اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور اسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے رہتی دنیا تک انسانوں کے لیے بطور دین پسند فرما یا ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر3 میں ارشاد فرماتے ہیں ''آج میں نے دین کو تمہارے لیے کامل کر دیا۔ اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا۔ اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہو گیا‘‘۔ پس جو شخص بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے مطابق زندگی گزارنے کا متمنی ہے اسے پوری طرح اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو جانا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انسانوں کے خالق اور پروردگار ہیں‘ اس لیے انہوں نے جہاں انسانوں کی دیگر ضروریات کو بطریق احسن پورا فرمایا وہیں پر انہوں نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی آخری کتاب قرآن مجید کو حضرت رسول اللہﷺ کے قلب اطہر پر نازل فرمایا تاکہ انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کے پسندیدہ طریقے سے اچھی طرح آگاہ ہو جائیں۔
قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے زندگی کے تمام اہم پہلوؤں کے حوالے سے اہم اور بنیادی نصیحتوں کو ارشاد فرما دیا۔ قرآن مجید فکر ی، دستوری، نظریاتی اور قانونی لحاظ سے ایک کامل ترین کتاب ہے؛ تاہم اس کتاب پر پوری طر ح اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کے مطابق عمل پیرا ہونے کے لیے ایک مثال اور نمونے کی ضرورت تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے وہ مثال اور نمونہ حضرت رسول اللہﷺ کے اسوۂ حسنہ کی شکل میں متعین اور مقرر فرما دیا۔ نبی کریمﷺ کو اپنی حیات مبارکہ کے طویل روز و شب میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی مکمل تائید اور نصرت حاصل رہی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید کے متن ہی کو آپﷺ کے قلب اطہر پر نازل نہیں فرمایا‘ بلکہ آپﷺ کو اس کے مطابق عمل پیرا ہونے کی مکمل استعداد بھی عطا فرما دی‘ اور قرآن مجید کی متعدد آیات میں اس بات کو واضح فر ما دیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نبی کی پیروی کرنا، ان کے اسوۂ حسنہ پر چلنا اور ان کے فرامین کو من و عن تسلیم کرنا ہر مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ سورہ احزاب کی آیت نمبر21 میں اللہ تبارک و تعالیٰ اعلان فرماتے ہیں ''تحقیق تمہارے لیے رسول اللہ میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر31 میں ارشاد فرماتے ہیں ''کہہ دیجئے اگر تمہیں اللہ سے محبت ہے تو میری پیروی کرو خود اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں قرآن مجید نازل فرمایا وہیں اس کی حفاظت کو بھی یقینی بنایا؛ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ حجر کی آیت نمبر9 میں ارشاد فرماتے ہیںکہ ''بے شک ہم نے یہ نصیحت نازل کی ہے اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں‘‘۔ نبیء کریمﷺ چونکہ قرآن مجید کے مفہوم اور مطلوب سے پوری طر ح آگاہ تھے اس لیے آپﷺ جس انداز میں اس کے مفہوم کو بیان کر سکتے تھے کائنات میں کوئی اس طرح بیان نہیں کر سکتا؛ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت نمبر44 میں اس امر کو واضح فرما دیا کہ ''ہم نے آپ پر یہ ذکر نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو بیان کریں جو ان کی طرف اتارا گیا ہے‘‘۔ یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ نبی کریمﷺ قرآن مجید کے مفہوم اور مطالب کو بہترین انداز میں بیان فرمانے والے تھے‘ اس لیے جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ذکر کی حفاظت کو یقینی بنایا وہیں پر اس حکیم اور دانا ذات نے ایسے اسباب پیدا فر ما دیے کہ قیامت تک کے لیے حضرت رسول اللہﷺ کا اسوہ بھی محفوظ و مامون ہو گیا۔ اب اگر کوئی قرآن مجید پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی پسند کے مطابق عمل کرنا چاہتا ہے تو اس کو نبی کریمﷺ کے اسوۂ حسنہ کی طرف مراجعت کرنا پڑے گی۔ چنانچہ قرآن مجید میں نماز کا حکم تو موجود ہے لیکن طریقے کے لیے نبی کریمﷺ کی ذات سے رہنمائی حاصل کرنا ہو گی۔ اسی طرح قرآن مجید میں حج کی جزوی تفصیلات تو موجود ہیں لیکن حج کو صحیح طریقے سے ادا کرنے کے لیے نبی کریمﷺ کی سیرت اور کردار سے رہنمائی حاصل کرنا ہو گی۔ زکوٰۃ کے نصاب، مقدار اور سالانہ ادائیگی کی فرضیت کو سمجھنے کے لیے بھی نبی کریمﷺ کا اسوہ انتہائی ضروری ہے۔ قرآن مجید میں مذکور اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکامات کی توضیح اور شرح فرمانے والے چونکہ حضرت رسول اللہﷺ ہیں اس لیے آپﷺ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے محفوظ و مامون فرما دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہت سی ایسی عظیم ہستیوں کو پیدا کیاکہ جن کی زندگیوں کا مشن ہی اللہ تبارک و تعالیٰ کے حبیب حضرت رسول اللہﷺ کے فرامین، اعمال اور تقاریر کو جمع کرنا تھا۔ انہی ہستیوں میں سے ایک عظیم اور نمایاں شخصیت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی بھی ہے۔ جنہوں نبی کریمﷺ کے فرامین کو جمع اور مدوّن کرنے کے لیے اپنی پوری زندگی کو وقف کیے رکھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت امام بخاریؒ کی محنتوں کو قبول و منظور فرما لیا اور رہتی دنیا تک کے لیے آپ کی جمع کردہ کتاب صحیح بخاری کو علما اور عوام میں یکساں مقبول بنا دیا۔
حضرت امام بخاریؒ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں نبی کریمﷺ کے فرمودات اور اعمال سے متعلق تقریباً 7278 احادیث کو مختلف ابواب میں جمع کیا اور زندگی گزارنے سے متعلق آپﷺ کے ارشادات کو امت تک منتقل کیا۔ حضرت امام بخاریؒ نے ایمان، عقائد، اعمال صالح، علامات قیامت، ذکر الٰہی، تفسیر، تعبیر سے متعلق احادیث کو اپنی کتاب میں جمع کرکے اہلِ ایمان کو تعلیمات نبویﷺ سے روشناس کرانے کے لیے عظیم خدمات سرانجام دیں۔ حضرت امام بخاریؒ نے اپنی کتاب میں بعض احادیث کی تکرار کی اور انہیں اپنی کتاب کے مختلف ابواب میں درج کیا اور اس تکرار کا مقصد یہ تھا کہ اگر کسی ایک حدیث سے ایک سے زائد نتائج نکلتے ہیں تو ان تمام نتائج کو علما اور عوام کے سامنے رکھا جائے۔ حضرت امام بخاریؒ کی یہ کتاب اپنی ترتیب کے اعتبار سے بھی منفرد ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب کا آغاز نیت کی اصلاح سے متعلق حدیث سے کیا اور کتاب کا اختتام اعمال کے تلنے کا ذکر کرنے والی حدیث پر کیا۔ گویا کہ انہوں نے اس بات کو واضح کر دیا کہ دین کا آغاز اصلاح نیت سے اور انسان کی حتمی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار اس کے اعمال کے تلنے کے بعد اس کو ملنے والے ٹھکانے کے ساتھ ہے۔
حضرت امام بخاریؒ کی اس کتاب کو مدارس دینیہ میں بڑے اہتمام کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے اور سالانہ امتحانات اور تقسیم اسناد کے موقع پر عام طور پر بخاری شریف کی تکمیل کی تقریب کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی مجھے مختلف مقامات پر بخاری شریف کی تکمیل کی تقاریب میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ ان تقاریب میں علما اور عوام کی کثیر تعداد دیکھ کر مجھے اس بات پر شرح صدر حاصل ہوا کہ انسان اپنے مال، قبیلے، اولاد اور رشتہ داروں کے ذریعے زندہ نہیں ہوتا بلکہ انسان کے باقی رہنے میں مشن، فکر اور نظریات کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ امام بخاریؒ نے اپنی زندگی کو ایک عظیم مشن کے لیے وقف کیے رکھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نبی حضرت محمدﷺ کے ارشادات اور اقوال کی نشرواشاعت کے لیے اپنی زندگی کو وقف کرنے والی اس عظیم شخصیت کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے زندہ اور تابندہ کر دیا اور آپ کی پُرخلوص محنت کو اس انداز میں قبولیت عطا کی کہ عرب و عجم میں کوئی بھی شخص اگر احادیث نبوی شریف سے تعلق کو استوار کرنا چاہتا ہے اور نبی کریمﷺ کے ارشادات کے متعلق جاننا چاہتا ہے تو اس کو بلا تردّد آپﷺ کے ثقہ ترین فرمودات اور ارشادات کا ایک اہم اور نمایاں حصہ صحیح بخاری شریف میں مل جاتا ہے۔ حضرت امام بخاریؒ کی محنت کی قبولیت ہمارے لیے ایک تحریک کا باعث ہے کہ اگر ہم بھی انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی نیت کی اصلاح کرکے کسی بہتر کام کو انجام دیں گے تو اللہ تبارک و تعالیٰ یقینا ہمارے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا کہ اس نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر195 میں اس امر کا اعلان فرما دیا کہ ''بے شک میں تم میں سے ہرگز کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا چاہے وہ کوئی مرد ہو یا عورت‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نبی کریمﷺ کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپﷺ کی حدیث اور سنت کی خدمت کے لیے ہمیں بالعموم محدثین اور بالخصوص امام بخاریؒکی روش کو اختیار کرنے والا بنائے۔آمین۔