معاصر معاشروں کی طرح ہمارے سماج میں بھی مذہب کے حوالے سے مختلف آراء سامنے آتی رہتی ہیں۔ بعض لوگ دنیا کی زندگی کو اپنی مرضی کے ساتھ گزارنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اسلام کی پابندیاں پسند نہیں آتیں۔ اس کے بالمقابل بعض لوگ آخرت کی زندگی کے طلب گار ہوتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کا خوف ان کے دلوں میں موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیب ﷺ سے پیار کرنے والے ہوتے ہیں۔ایسے لوگ دین کے مطابق زندگی گزارنے پر آمادہ وتیار رہتے ہیں۔ مذہبی اور غیر مذہبی لوگوں کے درمیان فکری بحوث ہمیشہ جاری رہتی ہیں۔ مذہب کے ناقدین اور دین سے بیزار لوگ مذہب کو غیر اہم سمجھتے ہیں ‘ جب کہ مذہبی لوگ اس کو انسانیت کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ منصفانہ طور پر اگر مذہب کی ضرورت اور اہمیت کا جائزہ لیا جائے تو مذہب کے بہت سے فوائد سامنے آتے ہیں۔ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1۔ عقائد کی اصلاح: اسلام کی آمد سے قبل انسانوں کی اکثریت ہر طاقت ور ضرررساں اور فائدہ مند چیز کو اپنا معبود تصور کرتی تھی۔ تاریخ انسانیت اور معاصر معاشروں میں اس طرح کی مثالیں عام ہیں کہ انسانوں نے اجرام سماویہ، درخت ، پتھروں، بتوں اور انسانوں کو اپنا رب سمجھ کر ان کی پوجا کی۔ آج بھی ہندو معاشروں میں لوگ جانوروں اور حیوانات کو دیوتاؤں کا درجہ دیتے ہیں اور قسم ہا قسم کے بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ اسلام نے انسانیت کی درماندگی اور وحشت کا علاج کیا اور ان کو غیر اللہ کے آستانے سے اُٹھا کر اللہ رب العالمین کے آگے جھکنے کا سبق دیا۔
2۔ شرعی قوانین: اسلام کے ناقدین شرعی سزاؤں کو معاشرے کے لیے ضرر رساں سمجھتے ہیں اور ان سزاؤں پر کھلے عام تنقید کرتے نظر آتے ہیں ۔جب ہم ان سزاؤں کی غرض وغایت پر غور کرتے ہیں تو اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ یہ سزائیں بدامنی پھیلانے والے بدنیت اور فسادی عناصر کے لیے ہیں اور معاشرے میں بسنے والے پر امن اور اصلاح پسند افراد کو ہمیشہ ان سزاؤں سے فائدہ پہنچا ہے۔ چنانچہ قتل کی سزا سے انسانی جان کو تحفظ حاصل ہوتا ہے‘ زنا کی سزا سے انسان کا نسب اور عورتوں کی حرمت محفوظ رہتی ہے‘ قذف کی سزا سے پاک دامن عورتوں اور انسانوں پر جھوٹی تہمت لگانے کے دروازے بند ہوتے ہیں‘ شراب کی حد سے انسان کی عقل کی حفاظت کا اہتمام ہوتا ہے اور چوری کی حد سے انسانوں کے اموال محفوظ ہوتے ہیں۔ جو لوگ ان سزاؤں کو معاشرے کے لیے ضرر کا سبب سمجھتے ہیں وہ لوگ درحقیقت اپنی خواہشات کو منفی طریقے سے پورا کرنا چاہتے ہیں ۔
3۔ نسب اور حیا داری کا تحفظ: اسلام کی وجہ سے انسانوں کے نسب کو تحفظ حاصل ہوا اور آزادانہ اختلاط اور خواہشات کو اپنے من پسند طریقے سے پورا کرنے کے دروازے بند ہوئے۔ اگر مذہبی قوانین موجود نہ ہوتے تو نکاح اور خاندانی نظام کے تصورات سے بے بہرہ انسان جنگلی جانوروں کی طرح زندگی گزار رہے ہوتے۔ خاندانوں کا وجود نیست ونابود ہو چکا ہوتا اور محرم رشتہ داروں کی عزت اور وقار بھی محفوظ نظر نہ آتے۔ اسلام نے محرم رشتہ داروں کے تقدس کا جو تصور پیش کیا اس کی وجہ سے دنیا کے تمام معاشروں میں محرم رشتہ داروں کی عزت اور توقیر میں اضافہ ہوا۔
4۔ طلاق کا حق: اگرچہ خاندانی نظام میں شوہر اور بیوی کے درمیان ہم آہنگی کو برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے لیکن بسا اوقات معاملات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ خاندانوں کو باقی رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ ایسی صورت میں اسلام نے انسانوں کو علیحدگی کا ایک پروقار طریقہ عطا کیا۔ اسلام کے عائلی قوانین کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا بھر کے معاصر معاشروں نے عدالتی اور سماجی سطح پر طلاق کے قوانین بنائے اور علیحدگی کو جائز اوردرست عمل قرار دے کر انسانوں کی عزت اوروقار کا تحفظ کیا گیا۔ بہت سے مذاہب کے پیروکاروں کے ہاں طلاق کو بدکرداری کی علامت سمجھا جاتا تھا اور طلاق دینے والے شخص اور مطلقہ عورت کو بدکردار قرار دیا جاتا تھا۔ لیکن اسلام کے ان قوانین کی بدولت انسانوں کو نکاح کے بندھن سے آزاد ہونے کے لیے ایک محفوظ ، باعزت اور پر امن راستہ حاصل ہوا۔
5۔ مجبوری کے تحت کیے گئے جرم پر مواخذہ نہ ہونا: اسلام نے دنیا پر جو احسانات کیے ان میں سے ایک بڑا احسان یہ بھی ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق کوئی شخص اس وقت تک مجرم نہیں گردانا جا سکتا جب تک وہ اپنی مرضی سے جرم کا مرتکب نہیں ہوتا۔ چنانچہ قرآن مجید کی سورہ نور کی آیت نمبر 33 کے مطابق مجبوری کے تحت جسم فروشی کا دھندہ کرنے والی عورتوں کو مجرم قرار نہیں دیا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں''اور جو ان عورتوں کو مجبور کرے گا تو بے شک اللہ تعالیٰ ان کے مجبور کیے جانے کے بعد بہت بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔ ‘‘
6۔ دہشت گردی اور قتل وغارت گری کی مذمت : اسلام نے پر امن اور اصلاح پسند انسانوں کے خون کی حرمت کو غیر معمولی اہمیت دی۔ نبی کریمﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے دن انسانوں کی جان کی حرمت کو حرم پاک اور ایام حج کی حرمت کے برابر قرار دیا۔ قرآن مجید کی سورہ مائدہ کی آیت نمبر 32 کے مطابق ''جس نے ایک انسان کا قتل کیا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا اور جس نے ایک زندہ کیا اس نے پوری انسانیت کو زندہ کیا۔ ‘‘اسی طرح اسلام نے قانون قصاص کو مقرر کر کے قتل کے دروازے کو بند کر دیا۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر178 میں ارشاد ہوا'' اے ایمان والو! تم پر مقتولین کا قصاص لینا فرض کر دیا گیا ہے ۔ چنانچہ اگر آزاد قتل کرے تو بدلے میں آزاد کو قتل کیا جائے گا، غلام قتل کرے تو بدلے میں غلام کو قتل کیا جائے گا،عورت قتل کرے تو بدلے میں عورت کو قتل کیا جائے گا۔ ‘‘ ان قوانین پر غوروخوض کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام انسانوں کی جان کو تلف کرنے کے لیے نہیں بلکہ ان کی جان کے تحفظ کی ضمانت دینے آیا ہے۔
اسلام کے ناقدین اسلام کے تصورجہاد پر اعتراض کرتے ہوئے اس کو دہشت گردی کی جڑ قرار دیتے ہیں ۔یہ لوگ اس حقیقت سے غافل ہیں کہ قوم اور ملت پر کئی مرتبہ ایسے نازک ادوار آجاتے ہیں کہ جب جارحیت کا ارتکاب کرنے والا لاؤ لشکر ان کے مقابلے میں افرادی قوت وسائل اورعسکری طاقت کے لحاظ سے برتر ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ملک و ملت کے تحفظ کے لیے جذبہ جہاد کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر جذبہ جہاد نہ ہو تو چھوٹی اقوام کو مغلوب کرکے ان کو غلامی کی زندگی میں دھکیل دینا کچھ مشکل نہ رہے۔ دنیا بھر میں آزادی کے لیے چلنے والی تحریکوں میں اس جذبے نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ چنانچہ فلسطین، کشمیر اور دیگر بہت سے مقامات پر مسلمان اپنے سے کئی گنا بڑی طاقتوںکے خلاف اسی جذبے کی وجہ سے برسر پیکار ہیں ۔اسی جذبے کی وجہ سے 1965ء میں پاکستانی قوم نے لاہور اور سیالکوٹ کے ـمحاذوں پر بھارتی جارحیت کا پوری شدت سے مقابلہ کیا۔ آئندہ بھی کبھی اگر ملک وملت کو خطرہ لاحق ہوا تو یہی جذبہ ملت کے دفاع اور بقاء کے لیے بنیادی کردار ادا کرے گا۔
بعض لوگ اسلام پر اعتراض کرتے ہوئے توہین مذہب کے معاملات کوآزادیٔ اظہار اور حریت فکر کے منافی قرار دیتے ہیں ۔ ایسے لوگ درحقیقت غیر منصفانہ رویوں کا مظاہرہ کرتے اور دوہرے معیار کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی عزت ، آبرو اور اپنے دائرہ کار میں بسنے والے انسانوں کی حرمت کے لیے تو انتہائی بے تاب اور بے چین نظر آتے ہیں لیکن پیغمبر اسلام حضرت رسول اللہﷺ کی حرمت کے بارے میں دوہرے معیار اختیار کر لیتے ہیں۔ نبی کریمﷺ کی توہین کا ارتکاب کرنا ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے۔ اگر توہین عدالت اور ہتک عزت کے قوانین مشرق ومغرب میں قابل قبول اور قابل عمل ہیں تو توہین رسالتﷺ کا مسئلہ ان سے کہیں زیادہ حساس نوعیت کا ہے اور نبی کریمﷺ کی حرمت کو بھی ہر اعتبار سے قانونی تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔ بسا اوقات توہین مذہب کے حوالے سے معاشرے میں بعض نا خوش گوار واقعات بھی رونما ہوتے ہیں۔ اس قسم کے ناخوش گوار واقعات کا درحقیقت مذہبی طبقات اور ذمہ دار مذہبی اداروں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔بلکہ اس کا بڑا سبب حکومتوں کی وہ غفلت ہے جس کی وجہ سے توہین مذہب کا ارتکاب کرنے والے کی قانونی گرفت نہیں کی جاتی اور بعض جذباتی مسلمان دین اور مذہب کی محبت کی وجہ سے انتقامی کاروائیوں پر اتر آتے ہیں ۔اگر حکومت اور ریاست مسلمانوں کو اس بات کا یقین دلائے کہ توہین مذہب کے حوالے سے ان کا رویہ منصفانہ اور اللہ اور نبی ﷺ کی محبت پر مبنی ہو گا تو یقینا معاشرے میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والے عناصر کی تعداد انتہائی کم ہو سکتی ہے اور ان قوانین کی عملی تنفیذ سے ناخو ش گوار واقعات میں بھی غیر معمولی کمی ہو سکتی ہے۔ اسلام انسانیت کے عقیدے کے سلجھاؤ، ان کی زندگی اور اموال کی بقا اور ان کی عز ت اور آبرو کے تحفظ کا پیغام لے کر آیا لیکن بعض لوگ اس عظیم مذہب کی حکمتوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ چنانچہ بلا دلیل اسلام پر تنقید کرتے رہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور انہیں مذہب پر تنقید کرنے کی بجائے بعض غافل اور بے عمل انسانوں کے رویوں پر جرح کرنی چاہیے ۔ دین پر تنقید کرنے والوں کو تعصب اور جانبداری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے پیغامات اور ارشادات کی حکمتوں کو سمجھتے ہوئے مذہب کی افادیت اور اہمیت کو تسلیم کرلینا چاہیے۔