ہر شخص تکالیف اور مشکلات سے پاک زندگی گزارنے کا متمنی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ زندگی میں انسان کی غالب اکثریت کو گاہے گاہے پریشانیوں ، تکالیف اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر انسان حقیقی معنوں میں اِن پریشانیوں اور تکالیف کے اسباب کا تجزیہ کرنے کے قابل ہو جائے تو ان کا مقابلہ کرنے کی مؤثر تدبیر بھی اختیار کر سکتا ہے۔ ہر انسا ن مشکلات کا تجزیہ اپنے تجربات ، مشاہدات اور علم کی روشنی میں کرتا ہے۔ لیکن اس تجزیے کو حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔مشکلات کے اسباب کے حوالے سے سب سے درست بیان اللہ احکم الحاکمین اور نبی کریم ﷺ کا ہی ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید میں تکالیف اور پریشانیوں کے متعدد اسباب بیان کیے گئے ہیں ۔ ان اسباب پر غور وغوض کرنے کے بعد انسان یہ سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے کہ اس کی زندگی میں مشکلات کیوں آتی ہیں۔ کتاب وسنت میں مذکور چند اہم اسباب درج ذیل ہیں:
1۔آزمائش: انسانوں کی زندگی میں مصیبتیں کئی مرتبہ اللہ تبار ک وتعالیٰ کی طرف سے بطور آزمائش آتی ہیں۔ جب انسان کو تکالیف بطور آزمائش آئیں تو انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا پر راضی ہو جانا چاہیے اور آنے والی مشکلات پر صبر کرنا چاہیے اور ان مشکلات کے ختم ہو جانے کے بارے میں پختہ یقین رکھنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 155،156اور 157میں ارشاد فرماتے ہیں'' اور البتہ ہم تم کو ضرور آزمائیںگے کچھ خوف، بھوک ، مالوں، جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعے اور بشارت دیجئے صبر کرنے والوں کو۔ جب انہیں مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں اور ہم نے اسی طرف پلٹنا ہے ۔ ایسے لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے رحمت نازل ہوتی ہے۔ اور ایسے ہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔ ‘‘
انبیاء علیہم السلام کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور تکالیف کو جھیلنا پڑا۔ ان کی زندگیوںمیں تمام تکالیف اور مشکلات درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے بطور آزمائش آئیں۔ انبیاء علیہم السلام نے بڑی خندہ پیشانی اور صبر کے ساتھ ان مشکلات کا مقابلہ کیا ۔ انبیاء علیہم السلام کے بعد بھی بہت سے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آئمہ دین ، اسلاف اورعلمائے کرام نے اللہ کے حکم سے آنے والی ان آزمائشوں کا بڑی دلجمعی سے مقابلہ کیا۔ صبر ، استقامت اور توکل کے ذریعے ان مشکلات پر قابو پاتے رہے۔ اگر صاحب ایمان اور با عمل انسان کی زندگی میں تکالیف آ جائیں تو اس کو سمجھ جانا چاہیے کہ یہ تکالیف اس کی طرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے بطور آزمائش آئی ہیں۔ یہ تکالیف کئی مرتبہ اعدائے دین کی شقاوت اور کئی مرتبہ معاشی اور معاشرتی پریشانیوں کی شکل میں بھی ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح آزمائش کئی مرتبہ بیماریوں کی شکل میں بھی آ سکتی ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام تادیر بیمار رہے ‘ آپ ؑ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی اس بیماری پر صبر اور استقامت کا راستہ اختیار کیا ۔ بیماری کے طول پکڑ جانے کے بعد آپ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آ کر دعا مانگی جس کا اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ انبیاء کی آیت نمبر 83میں یوں ذکر کیا۔ کہ ''جب ایوب نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ بے شک مجھے تکلیف دہ بیماری لگ گئی ہے اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی پکار کو سن کر آپ کی تکلیف کو دورفرما دیااور آپ کے اہل خانہ اور مال میں سے جو آپ کا نقصان ہوا تھا وہ بھی واپس پلٹا دیا اور اتنا ہی اور بھی ساتھ عطا فرما دیا۔
2۔ گناہوں کا کفارہ : کئی تکالیف انسانوں کی زندگی میں ان کو گناہوں سے پاک کرنے کے لیے بھی آتی ہیں۔ انسانوں کی اکثریت گناہ گار اور خطا کار ہے جب وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کا ارتکاب کرتے ہیں تو ان کی زندگی میں تکالیف اور مشکلات آتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ شوریٰ کی آیت نمبر30 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور جو مصیبتیں تم کو پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کیے کا بدلہ ہیں۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر41 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ '' خشکیوں اور تریوں میں انسانوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے فساد پھیل گیا ہے ۔ ‘‘ آزمائشیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے برگزیدہ بندوں پر آتی ہیں جب کہ عام لوگوں پر تکالیف ان کے گناہوں کی وجہ سے آتی ہیں ۔جب انسان تکالیف اور مشکلات میں گرفتار ہو جائے تو ایسی صورت میں اس کو صبر کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی موجودہ تکالیف کا سبب اس کی اپنی خطائیں اور کوتاہیاں ہیں ۔
جب انسان تکالیف اور آزمائش کے آنے کے بعد اپنا احتساب کرتا ہے تو اس کی مشکلات کے دور ہونے کے امکانات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ زمر کی آیت نمبر 53میں ارشاد فرمایا ''اے میرے بندو! جو اپنی جانوں پر زیادتی کر چکے ہو تم اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو بے شک اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔‘‘اسی طرح سورہ فرقان میں للہ تبارک وتعالیٰ نے تین کبیرہ گناہوں کا ذکر کیا جو انسان کی عاقبت کو تباہ کر دینے والے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے شرک،قتل اور زنا کی تباہ کاری کا ذکر کرنے کے بعد واضح فرمایا کہ جو شخص ان گناہوں کے بعد توبہ ،ا یمان اور عمل صالح کاراستہ اختیار کرے گا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف ہی نہیں کریں گے بلکہ ان کو نیکیوں کے ساتھ تبدیل فرما دیں گے۔جب انسان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی تکالیف کو بھی دور فرما دیتے ہیں۔
3۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے عذاب: اللہ تبارک وتعالیٰ اشخاص اور اقوام کو اپنی اصلاح کا موقع دیتے ہیں لیکن بہت سے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والی مہلت کا درست استعمال کرنے کی بجائے گناہوں اور سرکشی کے راستے پرمزید تیزی سے گامزن ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ایسے لوگوں کو جھنجوڑنے اور متنبہ کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے عذابوں کے جھٹکے لگاتے رہتے ہیں لیکن جب اس کی تنبیہات کو نظر انداز کر دیاجاتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے کسی بڑے عذاب کو ان پر مسلط کر دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میںفرعون اور اس کی قوم کا ذکر کیا کہ جن پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے کبھی ٹڈیوں، کبھی جوؤں ، کبھی خون اور کبھی طوفان کے عذابوں کو اتارالیکن فرعون ان تمام عذابوں کو دیکھنے کے باوجود بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی پر تلا رہا۔ وقتی طور پر آتے ہوئے عذابوں کو دیکھ کرحضرت موسیٰ علیہ السلام کی سرکشی سے دستبردار ہونے کا عندیہ دیتا لیکن جب بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کی وجہ سے عذاب کو ٹال دیا جاتا تو دوبارہ سرکشی پر آمادہ وتیار ہو جاتا۔ بالآخر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو سمندر کی لہروں کی نظر کر دیا۔ جب وہ سمندر کی لہروں میں غرق کیا گیا تو اس وقت اس نے الفاظ کہے کہ ''میں ایمان لاتا ہوں اس پر کہ بے شک جس کے سوا کوئی الہ نہیں اور جس پر بنی اسرائیل کے لوگوں کا ایمان ہے اور میں بھی مسلمان ہوں۔ ‘‘اس موقع پر اس کو جواب دیا گیا ''اب ایمان لاتا ہے پہلے نافرمانیاں کرتا رہا اور فساد کرنے والوں کو داخل رہا پس آج ہم تیرے بدن کو محفوظ کر لیں گے۔ تاکہ تو اپنے بعد آنے والوں کے لیے باعث عبرت ہو۔ ‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ ہود میں سابقہ ابنیاء علیہم السلام کی اقوام پرآنے والے عذابوں کا ذکر کیا۔ چنانچہ سیّدنا نوح علیہ السلام کی قوم پر طوفان ، سیّدنا صالح اور سیّدنا شعیب علیہم السلام کی قوم پر ایک چنگھاڑ کو اور قوم عاد کے متکبر لوگوں پر آندھیوں کو مسلط کیا گیا، اسی طرح قوم لوط پر آسمان سے پتھر وں کی بارش ہوئی۔ ان تمام اقوام پر عذاب بھیجنے سے پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اتمام حجت کے لیے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے ان کو دعوت دینے کا کام پایۂ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ جب انبیاء علیہم السلام کو پوری طرح جھٹلا دیا گیا اور ان کی دعوت کو ٹھکرا دیا گیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجرموں پر اپنے عذابوں کو مسلط کر دیا۔
اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ انسان عذاب کے آنے سے قبل ہی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں جھک جائے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی نصیحتوں کو دل وجان سے قبول کر لے۔ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے لوگوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب کے آنے سے قبل جب اپنی اصلاح کی نیت کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے عذابوں کو ان سے ٹال لیا۔ تکالیف نیکوکاروں پر بطور آزمائش‘ جب کہ عام لوگوں پر ان کے سیئات کے کفارے کے طور پراور مجرموں پراللہ کے عذاب کا کوڑا بن کر اترتی ہیں۔ اگر انسان اس حقیقت کو پہچان لے تو بہت سی تکالیف سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو اپنی اصلاح کرنے کی توفیق دے اور مشکلات اور پریشانیوں کو دور فرمائے۔ آمین ۔