اولاد انسان کابہت بڑا اثاثہ ہے ۔اس کی تربیت پر توجہ دینا اور اس کی خیر خواہی کے لیے کوشاں رہنا انتہائی ضروری ہے۔بعض لوگ اپنی اولاد کے مادی مستقبل کے حوالے سے تو متفکر رہتے ہیں لیکن ان کی اخلاقیات اور دین کے حوالے سے بالکل بھی توجہ نہیں دیتے ۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے دو عظیم شخصیات کا ذکر کیا جنہوں نے بطور باپ مثالی کردار ادا کیا۔ ان میں سے پہلی شخصیت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہے جنہوں نے اپنی اولاد کی پیدائش سے قبل ہی ان کے لیے دعا مانگی ''اے میرے پروردگار! مجھے نیک بیٹا عطا فرما۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسماعیل علیہ السلام جیسا عظیم فرزند عطا فرما دیا۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کچھ دوڑ دھوپ کے قابل ہوئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک خواب دکھلایا کہ وہ اپنے بیٹے کے گلے پر چھری چلا رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو خواب سے آگاہ کیا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے باپ کی خدمت میں عرض کیا ۔ اے بابا! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کر دیجئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب ان کے گلے پر چھری کو چلانے لگے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پکار کر کہا کہ آپ نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام زندگی کے اُن تمام امور میں جن کا تعلق اُخروی کامیابی کے ساتھ ہوتا اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بھی اپنے ہمراہ شریک کرتے۔ چنانچہ تعمیر بیت اللہ کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کردار کا ذکر سورہ بقرہ کی آیت نمبر127 میں یوںفرماتے ہیں ''اب جب بلند کر رہے تھے ابراہیم بنیادیں بیت اللہ کی اور اسماعیل بھی (اور وہ دعا کر رہے تھے ) اے ہمارے رب قبول فرما ہم سے (یہ خدمت )۔بے شک توہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘اس موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعا مانگی اس کا ذکر سورہ بقرہ کی آیت نمبر128 میں فرمایا'' اے ہمارے رب ! ہم دونوں کو اپنا فرماںبردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ اپنا فرمانبردار بنا ۔اور ہمیں دکھا (سکھا) ہماری عبادت کے طریقے اور ہم پر متوجہ ہو (ہماری توبہ قبول فرما) بے شک تو ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ ‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنی اولاد کے لیے مانگی گئی بہت سے دعاؤں کا ذکر سورہ ابراہیم میں بھی کیا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 35 سے 41 تک ارشاد فرماتے ہیں : '' اور جب کہا ابراہیم ؑنے اے میرے رب تو بنا دے اس شہر (مکہ) کو امن والا اور دور رکھ مجھے اور میرے بیٹوں کو کہ ہم عبادت کریں بتوں کی۔ اے ہمارے رب !بے شک میں نے آباد کیا ہے اپنی اولاد کو ایک ایسی وادی میں جو نہیں ہے کسی کھیتی والی، تیرے حرمت والے گھر کے پاس ۔اے ہمارے رب ! تاکہ وہ قائم کریں نماز کو۔تومائل کردے کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف اور رزق دے انہیں پھلوں سے تاکہ وہ شکر کریں۔اے ہمارے رب !بے شک تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں اور نہیں چھپتی اللہ پر کوئی چیز زمین اور آسمان میں ۔تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے عطا کیے مجھے بڑھاپے کے باوجود اسماعیل اورا سحاق۔ بے شک یقینا میرا رب دعا کاخوب سننے والا ہے ۔ اے میرے رب مجھے نماز قائم رکھنے والا بنا دے اورمیری اولاد میں سے بھی ۔ اے ہمارے رب تومیری دعا کو قبول فرما ۔ اے ہمارے رب مجھے بخش دینا اور میرے ماں باپ کو اور سب مومنوں کو جس دن حساب قائم ہو گا ۔ ‘‘
ان دعاؤں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی اولاد کی اخروی کامیابی سے کتنی دلچسپی تھی۔ آپ ان کے عقائد سے لے کراقامۃ الصلوٰۃ تک اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگا کرتے تھے۔ اسی طرح ان کے لیے لوگوں کی محبت اور رزق کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ سے طلب کیا کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو اخری وقت میں اس بات کی بھی وصیت فرمائی کہ وہ اللہ کے دین پر کاربند رہیںا ور آپ کے اس طرز عمل کو آپ کے پوتے حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی آگے بڑھایادیا ۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 132اور 133 میں یوں کیاہے ۔ ''اور وصیت کی اس دین کی ابراہیمؑ اور یعقوب ؑنے اپنے بیٹوں کو اے میرے بیٹو! بے شک اللہ نے انتخاب کیا ہے تمہارے لیے دین کا، تو تم ہرگز نہ مرنا مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔ ‘کیا تم گواہ تھے جب حضرت یعقوب پر موت آئی جب کہا انہوں نے اپنے بیٹوں سے میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے وہ کہنے لگے ہم عبادت کریں گے تیرے اور تیرے اباؤ اجداد ابراہیمؑ، اسماعیل ؑاور اسحاق ؑکے معبود یعنی ایک معبود کی اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔ ‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ساتھ حضرت لقمان نے بھی اپنے بیٹے کو بڑی خوبصورت نصیحتیں کیں ۔ان نصیحتوں میں اولاد کی تربیت کا ایک پورا ضابطۂ اخلاق موجود ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ لقمان میں حضرت لقمان کی شخصیت اور نصیحتوں کاذکر سورہ لقمان کی آیت نمبر12 سے 19میں یوں فرماتے ہیں : ''اور بلاشبہ یقینا ہم نے لقمان کو حکمت دی کہ تو اللہ کاشکر کر ۔اور جو شکرکرتا ہے تو بے شک صرف وہ اپنے نفس کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو بے شک اللہ بہت بے پراہ ، بہت تعریف والا ہے۔ اور جب کہا لقمان نے اپنے بیٹے سے جب کہ وہ اسے نصیحت کر رہے تھے ۔ اے میرے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ اور ہم نے وصیت (تاکید) کی انسان کو اپنے والدین کے ساتھ (حسن سلوک ) کی ۔اٹھائے رکھ اسے اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری کے باوجود اور اس کا دودھ چھڑانا دو سالوں میں اور یہ کہ تو شکر کر میرا اور اپنے والدین کا ،میری طرف تم سب کا لوٹنا ہے۔ اور اگر وہ دونوں زور دیں تجھ پر اس پر کہ تو شریک ٹھہرائے میرے ساتھ( اسے )جس کا تجھے علم نہیں ہے تو تم اطاعت نہ کرو ان دونوں کی اور سلوک کر ان دونوں سے دنیا میں اچھے طریقے سے اور پیروی کر اس شخص کے راستے کی جو رجوع کرتا ہے میری طرف۔ پھر میری ہی طرف تمہارا لوٹنا ہے۔ تو میں تمہیں خبر دوں گا اس کی جو تم عمل کرتے تھے۔اے میرے پیارے بیٹے بے شک وہ (اچھائی یا برائی ) اگر رائی کے کسی دانے کے برابر ہو پھر وہ کسی چٹان یاآسمانوں یازمین میں ہوتو اس کو اللہ لے آئے گا ۔بے شک اللہ باریک بین خوب خبردار ہے۔ اے میرے پیارے بیٹے ! تو نماز قائم کر اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے روک اور صبر کر اس (تکلیف) پر جو تجھے پہنچے۔ بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ اور نہ پھلا اپنا رخسار لوگوں کے لیے اور مت چل زمین میں اکڑ کر بے شک اللہ پسند نہیں کرتا ہر متکبر اور فخر کرنے والے کو۔ اور میانہ روی رکھ اپنی چال میں اور پست رکھ اپنی آواز کو بے شک یقینا گدھوں کی آواز بدترین آوازوں میں سے ہے۔ ‘‘
ان وصیتوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت لقمان کس طرح اپنے بیٹے کو شرک اور بداعتقادی سے بچنے کا درس دیتے ہوئے اس کو اپنے والدین کی اطاعت اور حقوق کی بھی رغبت دلاتے رہے۔ اسی طرح وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے علم اور خبر گیری سے اپنی اولاد کو آگاہ کرکے اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کا سبق پڑھاتے رہے۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے بیٹے کو صبر کرنے کی تلقین کی اور اپنی چال ڈھال میں میانہ روی کو اختیار کرنے کا حکم دیا ۔انہوں نے اپنے بیٹے کو رخسار پھلانے سے روک کر اوراپنی آواز کو پست کرنے کا حکم دے کر ان کو اعلیٰ اخلاقیات کا درس دیا۔ آج کل کے والدین مادیت پرستی کا شکار ہو کر اپنی اولاد کی تربیت سے اس حد تک غافل ہو چکے ہیں کہ ان کو اپنی اولاد کے معمولات کی کچھ بھی خبر نہیں۔ ہمیں اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنی اولاد کی تربیت پر بھی غوروخوض کرنا چاہیے تاکہ ہمارا انتہائی قیمتی اثاثہ ضائع ہونے سے بچ جائے۔