علم اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی عطا ہے۔ گو بعض لوگ سرمائے کوعلم پرفوقیت دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرمائے اور علم کا آپس میں کوئی موزانہ نہیں۔ سرمایہ استعمال سے کم جب کہ علم استعمال سے بڑھتا ہے۔ سرمایہ چرایا جا سکتا ہے جب کہ علم چوری نہیں ہو سکتا۔ سرمائے کی حفاظت انسان کو کرنی پڑتی ہے جب علم خود انسان کا محافظ ہے۔علم کی فضیلت کے حوالے سے قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے بہت سے واضح ارشادات موجود ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ذی العقول مخلوقات میں سے گو انسانوں کو فرشتوں اور جنات کے بعد پیدا کیا۔ لیکن حضرت آدم علیہ السلام کو زیور علم سے آراستہ کرنے کے بعد فرشتوں کو ان کے سامنے جھکنے کا حکم دے علم کی فضیلت کو ثابت کر دیا۔اسی طرح قرآن مجید میں مثالی حکمرانوں کے نمایاں اوصاف میں علم شامل کیا گیا اور حضرت طالوت کے انتخاب میں علم اور طاقت کو مال پر فوقیت دے کر علم کی فضیلت کو واضح کر دیاگیا۔
علم اللہ تبارک وتعالیٰ کی معرفت اور خشیت کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فاطر کی آیت نمبر 28میں ارشاد فرمایاکہ ''بے شک اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے علم رکھنے والے اُس سے ڈرتے ہیں۔‘‘ اسی طرح سورہ مجادلہ کی آیت نمبر11 میں ارشاد ہوا ''اللہ تبارک وتعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور جن کو علم دیا گیا ہے ان کے درجے بلند کرے گا۔‘‘ علم سے انسان کو آگاہی، شعور، مشاہدے اور تجزیے کی صلاحیت حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح درست عقائد اور صحیح اعمال کو جاننے کے لیے بھی صحیح علم کا ہونا ضروری ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے علماء کو جو منصب عطا کیا ہے اس سے کئی مرتبہ سماج میںبسنے والوں کی اکثریت آگاہ نہیں ہوتی اور تاسف کا مقام یہ ہے کہ کئی مرتبہ خود علماء بھی اپنے مقام اور منصب کو نہیں پہچانتے۔ خالص دنیا دار انسان کے مقابلے میں عالم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو فوقیت عطا فرمائی ہے اگر صحیح معنوں میں سماج اورعلماء کو اس کا ادارک ہو جائے تو معاشرے میں ایک بڑی انقلابی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔ جہاں حصول علم کی تگ ودو کرنا نہایت ضروری امر ہے وہاںعلم حاصل کرنے کے بعد اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا اُس سے بھی کہیں اہم ہے۔ علماء کی بنیادی ذمہ داریاں کیا ہیں اس حوالے سے کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بہت سے اہم نکات سامنے آتے ہیںجن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1۔ رضائے الٰہی کے حصول کے لیے علم کا حاصل کرنا: علم کے حصول کا مقصد صرف نمودونمائش نہیں بلکہ صرف رضائے الٰہی کا حصول ہونا چاہیے۔جو شخص رضائے الٰہی کی بجائے حصول شہرت کے لیے علم حاصل کرتا ہے ایسا شخص احادیث طیبہ کے مطابق ناکام ونامراد ٹھہرے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کے دن شہرت طلب عالم پر اس حقیقت کو واضح کریں گے کہ اس نے دنیا میں شہرت کے حصول کے لیے علم کو حاصل کیا چنانچہ اسے دنیا میںبڑا عالم کہہ دیا گیا اور اس کے بعد ایسے شخص کو جہنم میں داخل کر دیا جائے گا۔
2۔ علم کے مطابق عمل کرنا: عالم کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے علم کے مطابق عمل کرے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ صف کی آیت نمبر 2 اور 3 میں ارشاد فرمایا''اے ایمان والو! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں؟اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک یہ بہت بڑی ناراضگی کی بات ہے کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں ہو۔ ‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں علمائے یہود کا ذکر کیا اور ان کے علم کو گدھے پر لادے جانے والے بوجھ کی مثل قرار دیا۔ اس لیے کہ علمائے یہود اس علم پر عمل نہیں کرتے تھے جو وہ توریت میں پڑھتے تھے۔
3۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر: علماء کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ علم کے ابلاغ میں مصروف رہیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے رہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مائدہ کی آیت نمبر 78 اور 79میں ارشاد فرمایا کہ ''بنی اسرائیل کے لوگوں میں سے جنہوں نے کفر کیاان پر داؤد ؑاور عیسیٰ ؑکی زبان سے لعنت کی گئی یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے۔وہ ایک دوسرے کو اس برائی سے نہیں روکتے تھے جو وہ کر لیتے تھے۔ ‘‘ علمائے حق کسی دباؤ اور لالچ کو قبول کیے بغیرقرآن وسنت میں مذکور علم کے مطابق لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے اور برائی سے روکتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ یقینا قرآن مجید کی زبان میں خیر الامم کے مقام پر فائز ہیں۔ اللہ تبار ک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 110میں ارشاد فرماتے ہیں ''تم بہترین اُمت ہو جنہیں لوگوں کے لیے نکالا گیا ے تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہیں۔‘‘
4۔ دین حق کی بات کو نہ چھپانا:عالم حق کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ دینی علم جو اس کو حاصل ہوا ہے اس کو بغیر کسی کمی بیشی کے لوگوں تک منتقل کرے اور اس حوالے سے نہ تو حق کو چھپائیں اور نہ ہی حق اورباطل کی آمیزش کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے علم کو چھپانے والے کی قرآن مجید میں بڑے سخت انداز میں مذمت کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت 159نمبر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ''بے شک جو لوگ کھلی نشانیوں اور ہدایت میں سے چھپاتے ہیں جو ہم نے نازل کی ہیں اس کے بعد کہ اس کو ہم لوگوں کے لیے کتاب میں کھول کر بیان کر چکے ہیں تو انہیں لوگوںپر اللہ تعالیٰ اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ ہی کی آیت نمبر 174میں ارشاد فرمایا ''بے شک وہ لوگ جو چھپاتے ہیں اس چیز کو جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی کتاب میں سے نازل کی ہے اور اسے تھوڑی قیمت کے بدلے بیچ دیتے ہیں ‘ بے شک وہ لوگ اپنے پیٹوں میں آگ کے سوا کچھ نہیں بھر رہے۔ ور اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کے دن نہ ان سے کلام کرے گا نہ ان کو پاک کرے گا۔‘‘
5۔ صبر کرنا: علماء کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کا ابلاغ کرتے ہوئے پیش آنے والی مشکلات پر صبر کرنا چاہیے اور اس حوالے سے اگر پیغام حق پہنچانے کے دوران حاکم وقت یا کسی بااثر فرد کی طرف سے انہیں تکلیف یا دھمکی کا نشانہ بننا پڑے تو انہیں پیغام حق کے ابلاغ کو ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ عصر میں یہ بات کہی ''بے شک انسان خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے‘ اور حق بات اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔‘‘ حق بات اور صبر آپس میں لازم وملزوم ہیں جب بھی حق بات کہی جاتی ہے بعض لوگوں کے مفاد ات یا انا پر ضرب پڑتی ہے ۔ چنانچہ وہ اپنے مفاد یا انا پر لگنے والی ضرب کی وجہ سے کئی مرتبہ مشتعل ہو کر انتقامی کارروائیوں پر اتر آتے ہیں۔ ان انتقامی کارروائیوں کے نتیجے میں کئی مرتبہ علمائے حق کو مختلف طرح کی صعوبتوں کو سہنا پڑتا ہے اور کئی مرتبہ وہ جان تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ لیکن علمائے حق اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے لیے کیے جانے والے کام کی وجہ سے پیش آنے والے مصائب پر صبر کرتے رہتے ہیں۔
6۔ پرحکمت انداز میں دعوت دینا:دعوت دین دیتے ہوئے علماء کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ حکمت عملی سے کام لیں اور لوگوں کو دین سے منحرف کرنے کی بجائے پیار اور محبت سے دین کی طرف راغب کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت نمبر125 میں ارشاد فرمایا''اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور ان لوگوں سے اچھے طریقے سے بحث کرو۔‘‘سورہ طٰہٰ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا ہارون علیہ السلام کا ذکر کیا کہ اللہ نے جب ان دونوں کو فرعون کے پاس بھیجا تو ان کو نصیحت فرمائی کہ اس سے نرم انداز میں گفتگو کرنا شایدکہ وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے۔فرعون اللہ کا باغی اور سرکش تھا جب اُس کے ساتھ احسن اور نرم اندا ز میںبات کرنے کی تلقین کی جاتی ہے تو کسی اور کے ساتھ بھی تنزیہ اور تکلیف پہنچانے والا رویہ اختیار کرنے کی گنجائش نہیںہو سکتی۔
عصر حاضر کے علماء اگر اپنے منصب کو پہچان لیں اور اپنی ذمہ داریوں کو کتاب وسنت کی روشنی میں ادا کرنا شروع کر دیں تو یقینا معاشرے سے منکرات کا بہت حد تک خاتمہ ہو سکتا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کا دین ہر سمت پھیل سکتا ہے۔ معاشرے کو بھی علماء کی تحقیر کرنے کی بجائے انہیں وارثانِ نبوت کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے اور ان کی طرف سے آنے والی نصیحت کو اپنی ذات پر تنقید سمجھنے کی بجائے اپنے لیے خیر خواہی کا ایک پیغام سمجھنا چاہیے۔ اگر علماء اور عوام کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوجائے تو یقینا ہمارے معاشرے سے بہت سی برائیوں اور کمزوریوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔