ اہم نکات جو انہوں نے بیان کیے درج ذیل ہیں:
1۔ دہشت گردی کا خاتمہ: سعودی عرب ایک عرصے سے دہشت گردی کے خلاف فکری جنگ لڑنے میں مصروف ہے اور سعودی عرب سے آنے والے علما اور مفکرین دین قیم کو دین وسط قرار دیتے ہیں اور اس دین کے ساتھ پوری طرح منسلک ہونے کو دہشت گردی کے خاتمے کا اہم ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دین اسلام امن اور آشتی کا دین ہے اور یہ دنیا کا وہ واحد دین ہے جو اسلامی ریاست میں بسنے والے تمام مذاہب کے پیروکاروں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے امور کو انجام دینے کی مکمل آزادی دیتا ہے۔ اسلام نے کبھی مذہبی بنیاد پر اپنے زیر سایہ رہنے والے شہریوں سے بنیادی انسانی حقوق نہیں چھینے۔ دہشت گردی اور نفرت تشدد پسندانہ رجحانات سے جنم لیتی ہے اور عام طور پر اس قسم کے رجحانات جہالت، لاعملی اور شریعت کی تعلیمات سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ امام کعبہ نے قرآن و سنت کی روشنی میں دہشت گردی کی بھرپور انداز میں مذمت کی اور اسلام کے پیغام امن، صلح اور رواداری کو اجاگر کیا۔ گزشتہ خطبہء حج کے دوران امام کعبہ شیخ السدیس نے بھی دہشت گردی کے خلاف احسن انداز میں اپنا موقف پیش کرکے عرفات میں جمع ہونے والے اُمت مسلمہ کے لاکھوں افراد کو نہایت خوبصورت اور دلنشیں پیغام دیا تھا۔
2۔ اتحاد امت: دورہء پاکستان کے دوران امام کعبہ نے دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اتحاد امت کی اہمیت کو بھی نہایت خوبصورت انداز میں اجاگر کیا۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ کتاب و سنت کی تعلیمات کے ہوتے ہوئے امت مسلمہ مختلف فرقوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اس تقسیم سے ہمارے دشمن نے ہمیشہ فائدہ اُٹھایا اور مسلمانوں کی سیاسی یکجہتی پر ضرب کاری لگانے کی کوشش کی۔ امامِ کعبہ نے اپنے خطابات، تقاریر اور آرا میں اتحاد امت کی اہمیت اجاگر کی اور اس کو امت کی طاقت کے لیے انتہائی اہم نکتہ قرار دیا۔ امام کعبہ نے اس موقع پر اہلِ علم‘ سیاست دانوں، دانشوروں اور عوام الناس کے سامنے یہ بات بھی رکھی کہ اتحادِ امت کا اصل ذریعہ اور سبب کتاب و سنت کی طرف مراجعت ہی ہو سکتی ہے اور کتاب و سنت کی طرف اگر پلٹا جائے اور اس سے وابستگی اختیار کی جائے تو امت مسلمہ متحد ہو سکتی ہے۔ فرقہ واریت کا اصل سبب شخصی، علاقائی، ذاتی اور گروہی تعصبات ہوتے ہیں۔ اگر ان تعصبات کو کتاب و سنت پر پیش کیا جائے اور دلیل کی پیروی کرنا شروع کی جائے تو اختلافات خودبخود تحلیل ہو سکتے ہیں۔
3۔ کتاب و سنت کی طرف مراجعت: اتحاد امت کا اصل ذریعہ اور سبب کتاب و سنت کی طرف مراجعت ہے۔ اس نکتے کو جہاں امام صالح آل طالب نے اتحاد امت کے باب میں بیان کیا‘ وہیں پر علیحدہ سے لوگوں کو کتاب و سنت کی طرف پلٹنے کی دعوت دی۔ انہوں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ ہمیں اپنے ذاتی مفادات، اغراض و مقاصد اور رسوم و رواج کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کتاب و سنت کی طرف پلٹ آنا چاہیے۔ اس موقع پر آپ نے قرآن و حدیث کی عظمت کو بھی اجاگر کیا اور اسلامی قوانین کے ان دو مراجع کی اہمیت کو لوگوں کے سامنے بیان کیا۔ آپ نے اپنے خطبات میں امت مسلمہ کو اس بات کی نوید سنائی کہ مسلمانوںکے لیے یہ بات باعث فخر ہے کہ ان کے پاس کتاب اللہ کے علاوہ حدیث پاک کی شکل میں بھی جتنی تعلیمات موجود ہیں وہ ان تک سند کے ذریعے پہنچی ہیں اور کسی امت کے حق پر ہونے کی یہ بہت بڑی دلیل ہوتی ہے کہ اس کے پاس جتنی بھی تعلیمات موجود ہوں ان کی مضبوط سند بھی ساتھ موجود ہو۔ علم الرجال اور اسناد کا علم ایک ایسا علم ہے جس پر امت مسلمہ بجا طور فخر کر سکتی ہے اور باآواز بلند دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے سامنے اس بات کو رکھ سکتی ہے کہ ہم بلا دلیل نہیں بلکہ اسناد کی بنیاد پر بات کرتے ہیں۔
شیخ صالح آل طالب کے اس دورے کے دوران میری بھی ان سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے انتہائی خوش گوار اور پُرجوش انداز میں مجھے خوش آمدید کہا۔ شیخ صالح آل طالب سعودی عرب سے پیغام امن و محبت اور پاکستان سے گہرے تعلقات کا ایک خوبصورت عزم لے کر آئے۔ اب جبکہ وہ اپنے ملک واپس جا رہے ہیں تو بہت سی خوشگوار یادوں کو اپنے پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں جن کی خوشبو ایک مدت تک محسوس کی جاتی رہے گی۔