بعض ایام اور مقامات ایسے ہوتے ہیں جن میں انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت کے لیے اپنی جملہ صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان ایام اور مقامات کی فضیلت اور احترام انسان کے دل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت کی ضرورت اور اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کرتی ہے اور انسان اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتا ہے کہ ان دنوں اور جگہوں کو پا لینے کے بعد اپنے وقت اور صلاحیتوں کو ضائع ہونے سے بچا لے۔ چنانچہ ہم عام طور پر اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ حج اور عمرہ کے لیے جانے والے لوگ بہت زیادہ محنت اور دل جمعی کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔ اسی طرح رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بھی لوگ اپنی صلاحیتوں کے مطابق حتی المقدور اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی اور عبادات کی بجا آوری کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت کے بہت سے مواقع فراہم کرتا ہے جن میں روزہ، نماز تراویح، انفاق فی سبیل للہ، عمرہ، اعتکاف، لیلۃ القدر کی جستجو، ذکر الٰہی اور دعا شامل ہیں۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ عمرہ اور حج سے پلٹ آنے کے بعد اور رمضان المبارک کے گزر جانے کے بعد بالعموم انسان نیکی کے اس تسلسل کو برقرار نہیں رکھ پاتا اور نیک اعمال میں خاطر خواہ کمی واقع ہو جاتی ہے۔ کئی مرتبہ ان ایام کے گزر جانے کے بعد انسان سابق معمولات کو ترک کرکے یکسر غفلت کی زندگی گزارنا شروع کر دیتا ہے۔ گو اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت عمرہ، حج کے دوران اور رمضان المبارک کے مہینے میں پورے عروج پر ہونی چاہیے لیکن عبادات اور نیکیوں کا یہ تسلسل انہی ایام اور جگہوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ بلکہ انسان کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے جس کا ذکر اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ ذاریات کے آیت نمبر56 میں کیا ''اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ انسانوں سے تسلسل کے ساتھ نیک اعمال اور عبادات کو طلب کرتا ہے۔
رمضان المبارک کے مہینے میں جن اچھے اعمال کی توفیق انسان کو حاصل ہوتی ہے ان کو رمضان المبارک کے بعد بھی برقرار رکھنا چاہیے۔ چنانچہ فرضی روزوں کے بعد شوال ہی میں مزید چھ روزے رکھنے والے کو حدیث پاک کے مطابق اتنا ثواب حاصل ہوتا ہے گویا کہ اس نے پورے سال کے روزے رکھے ہوں۔ اسی طرح تہجد گزاری اور رات کا قیام صرف رمضان تک موقوف نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ تھی کہ آپ رمضان اور غیر رمضان میں اپنے قیام کو جاری رکھا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام بہت طویل ہوتا اور آپ اپنے قیام میں لمبی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ تہجد گزاری کی وجہ سے انسان تنہائی میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت کرنے والے لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے اور خلوت میں کی گئی اسی عبادت کے سبب انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کی قربت کی منازل کو طے کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو استوار کرتے کرتے جب انسان شب زندہ داری کا خوگر ہو جاتا ہے تو وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت میں ایسی مٹھاس اور لذت محسوس کرتا ہے جس کا ادراک اس کو اس سے قبل نہیں ہو پاتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ایسے شخص کو اپنی پناہ میں لے لیتے ہیں اور رات کے اندھیروں میں کی گئی مخلصانہ اور پُرخلوص دعائیں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں مستجاب ہو جاتی ہیں۔
رمضان المبارک کے مہینے میں تلاوت کا اہتمام بھی بکثرت کیا جاتا ہے۔ نیکیوں کی انجام دہی کے لیے جب انسان کو ایک اچھا ماحول کو میسر آتا ہے تو انسان اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق قرآن مجید کی تلاوت اور مفہوم و مطالب پر غوروخوض کرنے کا خوگر ہو جاتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ رمضان المبارک کے بعد تعلیم اور کاروبار کے مختلف شعبوں پر توجہ کو تو برقرار رکھا جاتا ہے لیکن قرآن مجید کی کماحقہ تلاوت نہیں کی جاتی۔ قرآن مجید کے ہم پر بہت سے حقوق ہیں جن میں سے اہم درج ذیل ہیں:
1۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔ 2۔ قرآن مجید کے مفہوم کو سمجھنا۔ 3۔ اس پر عمل کرنا۔ 4۔ اس کے پیغام کا ابلاغ کرنا۔ 5۔ اس کے احکامات کی تنفیذ کے لیے کوشش کرنا۔
قرآن مجید کے یہ حقوق ہر صاحب ایمان قاری پر عائد ہوتے ہیں اور ہمیں چاہیے کہ ہم غیر رمضان میں بھی قرآن مجید کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط رکھیں تاکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس کتاب کے ساتھ اپنے تعلق کو استوار کرنے کے سبب ہم دنیا اور آخرت کی کامرانیوں سے ہمکنار ہو سکیں۔ قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ ساتھ رمضان المبارک کے مہینے میں لوگ بالعموم اپنی فرض زکوٰۃ ادا کرتے ہیں‘ اسی طرح نفلی صدقات بھی بکثرت دئیے جاتے ہیں۔ نفلی صدقات کے سبب انسان جہاں غریب اور دکھی انسانیت کے کام آنے کے قابل ہوتا ہے وہاں اس کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ انفاق فی سبیل للہ کے حوالے سے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر بہت سی آیات کا نزول ہوا ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر274 میں ارشاد فرماتے ہیں ''جو لوگ اپنے مالوں کو رات اور دن چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس اجر ہے اور نہ انہیں خوف ہے اور نہ غمگینی۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ توبہ کی آیت نمبر103 میں ارشاد فرمایا ''تم ان کے مالوں میں سے صدقہ لو اس سے تم انہیں پاک اور صاف کرو گے۔‘‘ صدقہ انسان کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے جبکہ انفاق فی سبیل للہ نہ کرنے کے حوالے سے قرآن مجید میں بڑی سخت وعید موجود ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ ماعون میں ارشاد فرماتے ہیں ''کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو یوم جزا کو جھٹلاتا ہے یہی وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔‘‘ سورہ مدثر کی آیت نمبر43 اور44 سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم میں جانے کے اسباب میں سے بڑا سبب نماز کی ادائیگی کے بعد مسکین کو کھانا نہ کھلانا ہو گا۔ اسی طرح سورہ توبہ کی آیت نمبر34،35 میں مالک کائنات یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں ''اور جو لوگ سونے اور چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لیے خزانہ بنا رکھا تھا پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو۔‘‘
رمضان المبارک کے مہینے میں متمول لوگ عمرہ بھی کرتے ہیں۔ عمرے کا سلسلہ پورا سال جاری و ساری رہتا ہے۔ متواتر عمرہ کرنے کی وجہ سے انسان کے گناہ معاف ہو جاتے اور اللہ تبارک و تعالیٰ انسان کے رزق میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ رمضان المبارک کی ایک امتیازی عبادت اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں آکر اعتکاف کرنا ہے۔ خلوت میں انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں آکر اپنے مقصد تخلیق کو سمجھ کر اس کی بندگی کو انجام دیتا ہے۔ گو غیر رمضان میں اعتکاف تو نہیں ہوتا لیکن خلوت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو استوار کرنے کے مواقع اور امکانات بہرحال موجود رہتے ہیں۔ اعتکاف میں حاصل کیے ہوئے اسباق کی وجہ سے انسان تا زندگی اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں آکر اس کی عبادت کرنے، اس کا ذکر کرنے اور اپنے مقصد تخلیق پر غوروفکر کرنے کے قابل رہتا ہے۔
رمضان المبارک میں حاصل ہونے والے دروس یقینا بیش قیمت ہیں اور ان دروس پر مسلسل عمل پیرا ہو کر انسان اپنی دنیاوی اور اخروی زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے۔ روزوں کی فرضیت کا ایک بڑا مقصد تقویٰ کا حصول تھا۔ تقویٰ درحقیقت گناہوں سے اجتناب کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کے مطابق زندگی گزارنے کا نام ہے۔ تقویٰ اور طہارت کے قرآن اور حدیث میں بہت سے فوائد مذکور ہیں ۔ متقی شخص رمضان کی حد تک نہیں بلکہ ہمہ وقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی میں محو رہتا ہے۔ رمضان المبارک میں حاصل کیے ہوئے دروس کو ہمیں پوری زندگی پر لاگو کرنا چاہیے تاکہ ہم دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے ہمکنار ہو سکیں۔