امن کی خواہش ہر انسان کے دل میں موجود ہے لیکن عصری معاشروں میں بالعموم امن کے مقابلے میں انتشار زیادہ نظر آتا ہے۔ امن کے حصول کے لیے اعتدال کے راستے کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔جب کسی معاشرے میں اعتدال اور توازن آ جائے تو معاشرے سے انتشار کا خاتمہ ہو جاتا ہے اورا نسانی سماج امن وسکون کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ معاشرے میں اعتدال اور توازن برقرار رکھنے کے لیے بعض خوبصورت رویوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح معاشرے سے بے اعتدالی کا خاتمہ کرنے کے لیے بعض رویوں کی حوصلہ شکنی اور بیخ کنی کرنا ضروری ہے۔ معاشرے میں اعتدال، امن اور بقائے باہمی کے فروغ کے لیے جن اہم رویوں کو فروغ دینا ضروری ہے ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1۔ عدل: معاشروں میں اعتدال کو فروغ دینے کے لیے قیام عدل کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔عدل کا مطلب کسی چیز کو اس کے جائز مقام پر رکھنا اور ظلم کا مطلب کسی چیز کو ایسے مقام پر رکھنا ہے جو اس کا حق نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں ظلم اپنے پورے عروج پر ہے۔ ملازمتوں اور عہدوں پرتقرریوں سے لے کر مالیاتی اور حکومتی معاملات تک حق تلفی کے رجحانات عام نظر آتے ہیں۔ ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ مؤثر مجرموں کو سزا دینے کی بجائے ان کو ریلیف دے دیا جاتا ہے جب کہ معاشرے کے کمزور طبقات کو جرم کا ارتکاب کرنے کی صورت میں فوراً سزا دے دی جاتی ہے۔ ان رویوں سے انصاف کا خون ہوتا ہے اور لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور نظام عدل سے بدگمان ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں بے چینی اور انتشار کو فروغ حاصل ہوتاہے اور جرائم کرنے والے بااثر لوگو ں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ نساء کی آیت نمبر135میں اس امر کا اعلان فرمایا کہ '' اے ایمان والو!ہو جاؤ انصاف پر قائم رہتے ہوئے گواہی دینے والے اللہ کی خاطر‘ اور اگرچہ اپنے آپ کے خلاف ہی ہو یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے(خلاف ہی کیوں نہ ہو)اگر ہو وہ امیر یا فقیر تو اللہ تعالیٰ تم سے زیادہ خیر خواہ ہے ان دونوں کا۔ نہ تو پیروی کرو خواہش نفس کی کہ تم عدل (نہ) کرواور اگر توڑ مروڑ کر بات کرو گے (گواہی دیتے ہو)یا منہ موڑو گے (گواہی دینے سے)تو بے شک اللہ (اُس) پر جو تم عمل کرتے ہو خوب خبردار ہے۔‘‘اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت نمبر 8میں اللہ تعالیٰ اعلان فرماتے ہیں: ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ہو جاؤ قائم رہنے والے اللہ کے لیے گواہی دینے والے انصاف کی اور نہ ہرگز آمادہ کرے تم کو کسی قوم کی دشمنی اس بات پر کہ تم عدل نہ کرو ‘عدل کیا کرو (کہ)وہ زیادہ قریب ہے تقویٰ کے اور اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ، بے شک اللہ تعالیٰ خوب باخبر ہے اس سے جو تم عمل کرتے ہو۔‘‘یہ آیات اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ انصاف کرنے کے دو اہم تقاضے ہیں۔ پہلا یہ کہ انسان اپنی اور اپنے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف داری نہ کرے اور انصاف کا دوسرا اہم تقاضایہ ہے کہ انسان اپنے مخالفوں اور دشمنوں کی بے جامخالفت اور حق تلفی نہ کرے۔ نبی کریم ﷺ نے ہر معاملے میں عدل اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا اور اسی روش کو اختیار کرنے کا حکم دیا ۔آپ ﷺنے اپنے امتیوں کے لیے عدل اور انصاف کی اعلیٰ ترین مثالوں کو قائم کیا۔ عہد رسالت مآب ﷺمیں بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی تو نبی کریمﷺ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ۔ جس پر آپ کے ایک محبوب صحابی اسامہ ابن زیدؓ کو آپ ﷺ کی بارگاہ رسالت مآب میں سفارش کے لیے بھیجا گیا ۔ نبی کریمﷺ جو سراپا محبت ومودّت تھے اس بات پر غصے میں آگئے اور آپﷺ نے اس موقع پر تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے: ''اے لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اس لیے گمراہ ہو گئے کہ جب ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے تھے اور اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمدﷺ نے بھی چوری کی ہوتی تو محمدﷺ اس کا ہاتھ ضرور کاٹ ڈالتے۔‘‘ اگر معاشروں میں نبی کریمﷺ کا انصاف کردہ نظام عام ہو جائے تو معاشرہ خود بخود اعتدال کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
2 ۔ احسان: اگر معاشرے کے طاقتور اور مؤثر لوگ انفرادی اور اجتماعی سطح پر احسان والا رویہ اپنائیں تو معاشرے میں خودبخود خوبصورتی اور اعتدال پیدا ہو سکتا ہے۔ آج معاشرے میں احسان کرنے والے لوگوں کی تعداد بہت کم ہو چکی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت نمبر 90میں ارشاد فرمایا : ''بے شک اللہ تعالیٰ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔ ‘‘ اسی طرح سورہ رحمن کی آیت نمبر 60میں ارشاد ہوا ''کیا احسان کا بدل احسان کے سوا بھی کچھ ہے؟‘‘نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین اپنی رعایا کے ساتھ احسان پر مبنی سلوک کیا کرتے تھے۔ ضرورت مندوں کی ضروریات کو پورا ہی نہیں کیا جاتا تھا بلکہ کئی مرتبہ ان کی توقعات سے بڑھ کر ان کو سہولیات فراہم کی جاتی تھیں۔ حضرت عمر ؓ رعایا کے حالات سے خبردار ہونے کے لیے راتوں کو گشت فرماتے اور جہاں پر کسی محرومی کو دیکھتے اس کا بہترین طریقے سے ازالہ فرما دیتے۔
3۔ عفوو درگزر: معاشرے میں بگاڑ کو ختم کرنے اور اعتدال کو قائم کرنے کے لیے عفوودرگزر پر مبنی رویے بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ انتقام کی صلاحیت رکھنے کے باوجود انتقام نہ لینے سے معاشرے کے لوگوں کی اصلاح کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ نبی کریمﷺ کے ساتھ طائف کی وادی میں بدترین دشمنی کا مظاہرہ کیا گیا حتیٰ کہ پہاڑوں کے فرشتے جبریل ؑ کے ساتھ آپ ﷺ کے پاس آئے اورعرض کی کہ طائف کی اس وادی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے تو نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا اے اللہ! میری قوم کے لوگوں کو ہدایت دے دے یہ مجھ کو پہچانتے نہیں ہیں۔ قرآن مجیدنے حضرت یوسف علیہ السلام کے عفوودرگزر کے واقعے کونہایت دلنشیں اور مؤثر انداز میںبیان فرمایا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے ساتھ انتہائی ناروا اور نا مناسب سلوک کیا جس کی وجہ سے حضرت یوسف ؑکو اپنے گھر بار سے دور محروم کر دیا گیا اور محبت کرنے والے والد حضرت یعقوب ؑسے جدائی سہنا پڑی اور آپ ؑ کو زندگی کے بہت سے نشیب وفراز کا سامنا کرنا پڑا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب آپ ؑ کو اختیار اور اقتدا ر عطا فرمایا تو آپ ؑ کے بھائی اپنی مفلسی اور مفلوک الحالی کی وجہ سے آپؑ کے پاس بے بسی اور بے کسی کی حالت میں آئے۔ حضرت یوسف ؑ اگر ان سے انتقام لینا چاہتے توان کو ہر طرح کی سزا دے سکتے تھے لیکن حضرت یوسف ؑ نے ان کو سزا دینے کی بجائے عفوودرگزر کا رویہ اختیار کیا اور ان کو معاف فرما دیا۔ نبی کریمﷺ کے ساتھ بھی کفار مکہ اور ان کے ہمنواؤں نے بدترین شقاوت اور بربریت کا مظاہرہ کیا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو فتح یاب فرمایا اور فتح مکہ کے موقع پر یہ تمام کے تمام لوگ آپﷺ کے سامنے مجرم کی حیثیت سے پیش کیے گئے ۔نبی کریمﷺ نے اس موقع پر انتقام کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے عفوودرگزر کا راستہ اختیار کیا اور اپنے پاس آنے والے مجرموں کو یہ کہہ کر معاف کر دیا کہ آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں ۔
آج ہم احسان کی بجائے خود غرضی کے راستے پر ،عدل کی بجائے ظلم کی راہ پر اورعفوودرگزر کی بجائے انتقام کی روش پر گامزن ہیں جس وجہ سے ہمارا سیاسی اور معاشرتی ڈھانچہ دھڑے بازی، انتشار اور افتراق کا مظہر بن چکا ہے ہمیںقومی یکجہتی، وحدت ، اتفاق اور اعتدال کو برقرار رکھنے کے لیے اسلام کے ان اعلیٰ اصولوں کو اپنا ناہو گا۔ اگر ہم ایسا کر لیں تو یقینا ہمارا سماج ایک مثالی معاشرے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔