انسان کے ازدواجی زندگی کے اس کے روزمرہ معمولات پر بہت گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ جو شخص خوشگوار گھریلو زندگی گزار رہا ہوتا ہے وہ اپنے معاشرتی امور کو بھی احسن طریقے سے انجام دیتا ہے۔ اس کے برعکس جس کی ازدواجی زندگی ناہموار ہوتی ہے اس کے معاشرتی، معاشی اور خاندانی معاملات بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ دنیا میں بڑے انسانوں کی کامیابیوں میں ان کی بیویوں اور اہلِ خانہ نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ خود نبی کریمﷺ کی نبوت کے بعد کی زندگی میں آنے والی ابتلاؤں کے دوران آپﷺ کی رفیقِ حیات سیّدہ خدیجۃ الکبریٰؓ نے آپﷺ کا نہایت احسن انداز میں ساتھ دیا۔ دعوتِ دین کے دوران نبی کریمﷺ کو کفار مکہ ایذا و تکلیف دیتے۔ جب آپﷺ گھر آتے تو حضرت خدیجۃالکبریٰؓ آپﷺ کو دلاسہ اور تسلی دیتیں‘ آپﷺ کے زخموں پر مرہم رکھتیں اور جس حد تک ممکن ہوتا نبی کریمﷺ کی دلجوئی فرماتیں۔ نبی کریمﷺ کی دیگر ازواج مطہرات نے بھی آپﷺ کے مشن اور تعلیمات کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ نبی کریمﷺ کی گھریلو اور سماجی زندگی کو اُمت تک منتقل کرنے میں سیّدہ عائشہؓ نے نمایاں کردار ادا کیا‘ اور بہت سے اہم امور سے متعلق آپﷺ کی احادیث اور سنتوں کو اُمت تک منتقل کیا۔ آپﷺ کی رحلت کے بعد پردے میں ہوتے ہوئے بھی وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعلیم و تربیت کے لیے بھرپور انداز میں اہتمام کرتی رہیں۔ جب بھی کبھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کسی پیچیدہ مسئلے میں رہنمائی درکار ہوتی تو وہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے رجوع کرتے۔ نبی کریمﷺ کے بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی بہترین رفقائے زندگی نصیب ہوئیں‘ جن کی وجہ سے وہ اپنے معمولاتِ زندگی کو انتہائی احسن انداز میں انجام دیتے رہے۔ نبی کریمﷺ کی لختِ جگر سیّدہ فاطمۃ الزہرا ؓ ایک مثالی خاتون تھیں‘ جنہوں نے اپنی سیرت و کردار، تحمل و بردباری، صبر و قناعت اور وفاداری کے ذریعے حضرت علی ؓ کے گھر کو جنت نظیر بنا دیا اور آپ کی تربیت اور شفقت کی وجہ سے حضرت حسن ؓ و حسین ؓ جیسی عظیم شخصیات منظر عام آئیں۔ کامیاب شادی کے حوالے سے ہر شخص کی اپنی رائے اور فکر ہوتی ہے اور ہر شخص گاہے بگاہے اپنی اس رائے کو اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں کو آگاہ بھی کرتا رہتا ہے۔ اسلام نے نکاح اور شادی بیاہ کے حوالے سے اپنے ماننے والوں کی کامل رہنمائی کی ہے۔ قرآن و سنت کا مطالعہ کرنے کے بعد کامیاب شادی کے حوالے سے بہت سے اہم نکات سامنے آتے ہیں‘ جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ بلوغت کے بعد جلد شادی کا اہتمام کرنا: ہر عاقل بالغ انسان میں ایک مخلص اور ہمدرد شریک زندگی کی رفاقت کی تمنا موجود ہے۔ بعض لوگ معاشی، معاشرتی اور تعلیمی مسائل کی وجہ سے جلد شادی نہیں کر پاتے جبکہ بعض لوگوں کے والدین بغیر کسی معقول سبب کے اپنی اولادوں کی شادیوں کو ملتوی اور موخر کرتے رہتے ہیں۔ چھوٹی عمر میں انسانوں کی طبیعتوں میں لچک ہوتی ہے اور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سمجھوتے اور ہم آہنگی پر جلد تیار ہو جاتے ہیں‘ جبکہ پختہ عمر میں اپنی عادات اور سوچ و فکر کو تبدیل کرنا خاصا مْشکل ہو جاتا ہے۔ کامیاب شادی کے لیے بلوغت کے بعد کا پہلا دور کافی مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس عمر میں شادی کرنے والے لوگوں میں ذہنی ہم آہنگی اور مطابقت پیدا ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کافی حد تک اپنے والدین کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ اگر گھریلو سطح پر کوئی ناخوشگوار کیفیت پیدا ہو بھی جائے تو لڑکے اور لڑکی کے والدین ان میں اختلافات کو تحلیل کرنے کے لیے مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
2۔ رشتوں کا درست چناؤ: رشتوں کا درست چناؤ بھی شادی کی کامیابی میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ بہت سے لوگ شکل و صورت اور مال و دولت کی وجہ سے شادی کرتے ہیں اور دین، اخلاق اور کردار کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بالعموم پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس جو لوگ دین، اخلاق اور کردار کی وجہ سے رشتوں کا انتخاب کرتے ہیں وہ ہمیشہ فائدے میں رہتے ہیں۔ دین کی وجہ سے مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی کرنے سے باز رہتے ہیں۔ اللہ کا خوف شوہر کو بیوی کے ساتھ ظلم سے روکتا اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے خوف ہی کی وجہ سے عورت بھی شوہر کی نافرمانی سے گریز کرتی ہے۔ اچھے اور برے اخلاق کے ازدواجی زندگی پر بہت گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ تلخ اور کڑوی طبیعت کے لوگ ایک دوسرے کی زندگی کو اجیرن بنا دیتے ہیں۔ اس کے مدمقابل خوشگوار اور دھیمی طبیعت کے لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے اور ایک دوسرے کی خامیوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ انسان کا اچھا یا برا کردار بھی اس کی ازدواجی زندگی کی کامیابی اور ناکامی میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ بالعموم بے راہ روی اور بدکرداری کا شکار لوگ اپنے ازدواجی ساتھی کی زندگی میں دکھوں اور تلخیوں کا زہر گھول دیتے ہیں۔ اس کے برعکس اچھے کردار کی وجہ سے باہمی اعتماد کا رشتہ مضبوط رہتا ہے۔ شوہر اپنے گھر بار کے حوالے سے اور بیوی اپنے شوہر کے طرز عمل کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار نہیں ہوتی۔ قرآن و سنت میں بھی دین اور اخلاق کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ جب ایسا شخص تمہارے پاس آئے جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس کے ساتھ (بہن یا بیٹی کی) شادی کر دو‘ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین پر بہت بڑا فتنہ اور فساد ظاہر ہو جائے گا۔ اخلاق اور دین کے ساتھ ساتھ انسان کو ایسی عورت کو تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو صبر اور شکر کرنے والی ہو۔ حالات کبھی یکساں نہیں رہتے‘ زندگی میں بہت سے اتار اور چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ جو لوگ رشتوں کے چناؤ میں صبر اور شکر گزاری کو میں اہمیت دیتے ہیں وہ ہمیشہ سکھی رہتے ہیں۔ نازک طبع مرد یا عورت سے شادی کرنا کئی مرتبہ انسان کے لیے درد سر کا باعث بن جاتا ہے۔ اچھے حالات میں آپے سے باہر رہنے والے اور برے حالات میں بے صبری کا مظاہرہ کرنے والے مرد اور عورت گھریلو ماحول کو ہمیشہ تلخی کا شکار بنائے رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس برے حالات میں صبر کرنے والے اور اچھے حالات میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و عنایت پر اس کا شکر ادا کرنے والے لوگ ہمیشہ گھر کی خوشیوں میں اضافے کا سبب بن جاتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپؑ نے اپنی بہو کے صابرہ اور شاکرہ ہونے کی خواہش کی اور اپنے بیٹے کے ساتھ ناشکری عورت کا رہنا ناپسند کیا اور جب حضرت اسماعیل ؑ کی زندگی میں صابر اور شاکر بیوی آئیں تو آپ ؑ نے اس امر کی تحسین فرمائی۔
3۔ شادی بیاہ کے موقع پر سادگی: کامیاب شادی میں سادگی اور آسانی والا نکاح بھی نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ دولت اور پیسے کی مسابقت کی وجہ سے اس عظیم رشتے میں برکات کم ہو جاتی ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنی حیثیت کو اجاگر کرنے جیسے جذبات اور احساسات غالب آ جاتے ہیں۔ جب سادگی اور احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے تو ایک دوسرے کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوتا اور ایک دوسرے کے لیے قربانی اور ایثار جیسے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں بالعموم بہت زیادہ فضول و خرچی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بہت زیادہ جہیز طلب کیا جاتا ہے اور ان تقریبات میں موسیقی اور مخلوط مجالس کا بکثرت انعقاد اور اہتمام کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے شادی کے آغاز ہی میں بہت سے قباحتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے حوالے سے احساسِ عدم تحفظ اور تحفظات کا شکار رہتے ہیں‘ نتیجتاً معاشرے اور گھروں میں کھنچاؤ اور بیگاڑ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر شادی بیاہ کی تقریبات کو سادگی اور تواضع کے ساتھ انجام دیا جائے‘ ایک دوسرے کے مال کی قدر کی جائے اور اس کو ضیاع سے بچانے کی جستجو کی جائے تو خود بخود ایک دوسرے کے بارے میں مخلصانہ جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ کامیاب شادی کے لیے ان نکات پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو کامیاب زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔