"AIZ" (space) message & send to 7575

دینی جماعتوں کا نقطہ نظر

اپریل کے مہینے میں ملک بھر میں دینی جماعتوں کے بہت سے اجتماعات کا انعقاد ہوا۔ 2اپریل کو میری تنظیم جمعیت اہل حدیث اور قرآن وسنہ موومنٹ کے زیر اہتمام الٰہ آبادضلع قصور میں ایک بڑے اجتماع کا انعقاد ہوا۔ اس اجتماع میں ضلع بھر سے عوام الناس کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ استحکام پاکستان کے عنوان سے ہونے والے اس اجتماع میں میری تنظیم کے کارکنان اور رہنماؤں کے ساتھ ساتھ جماعۃ الدعوۃ کے رہنما قاری یعقوب شیخ اور جماعت اسلامی کے ضلعی رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ استحکام پاکستان کے اس اجتماع میں میں بشمول میرے تمام مقررین نے اس امر کا اظہار کیا کہ ملک کا استحکام نظریہ پاکستان اور اسلام کی بالا دستی کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر ملک میں اسلام کو حقیقی معنوں میں نافذ کر دیا جائے تو عوام کے مسائل باآسانی حل ہو سکتے ہیں۔ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے عوام کے دکھوں میں اضافہ ہوا ہے اور عوام کو تاحال ریلیف نہیں مل سکا۔ اس اجتماع میں میں نے عوام الناس کے سامنے اس بات کو رکھاکہ حضرت محمد علی جناح، حضرت علامہ محمد اقبال، مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر اور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین نے ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے برصغیر کے طول وعرض میں جدوجہد کی تھی۔پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کیا گیا تھا لیکن بوجوہ پاکستان حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست نہ بن سکا۔ پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے اورتحریک پاکستان کے قائدین کی جدوجہد کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے تمام دینی جماعتوں کو متحد ہو کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ 
اپریل کی 7،8اور 9 تاریخ کو جمعیت علمائے اسلام کی صد سالہ تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس اجتماع میں ملک بھر سے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اجتماع میں سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور اور امام کعبہ شیخ صالح بن محمد آل طالب نے بھی شرکت کی۔ کانفرنس میں دینی جماعتوں کے اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی بھی بھرپور انداز میں مذمت کی گئی۔ اجتماع کے توسط سے اس پیغام کو طول وعرض میں بسنے والے لوگوں تک پہنچایا گیا کہ اسلام اور دہشت گردی کا کوئی تعلق نہیں اور ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی زندگی پوری انسانیت کی زندگی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے اس اجتماع کے ملک کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا لیکن اس اجتماع کے ذریعے ریاست اور حکومت کو یہ پیغام ملا کہ تاحال دینی جماعتوں کو عوام کی ایک بڑی تعداد کی تائید حاصل ہے۔ 11اپریل کو دینی جماعتوں کے بڑے اتحاد دفاع پاکستان کونسل کا سربراہی اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ سربراہی اجلاس میں دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق ، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، جماعۃ الدعوۃ کے امیر مولانا عبدالرحمن مکی سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔ میں بھی اس سربراہی اجلاس میں شریک تھا۔ سربراہی اجلاس میں ملکی صورتحال پر غوروغوض کیا گیا اور ملک کی بقاء اور ترقی کو نظریہ پاکستان سے مشروط قرار دیا گیا۔ اس موقع پر دہشت گردی کی بھرپور انداز میں مذمت کی گئی اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ملک میں لائی جانے والی تبدیلی کی کوئی بھی کوشش آئین اور قانون کے دائرے میں ہونی چاہیے اور اس تبدیلی کو پر امن طریقے سے منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔ اجلاس میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے والوں کو اسلام اور انسانیت کا دشمن قرار دیا گیااور دو ٹوک انداز میں اس امر کا اعلان کیا گیا کہ دینی جماعتوں کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ اجلاس میں بھارتی جاسوس کلبھوشن کے لیے سزائے موت کا بھی مطالبہ کیا گیا اور ثبوت مل جانے کے بعد اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی رو رعایت اور لچک نہ دکھانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اجلاس میں اس امر پر بھی اتفاق کیا گیا کہ ملک کے مسائل کا اصل حل نظام مصطفی کے نفاذمیں مضمر ہے اور اس حوالے سے ملک کی تمام دینی جماعتوں کو مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔ اجلاس میں
بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور آبی جارحیت کے معاملے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت اور عسکری قیادت کو بھارت کے جارحانہ رویوں کا منہ توڑ جواب دینا چاہیے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی نرمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ جماعۃ الدعوۃ کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید ایک عرصے سے نظر بند ہیں ان کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ اس اجلاس میں حرمت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی غوروغوض کیا گیا اور اس امر کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والوں کو قانونی طریقے سے قرار واقعی سزا دلوانی چاہیے۔ اس امر کا تواتر کے ساتھ مشاہدہ کیا جا چکا ہے کہ جب تک ملک میں توہین رسالت کے قوانین کو موثر طریقے سے نافذ نہیں کیا جائے گا ملک میں ماورائے عدالت قتل کے ناخوش گوار واقعات کو نہیں روکا جا سکتا۔ ملک میں بدامنی اور افراتفری کو روکنے کے لیے 295-C کے قانون کو اپنی روح کے مطابق نافذ ہونا چاہیے تاکہ ملک میں بسنے والے مسلمانوں کو یقین ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کا تحفظ قانونی طور پر یقینی بنایا جا چکا ہے۔ دفاع پاکستان کونسل نے اس موقع پر رابطہ عوام مہم کو چلانے کا بھی فیصلہ کیا اور ملک کے 12 بڑے شہروں میں اجتماعات کے انعقاد کا بھی اعلان کیا گیا۔امید ہے کہ آنے والے دنوں میں دفاع پاکستان کونسل ماضی کی طرح ایک متحرک اتحاد کی حیثیت سے عوام الناس کے سامنے آئے گی اور عوام کو نظریہ پاکستان سے وابستہ کر کے ملک کے دفاع اور اس کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ 
12 اپریل کو پاکستان علماء کونسل نے کنونشن سنٹر اسلام آباد میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا جس میں پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر محمود اشرفی، جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حسین احمد سمیت ملک کے کئی اہم رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس پروگرام میں ملک کے باہر سے بھی بعض اہم مہمان تشریف لائے۔ پروگرام میں ملکی صورتحال پر غوروغوض کیا گیا۔ مجھے بھی اس پروگرام میں شرکت کا موقع ملا اور میں نے حسب سابق اس نکتے کو علماء اور عوام کے سامنے رکھنے کی کوشش کی کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے اور اس کی تعمیر وترقی اور بقاء کا راز اسلام کے نفاذ میں پنہاں ہے۔ اس موقع پر میں نے علوم اسلامیہ کی اہمیت اورافادیت کو بھی اجاگر کیا اور اس امر کو واضح کیا کہ اسلامی علوم زندگی کو احسن انداز میں گزارنے کے حوالے سے انسانوں کی بہترین انداز میں رہنمائی کرتے ہیں اور قرآن وحدیث کا علم انسانوں کو بہترین اور مثالی زندگی گزارنے کے اصول بتلاتا ہے ۔ عصر حاضر میںعلماء کو مساجد اور خانقاہوں میں تزکیہ نفس کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ اصلاح معاشرہ کے لیے بھی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ 
اپریل میں ہونے والے دینی جماعتوں کے ان اجتماعات میں ان دو نکات پر اتفاق نظر آیا:
1) نفاذ اسلام کی ضروت او ر اہمیت 
2) دہشت گردی کا خاتمہ
ان اجتماعات کے ذریعے حکومت ، ریاست اورا س کے ماتحت اداروں کو بڑے واضح انداز میں اس بات کا پیغام دیا گیا کہ دینی جماعتیں ملک میں تبدیلی کے لیے آئینی، قانونی اور پر امن طریقے سے جدوجہد کرنا چاہتی ہیں اور دہشت گردی ، فساد اور بے گناہ انسانوں کے قتل کے ساتھ دینی جماعتو ں کے ذمہ دار افراد کا کوئی تعلق نہیں ۔ دینی جماعتوں کے یہ اجتماعات مستقبل میں اشتراک عمل اور ان کے اتحاد پر منتج ہو سکتے ہیں اور یہ اجتماعات مستقبل میں ملک کو اسلامی فلاح ریاست بنانے کے نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آئندہ آنے والے مہینے دینی جماعتوں کی سیاست کے رخ کو متعین کریں گے اور اس رخ کے متعین کرنے میں اپریل میں ہونے والے اجتماعات بھی اپنا کردار ادا کریں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں