انسانی سماج اور قرآن مجید کا مطالعہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ انسانوں کے درمیان معیشت کے اختلاف اور طبقاتی تفاوت کے پس منظر میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظیم حکمت پنہاں ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب زمین پر انسان کو آباد کیا تو اس کے لیے زندگی کی ضروریات‘ سہولیات اور سامان کی بھی تنظیم فرمائی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ اعراف کی آیت نمبر10 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور بلاشبہ ہم نے ٹھکانہ دیا تمہیں زمین میں‘ اور ہم نے بنائے تمہارے لیے اس میں زندگی کے سامان بہت ہی کم تم شکر کرتے ہو‘‘۔
ہم کو زمین پر آسودہ، پُرامن، باسہولت اور محفوظ زندگی گزارنے کے لیے بہت سی اشیا کی ضرورت ہے۔ تن کو ڈھانپنے کے لیے لباس کی‘ کھانے کے لیے خوراک کی‘ پینے کے لیے صاف پانی کی اور رہائش کے لیے گھر بار کی ضرورت ہے۔ اسی طرح انسان کو تعلیم، تعلم، شادی بیاہ، خوشی غمی کے لیے بھی بہت سے سازوسامان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس تمام سازوسامان کا راس المال زمین ہی کے اندر موجود ہے۔ لیکن اس راس المال کو ایک خوبصورت آراستہ اور مزین حالت میں تبدیل کرنا ایک محنت طلب کام ہے‘ جس کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کو مختلف پیشوں میں بانٹ دیا۔ درزی لباس کی ضرورت پورا کرنے والا، موچی جوتے بنانے والا، کسان سامان خورونوش کے لیے کھیتی باڑی کرنے والا، مزدور رہائش کا بندوبست کرنے والا ہے۔ پیشوں اور معیشت کے درمیان اس اختلاف کی وجہ سے انسانوں کی جملہ ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ سرمایہ دار بالعموم اپنے سرمایے کے نشے میں دھت رہتے ہیں، لیکن وہ اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں کہ جو لباس وہ زیب تن کرتے ہیں، جو جوتے وہ پہنتے ہیں اور جس مکان میں وہ رہتے ہیں‘ درحقیقت محنت کش طبقات کی محنت کی وجہ سے ہی ان کو حاصل ہوتے ہیں۔ معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے مختلف طرح کے پیشوں کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ معاشرے کے خوشحال تاجر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ معاشرے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنی پیشہ ورانہ خدمات کو کسی نہ کسی طریقے سے انجام دیتے ہیں۔ ڈاکٹر انسان کے علاج معالجہ کی سہولیات، جبکہ انجینئر ہمارے شہروں اور جدید گھروں کے تعمیر اور تزئین وآرائش میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ تاجروں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پیشہ ور طبقات کے ساتھ ساتھ کم آمدن والے محنت کش طبقات بھی معاشرے کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ ان کم آمدن والے پیشوں سے وابستہ لوگوں کو کئی مرتبہ لوگ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا مقام اللہ تعالیٰ کی نظر میں انتہائی بلند ہے۔ حدیث پاک میں آتا ہے ''محنت کش اللہ کا دوست ہے‘‘۔ محنت کشوں کے ذمہ بہت سے اہم کام ہیں جنہیں محنت کش افراد کو احسن طریقے سے کرنا چاہیے۔ اسی طرح معاشرے اور حکومت کو بھی محنت کشوں کے حقوق ادا کرنا چاہییں۔ اگر محنت کش اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کریں اور معاشرہ ان کے حقوق کو اچھے طریقے سے ادا کرے تو یقینا ہمارا سماج ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔ محنت کشوں کی اہم ذمہ داریاں درج ذیل ہیں:
1۔ ایمانداری: محنت کشوں کو ایمانداری اور دیانت داری سے اپنا کام کرنا چاہیے اور مالک کے مال اور اپنے کام کے حوالے سے خیانت کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔ انسان جب اپنی مزدوری میں کمی‘ کوتاہی یا بددیانتی کرتا ہے‘ اسی طرح جب وہ اپنے مالک یا ادارے کی حق تلفی کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے افعال کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ کئی مرتبہ انسان کو اپنی بددیانتی کی وجہ سے دنیا ہی میں بدنامی اور سزا کو سہنا پڑتا ہے۔ کئی مرتبہ انسان دنیا میں تو قانون کی گرفت سے بچ نکلتا ہے لیکن وہ بددیانتی کی وجہ سے آخرت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب کی لپیٹ یا گرفت میں آجائے گا۔
2۔ احساس ذمہ داری: محنت کشوںکو ایمانداری کے ساتھ ساتھ احساس ذمہ داری کا بھی مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کئی مرتبہ محنت کش لوگ تساہل اور غفلت کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے اپنا کام تاخیر سے انجام دیتے ہیں‘ جس کی وجہ سے کام کا نقصان ہوتا ہے اور محنت کش کی اپنی معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ اس کی محدود آمدن کی وجہ سے جب اس کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں تو معاشرے میں جرائم پیشہ اور گداگر لوگ منظر عام پر آتے ہیں۔ اگر محنت کش لوگ احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کریں تو معاشرہ جرائم پیشہ افراد اور پیشہ ور گداگروں سے پاک ہو سکتا ہے۔
3۔ ناجائز کاموں سے احتراز: محنت کشوں کو اپنی آمدن کے حوالے سے اللہ تبارک و تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے اور اپنی غربت کی وجہ سے ناجائز کاموں میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔ شراب کی بھٹیوں، جوا خانوں اور قحبہ گری کے اڈوں پر کام کرنے سے ہر صورت بچنا چاہیے اور انہیں اللہ تبارک و تعالیٰ سے خوراک اور رزق طلب کرتے رہنا چاہیے۔
جہاں پر محنت کشوں کی ذمہ داریاں ہیں‘ وہیں پر ان کے بہت سے حقوق ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ عزت کا تحفظ: محنت کش طبقات کے لوگ معاشرے کی طرف سے عزت کے طلب گار ہوتے ہیں۔ معاشرے کو ان کے ہنر اور پیشوں کی وجہ سے ان کی عزت اور احترام کرنا چاہیے اور ان کی غربت اور کام کی وجہ سے ان کو حقارت سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ بعض لوگ محنت کشوں کے نام بگاڑ کر پکارتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں اہلِ ایمان کو دوسروں کا مذاق اُڑانے اور غلط ناموں سے موسوم کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ حجرات کی آیت نمبر11 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! نہ مذاق کرے کوئی قوم کسی (دوسری) قوم سے۔ ہو سکتا ہے وہ بہتر ہوں ان سے۔ اور نہ کوئی عورتیں (مذاق کریں دوسری) عورتوں سے ہو سکتا ہے وہ بہتر ہوں ان سے۔ اور نہ تم عیب لگاؤ اپنے نفسوں (یعنی ایک دوسرے) پر اور ایک دوسرے کو مت پکارو (برے) القاب سے۔ (کسی کو) کو فسق والا نام (دینا) برا ہے‘ ایمان لانے کے بعد۔ اور جس نے توبہ نہ کی تو وہ لوگ ظالم ہیں۔
2۔ اجرت کی بروقت ادائیگی: محنت کش طبقات کا دوسرا حق یہ ہے کہ ان کی اجرت کو بروقت ادا کیا جائے۔ بعض لوگ محنت کش طبقات کے افراد سے کام تو لے لیتے ہیں لیکن ان کی اجرت بروقت ادا نہیں کرتے۔ اس کی وجہ سے ایسے لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتیں اور یہ لوگ ذہنی الجھاؤ اور نفسیاتی کشمکش کا شکار ہو کر غلط راہوں پر چل پڑتے ہیں۔ حق تلفی کرنے والے شخص کو قیامت کے دن اپنی زیادتی کے حوالے سے جوابدہ ہونا پڑے گا۔
3۔ معقول اجرت کا اہتمام: جہاں پر محنت کشوں کی بروقت ادائیگی ضروری ہے وہیں پر ان کے پیشے اور مہارت کے لحاظ سے ان کی معقول اجرت کا اہتمام کرنا یہ بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ کسی شخص سے بے تحاشہ کام لینا اور اس کو معقول اجرت نہ دینا کام کرنے والے شخص کی حق تلفی ہے۔ معاشرے اور ریاست کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر اس حوالے سے خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
4۔ رہائش کا اہتمام: محنت کش لوگ اپنی محدود آمدن کی وجہ سے ذاتی رہائش کا بندوبست کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے سماجی انصاف کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے معقول رہائشوں کا بندوبست کیا جائے تاکہ یہ لوگ چادر اور چاردیواری کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔
5۔ آبرو کا تحفظ: محنت کشوں کی آبرو بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی عام انسانوں کی۔ محنت کشوں کی بہو، بیٹیوں اور بہنوںکی عزت اور آبرو پر میلی نگاہ رکھنے والے اور ان کے بارے میں بدکرداری کی تدابیر اور جدوجہد کرنے والے لوگ قرار واقعی سزاؤں کے مستحق ہیں۔ ریاست کو ایسے لوگوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے جو طبقاتی تفاوت کی وجہ سے انسانوں کی عزت اور آبرو کو پامال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
6۔ محنت کشوں کی اولادوں کے لیے تعلیم کا بندوبست: محنت کش اپنی محدود آمدن کی وجہ سے اپنی اولادوں کے لیے اچھی تعلیم کا بندوبست نہیں کر پاتے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ایسے لوگوں کے اہلِ خانہ کے لیے بہترین تعلیم کا بندوبست کرے اور ان کے لیے مفت تعلیم کے مراکز قائم کیے جائیں‘ تاکہ محنت کشوں کی اولادیں بھی اچھی تعلیم حاصل کر سکیں۔
7۔ علاج معالجہ کی سہولیات: محنت کش کسی بیماری میں مبتلا ہو جائیں تو بالعموم وسائل کی قلت کی وجہ سے ایسے لوگ اکثر بیماری سے نبردآزما نہیں ہو سکتے اور بیماری کے نتیجے میں کئی مرتبہ کسی اہم صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں اور بسا اوقات اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ محنت کشوں کے علاج معالجہ کے لیے طبی مراکز قائم کرے تاکہ محنت کش اپنا علاج معالجہ صحیح طریقے سے کروا سکیں۔ محنت کش اگر اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دیں اور ریاست اور معاشرہ ان کے حقوق کی ادائیگی کے لیے سنجیدہ کوشش کرے تو یقینا ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے اور اس میں محنت کشوں کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے جو معاشرے کی تعمیروترقی کے لیے کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں محنت کش طبقات کے حقوق کو احسن طریقے سے ادا کرنے توفیق عطا فرمائے۔ آمین!