رمضان المبارک کا مہینہ ہر سال اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے مغفرتوں، برکات اور رحمتوں کو اپنے جلوں میں لے کر آتا ہے۔ دنیائے اسلام میں رمضان المبارک بڑے خوبصورت اور جذباتی انداز میں گزارا جاتا ہے۔ مسلمان اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنے تعلق کی تجدید کے لیے اپنے آپ تیار کرتے ہیں۔ جہاں پر رمضان المبارک کا مقدس مہینہ بڑی گہما گہمی سے گزرتا ہے‘ وہیں پر اس کی آمد سے قبل ہی لوگ مختلف انداز میں رمضان المبارک کے لیے اپنے آپ کو آمادہ و تیار کرتے ہیں۔ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں اور بچے بھی اس کی آمد پر انتہائی خوشی اور مسرت محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی سحری اور افطاری کی تیاری کے لیے اشیائے خورونوش کو بڑے پیمانے پر خرید کر جمع کر لیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نماز تراویح کی ادائیگی کے لیے مرد نئے ملبوسات بھی تیار کرتے ہیں؛ تاہم اس بات کو محسوس کیا جا سکتا ہے کہ رمضان المبارک میں دینی اور روحانی اعتبار سے ترقی کے لیے جس انداز میں منصوبہ بندی کرنی چاہیے اس کا بھرپور طریقے سے اہتمام نہیں کیا جاتا۔ گو رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ روحانی اور دینی ترقی کے دروازے کھل جاتے ہیں لیکن اگر ماہ مبارک کی آمد سے قبل ہی اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کر لیا جائے تو بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل کی جانے والی تیاریوں میں درج ذیل امور کو ترجیحی بنیادوں پر اہمیت دینے کی ضرورت ہے:
1۔ قرآن مجید کی تعلیم کا اہتمام: رمضان المبارک کے مہینے کا قرآن مجید کے ساتھ انتہائی گہرا تعلق ہے۔ اسی ماہ مبارک کی آخری عشرے کی ایک طاق رات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل فرمایا۔ قرآن مجید رہتی دنیا تک لوگوں کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے آخری پیغام ہے۔ رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں میں اپنی دیگر مصروفیات کے مقابلے میں قرآن مجید کی تعلیمات کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ اس کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے معنی، اس کے مطالب پر غور کرنا انتہائی مفید ہے۔ اگر یہ مہینہ شروع ہونے سے پہلے ہی بعض ماہرینِ قرآن اور بعض اچھی درس گاہوں کو چن لیا جائے تو رمضان المبارک کے مہینے میں قرآن مجید کی تعلیم کو نہایت احسن انداز میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔
2۔ تراویح: ہمارے معاشرے میں قرآن مجید کو اچھے انداز میں پڑھنے والے قاریوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اچھے انداز میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے قاریوں کی اقتدا میں نماز ادا کرنے سے تراویح کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی اگر انسان ایسے مراکز اور مساجد کا تعین کر لے جن میں احسن انداز میں تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے تو یقینا رمضان کی روح پرور ساعتوں سے بہتر انداز میں استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
3۔ زکوٰۃ و صدقات کی ادائیگی کے لیے کاروباری حجم کا تجزیہ: اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں پر سال میں ایک مرتبہ زکوٰۃ کی ادائیگی کو لازم کیا ہے۔ زکوٰۃ انسان کے حاضر کاروباری مال کا چالیسواں حصہ یا ڈھائی فیصد ہوتی ہے۔ انسان اگر صحیح معنوں میں اپنے کاروباری حجم کا حساب و کتاب لگائے تو زکوٰۃ احسن طریقے سے ادا کر سکتا ہے۔ اگر اس مسئلے میں تساہل یا سستی کا مظاہرہ کیا جائے تو رمضان المبارک میں زکوٰۃ کی ادائیگی احسن طریقے سے نہیں ہو سکتی۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی انسان کو اپنے کاروباری حجم کا تخمینہ لگانا شروع کر دینا چاہیے تاکہ رمضان المبارک کی آمد پر صحیح طریقے سے زکوٰۃ ادا کی جا سکے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کے حوالے مستحق لوگوں کا ترجیحی انداز میں تعین کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ زکوٰۃ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ایک فریضہ ہے جو مستحق اور نادار لوگوں کا حق ہے۔ کئی پیشہ ور لوگ مستحق اور نادار لوگوں کی حق تلفی کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان تک زکوٰۃ کے مال کے پہنچنے سے قبل ہی راستے میں اس مال لے اُڑتے ہیں۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کی اگر صحیح طریقے سے منصوبہ بندی کی جائے اور مستحق اور نادار لوگوں تک اس کو پہنچانے کا اہتمام کیا جائے تو چند ہی سالوں میں معاشرے میں نادار اور غریب لوگوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکتی ہے۔ زکوٰۃ اور صدقات اسلامی معاشرے کے کمزور اور مفلوک الحال لوگوں کی بحالی کے لیے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں‘ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام نہیں ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں غربت اور افلاس کی سطح میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی منظم انداز میں ان معاملات کا تجزیہ کیا جائے تو معاشرے میں موجود غربت میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکتی ہے۔
4۔ عمرہ اور زیارتِ مدینہ کا اہتمام: اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہت سے لوگوں کو مال کی نعمت سے نوازا ہے۔ اگرچہ سال کے کسی بھی موقع پر بیت اللہ شریف کا عمرہ اور مدینہ طیبہ کی زیارت کی جا سکتی ہے‘ لیکن رمضان المبارک میں عمرہ کرنا یقینا باقی ایام کے مقابلے میں زیادہ سعادت کی بات ہے۔ حدیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رمضان المبارک میں عمرہ کرنے والے شخص کو اتنا اجر و ثواب حاصل ہوتا ہے گویا کہ اس نے نبی کریمﷺ کے معیت میں حج ادا کیا ہو۔ جس شخص کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے تونگری اور مال کی نعمت سے نوازا ہو وہ عمرے کی ادائیگی کے ذریعے رمضان المبارک کے ان ایام میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمتوں کو وسیع پیمانے پر سمیٹ سکتا ہے؛ چنانچہ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی عمرے کی سعادت حاصل کرنے کا اہتمام کر لینا چاہیے تاکہ رمضان المبارک کے ایام کو زیادہ سے زیادہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی قربت کے حصول کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
5۔ اعتکاف: رمضان المبارک کی عبادات میں سے ایک انتہائی اہم عبادت اعتکاف بھی ہے۔ آخری عشرے کے اعتکاف کے دوران انسان تنہائی میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی قربت کے حصول کے لیے جستجو کرتا ہے‘ اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے اور اپنے معمولات میں بہتری لانے کے لئے غوروفکر کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے گھروں میں وقت گزارنے کی وجہ سے انسان میں نیکی کا جذبہ اور استعداد پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور اگر اعتکاف کے دوران حاصل کی گئی تربیت اور پختہ عزائم کو بعد ازاں بحال رکھا جائے تو انسان کی زندگی میں بہت بڑا انقلاب رونما ہو سکتا ہے۔ بعض مساجد میں اعتکاف کرنے والوں کے لیے بہترین سہولیات کا بندوبست کیا جاتا ہے اور ان کو اپنے گھروں سے سحری اور افطاری منگوانے کی بجائے مدارس اور مساجد کی سطح پر سحری اور افطاری کی سہولیات مسیر ہوتی ہیں‘{ جس کی وجہ انسان یکسو ہو کر اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت کر سکتا ہے؛ چنانچہ اعتکاف کے لیے بھی انسان کو رمضان سے قبل ہی اپنی تیاریوں کو مکمل کر لینا چاہیے تاکہ وہ رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں میں بہتر انداز میں اعتکاف کر سکے۔ اعتکاف ہی کے دوران انسان کو لیلۃالقدر کی ساعتیں بھی میسر آجاتی ہیں۔ جس نے لیلۃ القدر کی ساعتوں کو پا لیا اس کو ایک ہزار مہینے کی عبادت کا ثواب حاصل ہوتا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے سابق تمام گناہوں کو معاف کر دیتے ہیں۔
رمضان البارک کا مقدس مہینہ اپنے جلو میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمتوں کو سمیٹے ہوئے آتا ہے۔ اس مہینے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمتیں، بخششیں اور عطائیں اپنے پورے عروج پر ہوتی ہیں جو شخص اس مہینے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کو راضی کرنا چاہے‘ یا اپنے گناہوں کو معاف کروانا چاہے تو اس کے لیے نیکیوں کے اس موسم بہار میں ہر طرح کی نیکیاں سمیٹنے کے تمام امکانات موجود ہیں۔ حدیث پاک کے مطابق وہ شخص بدنصیب ہے جو رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بھی اپنے گناہوں کو نہیں بخشواتا۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل اگر اس کے استقبال کے لیے صحیح منصوبہ بندی کر لی جائے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و رحمت سے ہم صرف اس مہینے کو ہی کامیابی سے نہیں گزاریں گے بلکہ اس کے بعد آنے والے ایام پر بھی رمضان المبارک میں گزری ہوئے ساعتوں کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بڑھ چڑھ کر اپنی عبادت کرنے کی توفیق دے۔ آمین!